کشمیر اور سی اے اے پر یوروپی یونین میں مباحثے سے حکومت کیوں خوفزدہ ہے؟
عادل فراز
یوروپی یونین کے پارلیمنٹ میں سی اے اے اور کشمیر میں دفعہ ۳۷۰ ہٹائے جانے کے بعد موجود صورتحال اور پابندیوں کے خلاف ۶ قراردادوںکو بحث کے لئے منظوری دی گئی ہے۔بحث کے بعد ان قراردادوں کی تصویب کے لئے۲۹ اور ۳۰ جنوری کو بحث کے بعد ووٹنگ ہونا تھی جو کہ ملتوی کردی گئی ۔751 رکنی یورپی پارلیمنٹ میں سے 651 اراکین کی غیر معمولی اکثریت نے یہ قراردادیں منظور کی ہیں۔یوروپی یونین میں منظوری کے بعد یہ قراردادیںہندوستانی حکومت، پارلیمنٹ اور یورپی کمیشن کے سربراہان کو بھیجی جائیں گی۔ہندوستانی حکومت جو اس وقت آمرانہ مزاج کے ساتھ کام کررہی ہے ،اس کے لئے عالمی سطح پر کشمیر اور سی اے اے کے مسائل کو اٹھایاجانا قابل برداشت نہیں تھا ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر قانون روی شنکر پرساد اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کھل کر یوروپی یونین کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہوئے ۔حکومت نے اراکین پارلیمنٹ پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی اور کہاکہ کشمیر اور سی اے اے ان کا داخلی معاملہ ہے جس میں یوروپی یونین کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔جبکہ ہندوستانی حکومت نے یوروپی یونین کے کچھ اراکین کو دفعہ ۳۷۰ ہٹانے کے بعد صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے کشمیر مدعو کیا تھا ۔جبکہ یوروپی یونین نے خود کو ان اراکین پارلیمنٹ کے دورے سے الگ تھلگ کرلیا تھا اور بیان دیا تھاکہ ان کے اس دورے کا یوروپی یونین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس وفد کی آمدو رفت اور دیگر اخراجات کے سلسلے میں جس کمپنی نے تعاون کیاتھا اس پر بھی عالمی میڈیا میں سوالات قائم کئے گئے تھے مگر حکومت نے تمام سوالات اور اعتراضات کو درکنار کرتے ہوئے ان اراکین کو کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے جانے کی اجازت دی تھی ۔اگر کشمیر کے مسائل میں بی جے پی حکومت بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتی ہے تو پھر یوروپی یونین کے ان اراکین کو کشمیر جانے کی اجازت کیوں دی گئی تھی؟۔
یوروپی یونین نے ہندوستانی حکومت کے لئے تجویز پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ 'سی اے اے ہندوستان میں شہریت طے کرنے کےمیں خطرناک صورتحال پیدا کرے گا۔ اس میں شہرت سے محرم افراد سے متعلق عالمی سطح پر بڑا بحران پیدا ہوسکتا ہے اور یہ انسانوں کے لئے بڑے مصائب کی وجہ بن سکتا ہے۔اس تجویز میں اقوام متحدہ کے منشور، حقوق انسانی کی آفاقی اعلامیہ (یو ڈی ایچ آر) کے آرٹیکل 15 کے علاوہ 2015 میں دستخط کئے گئے ہندوستان – یوروپین یونین اسٹریٹیجک پارٹنرشپ جوائنٹ ایکشن پلان اور انسانی حقوق پر یوروپین یونین – ہندوستان موضوعاتی ڈائیلاگ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں ہندوستانی حکام سے اپیل کی گئی ہےکہ وہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کررہے لوگوں کے ساتھ 'مثبت مکالمہ قائم کریں اور 'امتیازی سلوک کا اظہار کرنے والےقانون کو منسوخ کرنے کے ان کے مطالبہ پر غور کریں۔یوروپی یونین کی یہ تجویز عالمی سطح پر ہندوستانی حکومت کی آمرانہ ذہنیت ،اقلیتوں کے ساتھ امیتازی سلوک ،ملک میں منافرانہ ماحول پید ا کرنے کی کوشش اور عوام سے مکالمہ نہ کرنے کے حکومت کے نظریے کو طشت از بام کرتی ہے ۔ہندوستانی حکومت کی پوری کوشش یہ ہے کہ یوروپی یونین میں کشمیر اور سی اے اے پر ووٹنگ نہ ہو اور بیرونی افراد ان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں ۔مگر حکومت نے یوروپی یونین کے اراکین اور حالیہ دنوں میں امریکہ سمیت ۱۶ ممالک کے سفیروں کو کشمیر دورے پر بلاکر اپنے مؤقف اور مطالبہ کو پہلے ہی مسترد کردیا تھا ۔
یوروپی یونین کے ایوان میں کشمیر اور سی اے اے پر بحث اور ووٹنگ کے اعلان سے پہلے نیا سال شروع ہوتے ہی بی جے پی حکومت نے ۱۶ ممالک کے سفیروں کو کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کی اجازت دی تھی جو صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے جموں اورکشمیر گئے تھے ۔ان ممالک میں امریکہ کے علاوہ بنگلہ دیش، ویتنام، ناروے، مالدیپ، جنوبی کوریا، مورکو، نائیجیریا وغیرہ شامل ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر میں موجود تازہ صورتحال ہمارا داخلی معاملہ نہیں ہے؟ اگر وہاں حالات بہتر ہیں اور کسی طرح کی کوئی پریشانی اور پابندی نہیں ہے تو پھر حکومت کشمیر کے حالات کو جانچنے اورپرکھنے کے لئے ہندوستانی عوام کے منتخب نمائندوں کو کشمیر جانے کی اجازت کیوں نہیں دے رہی ہے؟۔ آخر ہماری حکومت کو امریکہ اور دوسرے ممالک کے سفیروں پر اتنا اعتماد کیوں ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو نظرانداز کرکے بیرونی نمائندوں کو کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے بھیج رہی ہے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ کشمیر کے سلسلے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے ۔کشمیر کے معاملے میں بار بار ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی یہ کہاہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کے لئے تیار ہیں۔مگر ہندوستان نے امریکہ کی اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہاتھاکہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے جس میں ہم کسی دوسرے کو مداخلت کی اجازت نہیں دینگے ۔امریکہ کو اتنا واضح پیغام دینے کے بعد آخر امریکی اور دیگر ممالک کے نمائندوں کو کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی ؟ حکومت نے حزب اختلاف کے نمائندوں کو بھی اس سلسلے میں نظر انداز کیا اور دیگر سماجی تنظیموں سے منسلک افراد جو کشمیر جانا چاہتے تھے ان سے بھی اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی گئی ۔حکومت کشمیر کے سلسلے میں اپنا مؤقف خود واضح کرنے سے قاصر رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ ان تمام موجود مسائل پر اپنی جوابدہی طے کرنے کے بجائے حزب اختلاف اور دیگر عناصر کو ذمہ دار ٹہرانے میں مصروف ہے ۔یہی صورتحال سی اے اے اور این آرسی کے سلسلے میں پیش آرہی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ حالات کو سدھارنے اور مظاہرین سے مکالمہ قائم کرنے کے بجائے متنازع بیانات دیتے نظر آرہے ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات میں اس قدر تضاد ہے کہ عوام اب انکی ہر یقین دہانی کی کوشش کو کھلا ہوا فریب سمجھ رہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جب امریکہ اورروس جیسے دیگر ممالک دفعہ ۳۷۰ ہٹانے پر ہندوستان کے مؤقف کی تائید کررہے تھے اس وقت ہندوستانی حکومت نے ان ممالک کو اس سلسلے میں بیان بازی سے باز کیوں نہیں رکھا؟۔ کشمیر اور سی اے اے پر بیرونی طاقتیں خواہ حمایت میں بیان دیں یا مخالفت میں ،دونوں صورتوں میں حکومت کو سختی کے ساتھ اپنا مؤقف رکھنا چاہئے تھا مگر چونکہ اس وقت عالمی سطح پر ہندوستان کو اس سلسلے میں بڑی طاقتوں کی حمایت درکار تھی اس لئے بی جے پی حکومت نے خاموشی کو ترجیح دی ،مگر جیسے ہی یوروپی یونین نے کشمیر اور سی اے اے کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کے لئے ۶ قراردادوں کو منظور ی دی ،حکومت سکتے میں آگئی ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت بی جے پی حکومت کی پوری کوشش یہی ہے کہ کسی طرح یوروپی یونین میں مجوزہ قراردادوں پرووٹنگ نہ ہونے دی جائے ۔اگر ووٹنگ کے ذریعہ یہ قراردادیں منظور ہوجاتی ہیں تو ہندوستانی حکومت کو عالمی سطح پر اس سلسلے میں اپنی جوابدہی طے کرنی ہوگی اور عوام سے مکالمہ قائم کرکے سی اے اے کی منسوخی پر غورکرنا ہوگا۔ساتھ ہی کشمیر میں موجود صورتحال پر بھی حکومت اپنی جوابدہی کے بارے میں غور کررہی ہوگی ۔