نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی تقرری کو چیلنج کرنے والی درخواست سپریم کورٹ میں منظور
چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو حراستی کیمپوں میں نہیں بھیجنے کی یقین دہانی خوش آئند: مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی06/جنوری 2020ء۔آج سپریم کورٹ میں جمعیۃعلماء ہند اورآمسوکی طرف سے داخل دودرخواستوں کو چیف جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس بی آرگوی اور جسٹس سوریہ کانت کی تین رکنی بینچ نے سماعت کے لئے قبول کرلیا ان میں سے ایک درخواست میں پرتیک ہزیلاکی جگہ آسام میں نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ہتیش دیوشرماکی تقرری کو چیلنچ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ شہریت کا معاملہ انسانی زندگی سے جڑاہوا ایک حساس مسئلہ ہے اس لئے اس اہم عہدے پر کسی ایسے شخص کی تقرری کو درست نہیں ٹھہرایا جاسکتاجس کی غیر جانبداری مشکوک ہو، اس درخواست پر بحث کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل مسٹرکپل سبل نے عدالت سے درخواست کی کہ مسٹرہتیش دیوشرماایک متنازعہ شخصیت ہیں اس لئے ان کی تقرری پر دوبارہ غورکیا جانا چاہئے انہوں نے کہا کہ وہ غیرجانبدارشخص نہیں ہیں اپنی اس بات کی دلیل میں مسٹرکپل سبل نے کہا کہ جب مسٹرشرماکچھ نہیں تھے تو انہوں نے آسام میں جاری این آرسی عمل کے دوران مسلسل سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ ڈالی تھیں، جن سے ان کے جانبدارانہ رویہ کا برملااظہارہوتاہے، قابل ذکر ہے کہ اپنی ایک پوسٹ میں مسٹرشرمانے لکھا تھا کہ اگرکوئی بنگالی آسامی بھی بولتاہے تو محض زبان کی بنیادپر اسے این آرسی میں شامل نہیں کیا جاناچاہئے، اپنی بحث کے دوران مسٹرکپل سبل نے کہا کہ اس تعلق سے مسٹرہتیش دیوشرما اور آسام سرکارکو جواب دینا چاہئے کہ آخر اس طرح کی متنازعہ اور قابل اعتراض باتیں سوشل میڈیاپر کیوں کہی گئیں، اور آسام سرکارنے ان سب کو نظراندازکرتے ہوئے مسٹرشرماکو اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکیوں مقررکیا؟ دوسری درخواست میں این آرسی کے بعد آسام میں پیداہوئے ایک بڑے انسانی المیہ پر عدالت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں ایسے لاتعدادواقعات سامنے آئے ہیں جن میں والدین کا نام تو این آرسی میں ہے مگر ان کے بچوں کے نام این آرسی میں شامل نہیں ہے چنانچہ اب ان بچوں کو حراستی کیمپوں میں بھیجوانے کی تیاری ہورہی ہے، جمعیۃعلماء ہند کی اس اہم درخواست میں عدالت سے یہ گزارش کی گئی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایاجانا چاہئے کہ این آرسی سے باہرہوئے ایسے بچوں کو جن کی عمریں چودہ سال سے کم ہیں حراستی کیمپوں میں نہیں بھیجاجائے گا تاوقتیکہ تمام قانونی عمل مکمل نہ ہوجائے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ اس طرح کے معاملوں کو ٹریبونل میں بھیجنے سے پہلے ایک بارپھر دیکھاجانا چاہئے اور ان بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی جانی چاہئے کہ والدین کے ہندستانی ہوتے ہوئے ان کے بچے غیر ملکی کیسے ہوگئے؟ اس کے جواب میں اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے بھارت سرکارکی نمائندگی کرتے ہوئے بینچ کے سامنے کہا کہ چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو حراستی کیمپوں میں نہیں بھیجاجائے گا عدالت نے اٹارنی جنرل کے اس بیان کو اپنے آڈرکے ریکارڈمیں درج کرلیا اور دونوں درخواستوں پر مرکز اور آسام سرکارکو نوٹس جاری کرکے ان امور پر چارہفتے کے اندرجواب طلب کیا ہے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولاناسید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اطمینا ن کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ ان والدین کے لئے ایک خوش آئند خبر ہے جن کے بچوں کے نام این آرسی میں شامل نہیں ہیں، اب یہ بچے اپنے والدین کے ساتھ رہیں گے اور ان کے ساتھ ہی رہ کر قانونی عمل کو مکمل کرسکیں گے، انہوں نے کہا کہ یہ بات حیرت انگیز ہی نہیں ایک بڑاانسانی المیہ ہے کہ والدین تو ہندوستانی ہیں مگر ان کے بچے غیر ملکی قراردیدئے گئے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ آخر این آرسی کی تیاری میں یہ کس طرح کا قانونی فارمولہ اپنا یا گیا ہے۔ یہ قانونی عمل کا تضادہے یا اس کے پیچھے کوئی دوسری وجہ چھپی ہوئی ہے اس کا پتہ لگایا جانا چاہئے،اس کے ساتھ ہی مولانا مدنی نے کہا کہ جب ایک ریاست میں تضادات کا یہ حال ہے تو جب پورے ملک میں این آرسی لاگوہوگی تو اس وقت یہ تصویر کس قدربھیانک ہوگی اس کا بس تصورہی کیا جاسکتاہے، انہوں نے کہا کہ دلیلیں دی جارہی ہیں کہ لوگ ناحق شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کی مخالفت کررہے ہیں کسی کو بھی ان سے نہیں ڈرنا چاہئے اور ملک کے کسی شہری کی شہریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن آسام میں اس کا جو تلخ تجربہ ہوا اور اس کے جوخطرناک نتائج سامنے آئے ہیں اس نے ملک کے ہر انصاف پسندکو جھنجھوڑکررکھ دیا ہے اور وہ انہی خدشات کے پیش نظراس طرح کے قانون کی مخالفت کررہے ہیں کیونکہ آج این آرسی کے بعد جو انسانی بحران آسام میں پیداہوا ہے وہ کل کو ملک کی ہر ریاست میں پیداہوگا اور اس کی وجہ سے پورے ملک میں انتشاراور خوف کی ایک ایسی لہر پیداہوسکتی ہے جوایک بڑی انسانی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ پرتیک ہزیلا کی جگہ نئے کوآرڈینیٹر کی تقرری پر انہوں نے کہا کہ شہریت زندگی اور موت سے جڑاہوا ایک انتہائی حساس معاملہ ہوتاہے اور آسام میں کچھ لوگوں نے تو اسے مذہب سے جوڑدیا ہے ایسے میں اس اہم عہدے پر کسی ایسے شخص کی تقرری انتہائی غلط اور نامناسب بات ہے جس کی جانبداری پہلے ہی سے مشکوک ہوچکی ہے، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے عہدوں پر تو کسی ایسے آدمی کی تقرری ہونی چاہئے تھی جو ایماندارہوتے ہوئے غیر جانبداربھی ہواور سیاست و مذہب سے اوپر اٹھ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کرسکے، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ عدالت نے اس پر مرکزاور آسام سرکارسے جواب طلب کیا ہے چنانچہ امید کی جانی چاہئے کہ عدالت اس معاملہ کے تمام پہلوں پر غورکرنے کے بعد کوئی ایسا فیصلہ دے جو ملک ریاست اور خاص طورپرآسام کے شہریوں کے حق میں مفید ثابت ہوگی۔ واضح رہے کہ آج کی عدالتی کارروائی کے دوران آمسو اور جمعیۃعلماء آسام کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی اور سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید بھی موجودرہے۔واضح رہے کہ جمعیۃعلماء آسام کے صدرمولانا مشتاق عنفر اور ان کی ٹیم این آرسی کے مسئلہ کو شروع ہی سے دیکھ رہی ہے اور متاثرین کوہر طرح کی قانونی امدادبھی پہنچارہی ہے۔