احتجاجی آوازوں کو دبانے میں ناکام انتظامیہ تشدد پر آمادہ
عادل فراز
ایوان میں شہریت ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد جس طرح قومی سطح پر اس قانون کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں ،آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ۔یہ احتجاجی آوازیں بلاتفریق مذہب و ملت بلند ہورہی ہیں جو جمہوری اور سیکولر نظام کے تحفظ اور بقا کے لئے بیحد ضروری ہے ۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ہندو،مسلمان ،سکھ ،دلت اوردیگر قوموں نے باہم سی اے اے کے خلاف آواز احتجاج بلند کی ۔خاص طورپر ہندوستان کے تعلیمی ادارے جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی،جے۔این۔یو۔،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،بنارس ہندویونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء نے ذات ،پات اور مذہب کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر جس طرح حکومت کی مذموم پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ،اس کی مثال نہیں ملتی ۔ان مظاہروں کی ایک خاص بات یہ رہی کہ بغیر کسی مرکزی قیادت کے اتنی بڑی تعداد احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلی ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایک مضبوط قیادت کی تلاش میں تھے ۔سوچئے اگر اس مزاحتمی تحریک کو ایک مضبوط قائد مل گیا ہوتا تو اس کے نتائج کیاہوتے ؟ مگر افسوس ہمارے پاس مرکزی قیادت کا فقدان ہے۔
ان مظاہروں سے زعفرانی تنظیمیں اورحکومت دونوں فکرمند اور پریشان نظر آئے ،یہی وجہ ہے کہ ان مظاہروں کو بدنام کرنے کے لئے شرپسند عناصر کا سہارا لیا گیا اور پولیس کے وحشیانہ اقدام کے ذریعہ ان مزاحمتی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی ۔مگر مظاہرین حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں اور مسلسل صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں ۔انتظامیہ جانبدارانہ کاروائی کررہی ہے اور بے گناہوں پر فرضی مقدمات قائم کئے جارہے ہیں ۔خوف کی سیاست ہمارے جمہوری نظام پر غالب آرہی ہے ،اس میں انتظامیہ کی جابنداری کی بھی پوری حصہ داری ہے ۔
شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف جو مزاحمتی مہم شروع ہوئی تھی ،وہ اب اپنے عروج پر ہے ۔پولیس کے مظالم اور وحشیانہ اقدامات کے بعد بھی مظاہرین مسلسل سڑکوں پر آرہے ہیں ۔پولیس جسے عوام کا محافظ سمجھا جاتاہے ،حکومت کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے ۔مختلف شہروں میں جس طرح پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا اس سے ثابت ہوتاہے کہ انہیں مظاہرین کی آواز دبانے کے لئے کتنے سخت احکامات دیے گئے تھے ۔مگر کیا پولیس حکومت کے سیاہ و سفید میں شریک ہونے کو اپنا فرض سمجھتی ہے؟ کیا جمہوری اور سیکولر نظام میں پولیس کا یہی رویہ ہونا چاہئے ؟ کیا بچوں اور بوڑھوں پر وحشیانہ انداز میں لاٹھیاں برساناہمارے محافظ دستوں کو زیب دیتاہے ؟۔اگر مظاہرین تشدد پر آمادہ تھے تو ان پر پانی کی بوچھار کی جاتی ،آنسو گیس کے ذریعہ انہیں روکنے کی کوشش ہوتی ،ہوائی فائرنگ ایک بہترین متبادل تھا ،مگر جو تصویریں اور ویڈیو سامنے آرہے ہیں ان میں پولیس براہ راست گولیاں برسارہی ہے جو تشویشناک ہے ۔پولیس کے ذریعہ تمام مظاہروں کی ویڈیوگرافی کرائی جارہی ہے ،سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہیں، ان کے سہارے شرپسند عناصر کی شاخت کی جاسکتی ہے مگر بے گناہوں کو گرفتارکرکے انہیں زدوکوب کرنا قابل مذمت ہے ۔پولیس عام لوگوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے،مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا جارہاہے ۔بے گناہ افراد کی مسلسل گرفتاری ہورہی ہے ۔گرفتار افراد کو قانونی سہولتیں مہیاکرانے میں بھی پولیس رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔پولیس کا کام جوابی اور انتقامی کاروائی کرنا نہیں ہے بلکہ بغیر کسی کو نقصان پہونچائے ہوئے صورتحال پر قابو پانا ہے ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،حوزہ علمیہ امام حسینؑ مظفر نگر،بجنور ،میرٹھ اور لکھنؤ جیسے دیگر شہروں میں پرتشدد کاروائی کی گئی ۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو پولیس نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ۔لڑکیوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں ۔طلباء اور طالبات کو مجرموں کی طرح مارا گیا ،علماء کے وقار کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی اور پرامن مظاہروں کو نقض امن کی کوششوں میں تبدیل کردیا گیا ،کیا اس کے لئے انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہے؟۔کیونکہ ابھی تک پولیس یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے کہ پتھر بازی اور گولیاں چلانے والے مظاہرین ہی تھے یا پھر ان کے درمیان باہری لوگ شامل تھے ۔حوزہ ٔ علمیہ امام حسینؑ کے جن طلباء کوپولیس نے گرفتار کیاہے ابھی تک ان کا کوئی ایسا ویڈیو جاری نہیں کیا گیاہے جس سے یہ واضح ہوکہ مدرسے کے طلباء تشدد میں شامل تھے ۔مدرسے میں گھس کر بے قصور بچوں پر لاٹھیاں برسانا اور علماء کی توہین کرنا بغیر منصوبہ بندی کے ممکن نہیں ہے ۔اس منصوبہ بندی کے پیچھے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو ایک بار پھر مظفر نگر کو فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جھلسادینا چاہتے ہیں ۔اس لئے پولیس کواپنا مؤقف واضح کرنا چاہئے ۔
پرامن مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ آرایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں کے افراد احتجاجی مظاہروں میں شامل تھے جنہوں نے تشدد کو ہوادی ۔لکھنؤ کے پریورتن چوک پر پولیس پتھر بازوں کو گرفتار کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔صدف جعفر جو احتجاجی مظاہرے کو اپنے فیس بک پیج پر لائیو دکھارہی تھیں ،انہیں بھی نقض امن کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا ۔جو لوگ صدف سے پولیس حراست میں ملے ہیں ان کے مطابق پولیس نے صدف پر بے انتہا تشدد کیاہے ۔اسی طرح روزنامہ ’ دی ہندو‘ کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورینٹ سے حراست میں لیا۔عمر راشد کو انکے مذہب پر گالیاں دی گئیں اور نازیبا تبصرے کئے گئے۔دوگھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد انہیں وزیراعلیٰ کے دفتر اور یوپی پولیس کے چیف کے کہنے پر رہا کیا گیا۔لکھنؤ میں دیپک کبیر جو ایک تھیٹر اداکار ہیں ،کو بھی حراست میں لیاگیا ۔ان کے مطابق وہ اپنےدوستوں کی خبر لینے کے لئے تھانے گئےتھے جہاں انہیں بھی تحویل میں لے لیا گیا۔اس کے علاوہ کانپور،نہٹور،لکھنؤ اور دیگر علاقوں میں متعدد موتیں ہوئی ہیں ۔مظاہرین کا کہناہے کہ یہ اموات پولیس کی گولیوں سے ہوئی ہے جبکہ پولیس کاکہناہے مظاہرین نےہی مظاہرین کو نشانہ بنایا۔ آیا یہ ممکن ہے ؟ مظاہرین بھلا کسی اپنے ساتھی کو گولی کیوں ماریں گے ؟ اگر اس کے پیچھے پولیس نہیں ہے تو پھر اس کی جانچ ہونی چاہئے کہ مظاہرین کے درمیان وہ کون لوگ تھے جو مظاہرین پر ہی گولیاں چلارہے تھے؟ ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اور طالبات پر جس طرح تشدد کیا گیا اس میں پولیس کا رویہ مشکوک نظر آتاہے ۔کیا یہ وہی پولیس ہے جو عوام کی محافظ ہے اور امن و امان کی بحالی کے لئے تگ و دو کرتی ہے ؟۔ نہیں ہر گز نہیں ! یہ پولیس تو کسی ایسے ہاتھ کی کٹھ پتلی نظر آتی ہے جس کے ہاتھ گجرات اور مظفر نگر میں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔حکومتیں بدل جاتی ہیں ۔آمریت اور ظلم کو دوام نہیں ہوتا ،یہ حقیقت انتظامیہ کو سمجھنی چاہئے ۔بہتر ہوگا کہ انتظامیہ ان چہروں کی شناخت کرے جنہوں نے پرامن مظاہرین کے درمیان گھس کر تشدد کو ہوادی۔ان لوگوں کا تعلق یقیناََ کسی سیاسی جماعت اور ایسی متشدد ذہنیت کی تنظیموں سے ہوگا جو ملک میں امن و امان نہیں دیکھنا چاہتیں۔ایسے لوگوں پر سخت کاروائی ہی پولیس کا وقاربحال کرسکتی ہے ۔ورنہ پولیس کو یہ سمجھ لیناچاہئے کہ عوام کا اعتبار اور اعتماد ان کے اوپر سے ختم ہوچکاہے ۔اب عوام پولیس کو ایک حزب مخالف کے طورپر دیکھتی ہے جو جمہوریت کے لئے خطرناک ہے ۔