بابری مسجد ملکیت مقدمہ: مسجد کو توڑنے کا مقصدحقیقت کو مٹانا تھا
گزیئٹیر کی بنیادپر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ مندرتوڑکر بابرنے مسجد بنوائی، جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیودھون کا استدلال
نئی دہلی :بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں روزانہ کی بنیاد پر چلنے والی سماعت کاآج28 واں دن تھا جس کے دوران تمام مسلم فریقین کی نمائندگی کرنے والے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ روز کی سماعت پر انہوں نے مسجد کے اندرونی احاطہ میں موجود ریلنگ کے تعلق سے بحث کی تھی اوراب وہ عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ سوٹ نمبر 5 میں فریق مخالف نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسجد کے منبر اور مسجد کی باہری دیوار پر مسجد کے ہونے کے نشانات ہیں یعنی کہ لفظ اللہ اور کلمہ و دیگر الفاظ لکھے ہوئے ہیں اور ان لفظوں کے مطابق بابری مسجد کی تعمیر 935 ہجری میں ہوئی تھی جسے بابر نے تعمیر کرایا تھا۔ڈاکٹرراجیودھون نے آج بابرنامہ کے الگ الگ ایڈیشن کے ترجموں کے ٹکڑے پڑھے اور اس کی بنیادپر دلیل دی کہ متنازعہ عمارت پر عربی اورفارسی کتبوں پر اللہ لکھا تھا انہوں نے کہا کہ 1992میں مسجد کو منہدم کرنے کا مقصدحقیقت کو مٹایاجاناتھا اور اب اس کے بعد عدالت میں ملکیت کے دعویٰ کئے جارہے ہیں، ڈاکٹردھون وضاحت کی کہ بلاسبب سب کچھ منہدم کردینے سے یہ ارادہ صاف ظاہر ہوجاتاہے کہ عدالت میں دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لئے ایسا کیا گیا، بابرنامہ کے حوالہ سے ڈاکٹرراجیودھون نے یہ بھی کہا کہ وہاں یعنی ایودھیامیں مندربھی بابرنے بنوایا تھا اور ہندوفریق گزیٹیرکا حوالہ اپنی سہولت کے مطابق دے رہے ہیں لیکن گزیٹیر الگ الگ وقت الگ الگ نظریہ سے جاری ہوئے تھے لہذاسیدھے طورپر یہ نہیں کہاجاسکتاکہ بابرنے مندرتوڑکر مسجد بنائی تھی انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1855سے پہلے گزیٹیرپر یقین نہیں کیا جاسکتاانہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ دوسرافریق گزیٹیر اور بابرنامہ کے چنندہ حصوں کو ہی عدالت میں پیش کررہا ہے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ مسجد میں موجود نشانات 1934 میں رونما ہونے والے ہندو مسلم فساد سے قبل کے ہیں لہذا ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کئے جانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔دوران بحث جسٹس اے ایس بوبڑے نے وکلاء سے دریافت کیا کہ آیا منبر کیا ہوتا ہے جس پر عدالت میں موجود وکلاء ظفر یاب جیلانی، اعجاز مقبول اور نظام پاشا نے انہیں بتایاکہ ممبر وہ جگہ ہوتی ہے جہاں سے امام خطاب کرتا ہے اور جمعہ کی نماز سے قبل امام منبر کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتا ہے اور پھر اس کے بعد نماز ادا کی جاتی ہے۔اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں کو ڈاکٹر راجیو دھون نے مزید بتایا کہ 1885 سے قبل ہمیشہ سے ہندوؤں کا دعوی رہا ہے کہ رام کا جنم رام چبوترے کے پاس ہوا تھا جو مسجد کے باہری صحن میں تھا لہذا آج یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ عقیدت مند رام چبوترے کے پاس کھڑے ہوکر مسجد کے اندرونی صحن میں عبادت کیا کرتے تھے درست نہیں کیونکہ مسجد کے منبر کے پاس خود مسجد کی خصوصیات کے نشانات موجود ہیں لہذا ہندو عقیدت مند اس جانب دیکھ کر کیوں عبادت کرے گا؟ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت میں بتایا کہ گذشتہ بارہ دنوں میں عدالت کے سامنے یہ بحث کی کہ بابری مسجد کو شہید کیا گیا نیز مسجد کی تعمیر شرعی طریقہ سے کی گئی تھی اور ہندوؤں کے اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ رام کا جنم مسجد کے اندروانی صحن میں ہوا تھا جبکہ ہزاروں دستاویزات، درجنوں گواہیاں اور سیاحوں کی رپورٹ میں یہ درج ہے کہ مسجد کے باہری صحن میں رام چبوترے پر ہندو ہمیشہ پوجا کیا کرتے تھے اور ان کا یقین تھا کہ رام کا جنم وہیں ہوا تھا۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ وہ اب عدالت میں بقیہ دو موضوع پر جس میں رام للا(مورتی) کی قانونی حیثیت یعنی کہ Juristic Personality اورمقررہ مدت میں داخل کئے سوٹ کی حیثیت یعنی کہLimitation پر بحث کریں گے۔ڈاکٹرر راجیو دھو ن نے متذکرہ عنوان پر اپنی بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ویدیک عہد میں مورتیوں کی پوجا نہیں کی جاتی تھی بلکہ مخصوص علاقوں اور چیزیں جس میں درخت، ندیاں وغیرہ کو پوتر مانا جاتا تھا اور ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ڈاکٹر راجیو دھو ن کی بحث نامکمل رہی کیونکہ آج عدالت نے اپنی کارروائی جلد ختم کردی اور فریقین کو کہا کہ عدالت پیر کے دن سے چار کے بجائے پانچ بجے تک اس مقدمہ کی سماعت کریگی تاکہ 18 اکتوبر تک فریقین کے دلائل کی سماعت مکمل ہوسکے۔چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی نے عدالت میں موجود وکلاء کو بتایا کہ انہیں اور اگلے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کو عدالتی کام کاج کے علاوہ انتظامی امور بھی انجام دینے ہوتے ہیں لہذا وہ کبھی دیر سے عدالت میں پہنچتے ہیں یا پھر کبھی جلدی اٹھ جاتے ہیں جس کا انہیں ملال ہوتا ہے، ایڈوکیٹ راجیو دھون نے چیف جسٹس کے اس بیان پر انہیں یقین دہانی کرائی کہ ان کی جانب سے عدالت کو حسب سابق مکمل تعاون ملتا رہے گا۔واضح رہے کہ جب ایودھیاکے ہومان گڑھی کے مہنت ابھے رائے داس اور اس کے حامیوں نے 23-22/دسمبر کی درمیانی شب میں مسجدمیں گھس کر عین محراب کے اندرایک مورتی رکھ دی صبح ہوتے ہی ڈیوٹی پر متعین کانسٹبل ماتوپرشاد نے پولس چوکی میں رپورٹ درج کرائی کہ کے ابھے رام داس، سدرشن داس، اور پچاس، ساٹھ نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اندرمورتی استھاپت کرکے مسجد کو ناپاک کردیا ہے جس سے نقض امن کاخطرہ پید اہوگیا ہے، اس حادثہ کے بعد مقامی مسلمانوں نے موتی ہٹانے کے لئے قانونی مددلی لیکن ناکام ہوگئے جمعیۃعلماء ہند کے اکابر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا ابوالکلام آزاداور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ نے اس وقت ملک کے وزیر اعظم جواہر لال نہروکواس سنگین معاملہ پر متوجہ کیا جنہوں نے فورایوپی کے وزیراعلیٰ گوبندبلبھ پنت کو مورتی ہٹانے کی ہدایت دی، وزیر اعظم کے دباومیں ان کو مقامی انتظامیہ کو ہدایت جاری کرنی پڑی، لیکن فیض آبادکے سنگھی ضلع مجسٹریٹ نے مہنتوں کو بلاکر کہا کہ میرے پاس اوپر سے آڈرآگئے ہیں، مگر میں چند دن اس کی تعمیل میں توقف کرسکتاہوں اس بیچ تم لوگ اسٹے آڈرحاصل کرلو چنانچہ ضلع مجسٹریٹ کی سازش سے اسٹے حاصل کرلیا گیا اورمقامی انتظامیہ نے نقض امن کی آڑمیں مسجد کو قرق کرکے اس کا ریسورمقررکردیا جس نے مسجدمیں منمانے تصرفات کئے اس حادثہ کے وقت جمعیۃعلماء ہند کے ورکنگ کمیٹی کے ممبرمولانا ابوالکلام آزادنے کہا تھا کہ میرے ذہن میں ایک سوال گونج رہا ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کو ایک ملت کی حیثیت سے قبول کیا جائے گایانہیں اگراس کا جواب اثبات میں ملتاہے تو بابری مسجد سے بت ہٹائے جائیں گے اور اگر آئندہ چل کر نفی ہوتی ہے تو انتظارکیجئے کہ مستقبل میں کیا ہوتاہے۔دوران بحث عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے