بابری مسجد ملکیت مقدمہ: مسجد کی تعمیر کے لئے کسی مندرکومنہدم کئے جانے کاکوئی ثبوت نہیں، ڈاکٹرردھون کی دلیل
نئی دہلی: بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں روزانہ کی بنیاد پر چلنے والی سماعت کاآج27 واں دن تھا جس کے دوران سب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کو چنئی کے پروفیسر شنمگم کی جانب سے بھیجے گئے دھمکی آمیز خط کے خلاف داخل توہین عدالت کی پٹیشن پر بحث کرتے ہو ئے عدالت کو بتایا کہ پروفیسر شنمگم کو عدالت کی جانب سے جاری کی گئی نوٹس مل گئی ہے جس پر اب عدالت کو کارروائی کرنی چاہئے،اسی درمیان پروفیسر شنمگم کے وکیل نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ عدالت اور ڈاکٹر راجیو دھون سے معذرت اور غیر مشروط معافی مانگنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں سخت لہجے میں کہا کہ یہ سب غیر ضروری باتیں خط میں لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کپل سبل نے عدالت سے کہا کہ ان کی منشاء یہ نہیں ہے کہ پروفیسر شنمگم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے لیکن مستقبل میں ایسا دوبارہ نہ ہو اس کے لئے انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا، اب جبکہ پروفیسر شنمگم نے عدالت اور ڈاکٹر راجیودھون سے معافی طلب کرلی ہے وہ معاملہ کو رفع دفع کرتے ہیں۔متذکرہ عدالتی کارروائی کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کا شکریہ ادا کیاکہ عدالت نے ان کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت پر مثبت کارروائی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پروفیسر شنمگم کو معافی طلب کرنا پڑی نیز وہ بھی پروفیسر شنمگم کو معاف کرتے ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ روز جسٹس چندرچوڑ کی جانب سے رام چبوترہ اور مسجد کے اندرونی صحن کے درمیان لگائی گئی ریلنگ کے تعلق سے پوچھے گئے سوال پر آج وہ عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ گذشتہ عدالتی کارروائی کے اختتام کے بعد سے شب دیر گئے تک ان کی ٹیم نے تما م عدالتی ریکارڈ کا معائنہ اور مطالعہ کیا جس کے دوران انہیں ایک بھی ثبوت ایسانہیں ملا جو اس بات کی تصدیق کرتا ہو کہ عقیدت مند ریلنگ کے پاس سے مسجد کے اندرونی صحن کی جانب دیکھ کر پوجا پراتھنا کیا کرتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ رام کا جنم مسجد کے اندرونی صحن میں درمیانی گنبد کے نیچے ہوا تھا۔اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں کو ڈاکٹر راجیو دھون نے مزید بتایا کہ 1885 سے قبل ہمیشہ سے ہندؤں کا دعوی رہا ہے کہ رام کا جنم رام چبوترے کے پاس ہوا تھا جو مسجد کے باہری صحن میں تھا لہذا آج یہ نتیجہ اخذ کرلینا کہ عقیدت مند رام چبوترے کے پاس کھڑے ہوکر مسجد کے اندرونی صحن میں عبادت کیا کرتے تھے درست نہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ وہ مکمل دیانتداری اور ذمہ داری سے آج عدالت میں یہ بیان دے رہے ہیں کہ مکمل عدالتی ریکارڈ کو کھنگالنے کے بعد بھی انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس پر جسٹس چندر چوڑ نے نتیجہ اخذ کرلیا تھا۔دوران بحث جسٹس اشوک بھوشن اور ڈاکٹرر اجیو دھون میں اس وقت گرما گرم بحث ہوگئی جب جسٹس بھوشن نے ڈاکٹر راجیو دھون سے کہا کہ وہ گواہوں کی گواہیاں مکمل نہیں پڑھ رہے ہیں جس پر ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ وہ فریق مخالف کا جواب دے رہے ہیں لہذا وہ عدالت میں اسی بات کا جواب دیں گے جو سوال فریق مخالف نے اٹھایا ہے نیز ان پر یہ الزام عائد کرنا کہ وہ گواہی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررہے ہیں بے بنیاد ہے۔ ڈاکٹر راجیو دھون کو جسٹس بھوشن نے کہا کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا بلکہ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ جو گواہی ہندو فریقین نے نہیں پڑھی اس پر بھی عدالت غور کرسکتی ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے ریلنگ کے تعلق سے آج عدالت میں 13 صفحات پر مشتمل نوٹ بھی پیش کیا اور عدالت کو بتایا کہ ہندو فریق نے خود ان کی عرضداشتوں میں اس بات کا کہیں ذکر ہی نہیں کیا ہے کہ ریلنگ کے پاس کھڑے ہوکر عقیدت مند مسجد کے اندرونی صحن کی جانب دیکھ کر عبادت کیا کرتے تھے بلکہ ان کی1885 کی عدالتی کارروائی میں رام کا جنم رام چبوترے پرہونے کا دعوی کیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ 19 جنوری 1885 کو مہنت رگھورداس کی جانب سے داخل کردہ مقدمہ میں درج کیا گیا تھا کہ ایودھیا میں رام کا جنم ہوا تھا نیز مسلمان مسجد کے اندرونی صحن میں نماز ادا کیا کرتے تھے اور باہری صحن میں چبوترے پر ہندو پوجا کیا کرتے تھے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے آج عدالت میں ریلنگ کے تعلق سے دی جانے والی گواہی پڑھی جن میں گواہان شری رام ناتھ مشراء، شری حوصلہ پی ڈی ترپاٹھی،شری رام تیواری،مہنت بھاسکر داس،اور دیگر شامل ہیں،شری رام ناتھ نے اپنی گواہی میں اعتراف کیا تھا کہ مسجد کے باہری صحن میں واقع چبوترہ، سیتا کی رسوئی، گربھ گرہ یعنی کہ درمیان میں ریلنگ کی دوسری جانب پوجا کیا کرتے تھے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ متذکرہ گواہوں کی گواہیوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ رام چبوترہ کوہی ہمیشہ سے رام کی پیدائش کی جگہ مانا گیا ہے نیز ریلنگ کے پاس سے کھڑے ہوکر اندرونی صحن کی جانب دیکھ کر پوجا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتاہے لہذا جسٹس چندر چوڑ کو اپنے نظریہ پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ 1855کے فساد کے بعد رام چبوترہ اور اندورنی صحن کے درمیان ریلنگ لگا دی گئی تھی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 1855 سے قبل مسجد میں نماز ادا کی جاتی تھی۔ ریلنگ کے موضوع پر بحث مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مسجد پر ملنے والے نشانات پر بحث کی جن سے مسجد کی پہچان واضح ہوتی ہے