بابری مسجد ملکیت مقدمہ: 1949میں مسلمانوں کے پاس مسجد کی چابی ہونے کا ثبوت عدالت میں پیش
نئی دہلی: وکیل ظفر یاب جیلانی نے بحث کی جبکہ دوسرے سیشن دوپہر کھانے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیود ھو ن نے اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کسی بھی مذہب کے مذہبی عقیدے پر قطعی اعتراض نہیں ہے بلکہ عقیدے کا سہارا لیکر متنازعہ اراضی پر اپنا دعویٰ پیش کرنے پر اعتراض ہے، انہوں نے مزید کہا کہ 1989 سے قبل Juristic Personality یعنی کے سوئم بھؤنام کے کسی بھی فریق کا وجود نہیں تھا۔ جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے آج عدالت کو بتایا کہ وہ پہلے سو ٹ نمبر 1 اور سوٹ نمبر 5 پر اپنی بحث کا اختتام کریں گے اس کے بعد و ہ سوٹ نمبر 4 پر بحث شروع کریں گے۔ انہوں نے 22 اور 23 دسمبر 1949 کی درمیانی شب میں ا نجام دیئے گئے عمل کا حوالہ دیا اور کہاکہ 1949 سے قبل نرموہی اکھاڑہ کا اندرونی صحن پر کوئی دعوی ٰہی نہیں تھا مگرآج وہ اندرونی صحن پر دعو ی کررہے ہیں جو غیر قانونی طور پر شروع ہوئے عمل سے ہے لیکن قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی کام غیر قانونی طریقہ سے کیاجائے اور پھر اس پر قانونی طریقہ سے دعوی کیا جائے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایاکہ 1858 سے قبل شبعیت کا بیرونی صحن پر قبضہ تھا جس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن آج اندرونی صحن پر بھی دعویٰ کیا جارہا ہے جو بے بنیاد ہے کیونکہ 1989 میں پہلی بار اندورنی صحن پر دعویٰ کیاگیا۔انہوں نے مزید کہاکہ اگر نیا مندر بنتا ہے تو نرموہی اکھاڑہ کو انتطامی امور کی ہی ذمہ داری ملے گی لہذا ان کا حق ملکیت پر دعوی بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ وہ کبھی متنازعہ اراضی کے مالک تھے ہی نہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے وقت کے ساتھ ساتھ نرموہی اکھاڑہ کے بدلتے دعوؤں پر عدالت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ 1885 میں سب سے پہلے مہنت رگھورداس نے سوٹ داخل کیا تھا جسے نرموہی اکھاڑہ نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا پھر بعد میں ا سے قبول کرلیا گیا اسی طرح جنم استھا ن نام کی کوئی چیز نہیں ہے لیکن بعد میں اسے قانونی فریق یعنی کہ Jurisdical Entityتسلیم کرلیا گیا۔ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ ہندوستان کثیر مذہبی ملک ہے اور یہاں مذہبی عبادگاہیں کثیر تعداد میں ہے لہذا گر کسی پختہ ثبوت کے Next Friend یعنی کہ قانونی مختار کو عدالت قبول کرنے لگ جا ئے تو ہندوستان میں ہاہاکار مچ جائے گی،کوئی بھی شخص کھڑا ہوکر اپنا دعوی پیش کرنے لگ جائے گا۔آج عدالت نے ڈاکٹر دھو ن سے دریافت کیا کہ ان کے مطابق قانونی فریق یعنی کہ Jurisdical Entityکی کیا اصطلاح ہے جس پرڈاکٹر دھو ن نے کہا کہ یہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ایسے کسی شخص یاچیز کا فریق تسلیم کیا کرلیاجائے جس کا وجود ہی نہیں ہے،ڈاکڑ دھو ن نے عدالت سے کہا کہ وہ اس تعلق سے مزید بحث اگلے چند ایام میں کریں گے فی الحال وہ نرموہی اکھاڑہ کی قانونی حیثیت پر اپنی بحث مکمل کرلینا چاہتے ہیں۔دوران سماعت جب سوئم بھو یعنی کہ اچانک کسی چیز کے وجود میں آنے پر بحث چل رہی تھی جسٹس بوبڑے نے ڈاکٹر راجیو دھون سے پوچھا کہ کعبہ کا وجود کیسے ہوا جس پر عدالت میں موجود جمعیۃ علماء ہند کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت کوبتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کی تھی۔آج ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی پیر تک ملتوی کردی۔ صبح کے سیشن میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے عدالت کو 1934 سے لیکر 1949کے درمیان بابری مسجد میں مسلمانوں کے ذریعہ عبادت کئے جانے کے ثبوت پیش کئے۔ظفر یاب نے عدالت میں بیس دستاویزات جس میں فیض آباد عدالت کا فیصلہ، بابری مسجد کی تزئین کاری کا عدالتی فیصلہ، محمد ذاکر کے ذریعہ بیراگی سے پیسہ حاصل کرنے کی رسید، تہور خان کے ذریعہ بابری مسجد کی مرمت کے بل کا تقاضا،پی ڈبلیو ڈی کی جانب سے سے جاری کئے گئے دستاویزات جس میں انہوں نے بابری مسجد کی مرمت پر اطمنان کا اظہار کیا تھا، بابری مسجد کے پیش امام مولوی عبدالغفار کی جانب سے تنخواہ ملنے کی رسید، پیش امام کی جانب سے فیض آباد وقف کمشنر کے روبرو بقایا تنخواہ پانچ روپئے ماہانہ کے دستاویزات،محمد ابراہیم وقف انسپکٹر کی جانب سے داخل کردہ رپورٹ کے جس کے مطابق 10 اور 12 دسمبر 1949 میں نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو پریشان کیا گیا تھا،وقف کمشنر کی رپورٹ جس میں انہوں نے 23 دسمبر 1949 کو بابری مسجد کی چابی مسلمانوں کے پاس ہونے اور جمعہ کی نماز ادا کیئے جانے کی رپورٹ پیش کی تھی۔ وغیر دستاویزات عدالت میں پیش کیئے۔اسی طرح ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی نے اس معاملہ میں گواہی دینے والے 13 گواہوں کی گواہیا ں بھی عدالت میں پڑھ کر سنائی جنہوں نے دوران گواہی عدالت کو بتایا تھا کہ وہ بابری مسجد میں 1934 سے لیکر1949 کے درمیان نماز ادا کرنے جایا کرتے تھے۔نماز ادا کرنے کے تعلق سے گواہی دینے والے گواہوں میں محمد حسین (ایودھیا)، حاجی محموب احمد (ایودھیا)، فاروق احمد (ایودھیا)،محمد یاسین (ایودھیا)،عبدالرحمان (فیض آباد)، محمد یونس صدیقی (فیض آباد)،حشمت اللہ انصاری (فیض آباد) سید اخلاق (ایودھیا)، جلیل احمد (فیض آباد)، ڈاکٹر ہاشم قدوائی(علی گڑھ)، محمد قاسم انصاری (ایودھیا)،محمد نقوی (فیض آباد)شامل ہیں۔،دوران بحث عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کرنے کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔ جمعیۃعلماء ہند بابری مسجدکے تحفظ وبقاء اوراس کی بازیابی کیلئے شروع سے مستقل کوشاں رہی ہے، ہر مجلس عاملہ اورمنتظمہ کے میٹینگوں میں اس مسئلہ کے جملہ پہلووں پر تبادلہ خیال ہوتارہاہے،12-11/فروری 1951میں مجلس عاملہ کی مٹینگ میں یہ تجویز منظورکی گئی تھی کہ موجودہ سنگین حالات میں زیادہ مناسب ہوگاکہ اس مسئلہ کو عوامی نہ بنایاجائے بلکہ قانونی کاروائی جاری رکھی جائے اور حکومت پر دباوبناکر اس مسئلہ کی حل کرنے کی کوشش کی جائے اس سے پہلے 26/جنوری 1950کو ایک مقدمہ عدالت میں دائر کیاجاچکاتھا،اس کے بعد جمعیۃعلماء ہند کے ہر میٹنگ میں بابری مسجد کا مسئلہ چھایارہا، اور ہر اجلاس میں قراردادیں اورتجویزیں منظورہوتی رہیں، جمعیۃعلماء ہند کے سابق صدرحضرت فدائے ملت مولاناسیداسعدمدنی ؒ نے 1961ہندوستانی مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جس میں فرقہ پرست طاقتوں کی سازش اور حکومت کے ارادے کو بے نقاب کیا گیا اس کے بعد ملک کے مشاہیر وکلاء کے مشورہ سے جمعیۃعلماء ہند نے یہ فیصلہ لیا کہ پوری تیاری کے ساتھ قانونی راہ اختیارکی جائے، چنانچہ ایک سال تک دستاویز کی پوری تیاری کی گئی اور پھر 18/دسمبر1961سول جج فیض آباد کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا گیا اس کے بعد مسلسل جمعیۃعلماء اترپردیش مرکزکی نگرانی میں ایک فریق کی حیثیت سے بابری مسجد کامقدمہ لڑتی رہی۔