پریکرما کرنے سے کوئی جگہ مندرنہیں بن جاتی
وقف پراپرٹی اللہ کی ہوتی ہے اور متولی اس کی صرف دیکھ بھال کرسکتاہے
ہندوفریقوں کی بحث کے جواب میں ڈاکٹر راجیودھون نے کیااپنی مدلل بحث کا آغاز
نئی دہلی :
بابری مسجد ملکیت تنازعہ مقدمہ میں آج ہندو فریق کی جانب سے 16 دنوں تک کی گئی بحث کا جواب دینے کے لئے جمعیۃ علماء ہند کے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون پیش ہوئے اور انہو ں پانچ رکنی آئینی بینچ کو بتایاکہ 1934 میں مسجد کو توڑا گیا پھر 1949 میں دراندازی کی گئی اور اس کے بعد 1992 میں مسجد کو شہید کردیا گیا اور آج عدالت میں کہا جارہا ہے کہ برطانیہ نے ان کے ساتھ بے ایمانی کی تھی نیز برطانیہ کی وجہ سے ان کی مند ر کا انہدام ہو اور اب آستھا کی بنیاد پر متنازعہ اراضی پر اپنا قبضہ چاہتے ہیں۔اس معاملہ میں ڈاکٹر راجیو دھون تما م مسلم فریقوں کی طرف سے ہندو فریقوں کی بحث کا جواب دے رہے ہیں جنہوں نے اپنی بحث میں الزام عائد کیا ہے کہ مسجد غیر شرعی طریقہ سے بنائی گئی تھی اور مسجد سے قبل اس جگہ پر رام مندر تھا نیزشیعہ وقف بورڈ نے عدالت کو بتایا تھا کہ یہ مسجد شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت ہے جسے وہ ہندو فریق کو دینا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ پریکرمایعنی کے طواف کرنے سے کوئی جگہ مندر نہیں بن جاتی اور اس پر کوئی حق کادعوی نہیں کرسکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو میں کل جاکر سول لائن (نئی دہلی) میں جاکر پریکرما کرتا ہوں اور جسٹس بھوشن میرے ساتھ چلیں۔ڈاکٹر راجیو دھون کے اس بیان پر عدالت قہہ قہہ زار ہوگئی۔اسی درمیان رام للا کے وکیل سی ایس ودیاناتھن نے عدالت سے کہا کہ وہ ڈاکٹر راجیو دھون سے کہیں کہ وہ مدعی کے مقدمہ کا جواب دیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہوئے ڈاکٹر راجیودھون سے کہا کہ وہ اپنے حساب سے بحث کریں جس کے بعد ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ فریق مخالف نے اپنی بحث میں اس معاملہ کو ہندو قانون کی روشنی میں حل کرنے کی گذارش کی تھی لیکن اب جب میں مسلم قانون کے مطابق اپنی بات رکھنا چاہتا ہوں تو اعتراض کررہے ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس سے قبل جسٹس عبدالنظیر نے سوال پوچھا تھا کہ آیا وقف کرنے کے بعد پراپرٹی اللہ کی ہوجا تی ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ کوئی بھی پراپرٹی وقف ہوجانے کے بعد اللہ کی ملکیت ہوجاتی ہے اور پھر اس پر متولی کا بھی حق صرف اتنا رہتا ہے کہ اس کی دیکھ ریکھ کرسکتا ہے اور اس بات کا خلاصہ سپریم کورٹ نے ماضی کے متعدد فیصلوں میں کیاہے۔ڈاکٹر دھون نے عدالت کو بتایا کہ فریق دیگر نے تاریخی کتابوں اور سیاحوں کے سفر ناموں کو عدالت میں پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کہ ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تھا لیکن صرف والٹر ہیلٹن کے علاوہ تمام مورخین اور سیاحوں نے مسجد کے وجود کا ذکر کیا نیز ان مورخین اور سیاحوں نے رام مندر کے وجود کے تعلق سے لکھا ہے عدالت میں ان سے جرح نہیں کی گئی تھی تاکہ ان کے دعوؤں میں مزید صداقت آسکے لہذا ان کی تحریریں زیادہ معنی نہیں رکھتی ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے جسٹس چندر چوڑ کی جانب سے پوچھے گئے سوال جس میں انہوں پوچھا تھاکہ آیا کسی سیاح نے ایودھیا میں بابری مسجد ہونے کا ذکر کیا تھا جس کے جواب میں کہا کہ مشہور سیاح مارکوپولو نے چین کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے سفر نامے میں دیوار چین کا کہیں ذکر نہیں ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ چین میں دیوار چین نہیں ہے۔ ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایاکہ تاریخ جاننے کے لیئے تاریخ نویسی کے فن سے واقف ہونا ضروری ہے یعنی کسی بھی مورخ کی کتاب پڑھنے سے قبل اس کی تاریخ اور اس کا پس منظراور اس وہ کتنی مستند ہے اس کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔نیز دوران بحث وہ یہ ثابت کریں گے کہ مندرتوڑکے مسجد نہیں بنائی گئی تھی بلکہ خالی خطہ آراضی پر مسجد بنائی گئی تھی۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ سوائے ایڈوکیٹ رنجیت کمار کے فریق مخالف کے کسی بھی وکیل نے عدالت کے سامنے مکمل بات نہیں پیش کی بلکہ ماضی کے فیصلوں میں سے اتنا ہی پڑھا جتنا ا ن کی حمایت یعنی کہ فیور میں تھا جس کا عدالت کو نوٹس لینا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اگروال نے فیصلہ لکھتے وقت اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسجد کی دیواروں پر ہندو مذہب کے اشلوک پائے جانے کا جو ذکر کیا گیا ہے اسے کراس چیک نہیں کیا گیا تھا اور اس کا ترجمعہ بھی تصدیق شدہ نہیں تھا۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ فریق مخالف یعنی کہ رام للا، نرموہی اکھاڑہ، رام جنم استھان سمیتی و دیگر کے دعوؤں میں کھلا تضاد ہے اور اس تعلق سے انہوں نے عدالت میں پختہ بحث نہیں کی ہے نیز رام للا کو فریق ماننا اینگلو ہندو قانون کے تحت ہے لیکن اینگلو ہندو قانون کا اس مقدمہ پر نفاذ نہیں ہوگا بلکہ یہ حق ملکیت کا مقدمہ ہے لہذا یہاں موجود ہ و ملکی قانون کا اطلاق ہوگا نیز شبعیت یعنی کہ متولی کے ذریعہ مورتی کی نمائندگی کی جاسکتی تھی لیکن اس معاملے میں مورتی کو ہی فریق بنا دیا گیا جو غیر آئینی ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1950 میں جب سوٹ 1 داخل کیاگیا تھا اس وقت سوئمبھاؤیعنی کہ کوئی دعوی کرنے والا نہیں تھا لیکن پھر 1959 میں نرموہی اکھاڑہ نے سوٹ داخل کیا تب بھی کوئی سوئمبھوؤ نہیں تھا جس کے بعد 1961میں ہمارا سوٹ داخل کیا گیا جس پر اعتراض ہونے لگا کہ مورتی کے فریق ہونے پر سوال نہیں اٹھایا گیا تھا۔گذشتہ 16 دنوں کی سماعت کے دوران بھگوان شری رام براجمان (رام للا) کے وکلاء سینئر ایڈوکیٹ کے پرسارنن اور سی ایس ویدیاناتھن، آل انڈیا ہندو مہاسبھا سوامی چکر پنی کے وکیل ورندر کمار، اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے وکیل ایچ ایس جین، رام جنم بھومی پنر نرما سمیتی کے وکیل پی این مشرا، نرموہی اکھاڑہ کے وکیل ایس کے جین، گوپال سنگھ وشارد کے وکیل رنجیت کمار،شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے وکیل ایم سی دھنگرا ودیگرنے بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ رام مندر مہندم کرکے بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام وکلاء سو ٹ نمبر 3 اور سوٹ نمبر 5 میں پیش ہوئے جس میں مسلم فریق مدعا عالیہ ہیں۔اس معاملے کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت سے معذرت طلب کی کہ گذشتہ ہفتہ انہوں نے عدالت کو کہا تھا کہ ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بحث کی شروعات کریں کیونکہ اس وقت ان کی طبیعت ناساز تھی اور انہیں لگ رہا تھا کہ ان کا ایم آر آئی کرانا پڑسکتا ہے لیکن اب انہیں ڈاکٹر نے کہا کہ ایم آر آئی کی ضرورت نہیں ہے لہذا وہ عدالت سے بحث کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں اجازت دے دی۔اسی درمیان عدالت کی کارروائی کا اختتام عمل میں آیا جس کے بعد عدالت نے اپنی سماعت کل تک کے لیئے ملتوی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے،آج عدالت نے ڈاکٹر راجیو دھون کی درخواست پر اس معاملہ کی سماعت آنے والے جمعہ کے دن نہیں کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے۔راجیو دھون نے عدالت سے تیاری کے لیئے ہفتہ کے درمیان ایک دن کی چھٹی طلب کی تھی جس پر عدالت نے انہیں جمعہ کے دن چھٹی لینے کی بات کہی جسے ڈاکٹر دھون نے قبول کرلیا۔دوران کارروائی عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند اول دن سے فریق ہے بنے تھے، نیز صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر 30/ ستمبر2010ء/ کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ جس میں ا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا پھر اس کے بعد دیگر مسلم تنظیموں نے بطور فریق اپنی عرضداشتیں داخل کی تھیں نیز الہ آبادہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی ہ۔