کیا جمہوری نظام میں کشمیر یوں کو اپنی رئے رکھنے کا حق نہیں ؟
عادل فراز
حکومت نےپارلیمنٹ میں آرٹیکل ۳۷۰ ترمیمی بل پاس کرکے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کردیاہے ۔پارلیمنٹ میں آرٹیکل ۳۷۰ ترمیمی بل پیش کرنے سے پہلے جو منظر نامہ تیار کیا گیا وہ قابل غور ہے ۔بل پیش کرنے سے پہلے’ امرناتھ یاترا‘کو اچانک بیچ میں ہی روک دیا گیا اور عقیدت مندوں کو جتنا جلدی ممکن ہوا کشمیر سے باہر کردیاگیا۔کشمیر میں بغیر کسی اطلاعیہ کے اضافی حفاظتی دستے تعینات کردیے گئے اور کرفیو جیسا ماحول بنادیا گیا۔ہندوستان کے آئین کے مطابق کشمیری عوام کی قیادت کررہے رہنمائوں کو نظر بند کرکے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ سنادیا گیا ۔دیگر کشمیری رہنمائوں کو بھی گرفتار کرکے الگ الگ جیلوں میں بند کردیا گیا۔حرّیت پسند رہنمائوں کی گرفتاری پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہندوستان پسند قیادت کو نظربند کرکے حریت کے رہنمائوں کے فیصلوں اور اقدامات کو صحیح ثابت کرکے حکومت نے کیاحاصل کیا۔اب ہندوستان پسند قیادت کے پاس حریت کے رہنمائوں کے اعتراضات کا کوئی منطقی جواب نہیں ہوگا۔رابطۂ عامہ کے جتنے ذرائع تھےسب کو اچانک بند کرکے کشمیر کو ملک کےدوسرے حصوں سے کاٹ دیا گیا۔اس کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں آرٹیکل ۳۷۰ ترمیمی بل پیش کیا جس میں بقول وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کشمیریوں کی ترقی کا راز چھپا ہواہے ۔اگر آرٹیکل ۳۷۰ ترمیمی بل کشمیر یوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے پیش کیا گیا تھا تو پھر کشمیری عوام اور وہاں کی ہندوستان پسند قیادت کو اعتماد میں لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی ۔ایسے ڈھیروں سوالات ہیں جو آرٹیکل ۳۷۰ ترمیمی بل کے پیش ہوتے ہی ذہن میں ابھرے اور اب تک ان کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔مگر ہم فی الحال آرٹیکل ۳۷۰ ترمیمی بل کے فائدے اور نقصانات گنوانے کے حق میں نہیں ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر کی موجود صورتحال کا جائزہ لیا جائے ۔اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ آیا ہم کشمیر کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں ؟۔
سوال یہ ہےکہ کیا دفعہ ۳۷۰ ترمیمی بل پاس ہونے پر پورے ملک کے خوشیاں منانے سے کشمیر کی صورتحال بدل سکتی ہے ؟اگر ایسا ہےتو کشمیر میں اب تک کرفیو زدہ صورتحال کیوںقائم ہے؟ اور کشمیر کی ہندوستان پسند قیادت کو اعتماد میں لینے کے بجائے انہیں حراست میں کیوں رکھاگیاہے؟ ۔سرکار کے اس فیصلے پر کشمیریوں کی رائے اہمیت رکھتی ہے ،تو پھر ان کی رائے جاننے کی کوشش کیوں نہیں گئی ؟ ۔اگر کشمیری سرکار کے فیصلے پر خوش ہیں تو پھر کرفیوکیوں نہیں ہٹادیا جاتا؟ رابطے کے تمام ذرائع بند کیوں کردیے گئے ہیں؟۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ کشمیریوں کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی اور انہیں اعتماد میں لئے بغیر حکومت نے یہ فیصلہ کیاہے ۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کرفیو ہٹنے کے بعد کشمیر کے حالات کیا ہوں گے ؟۔کیا کشمیر واقعی ترقی کی منزلیں طے کرے گا ؟۔یا پھر کشمیر کے حالات پہلےسے بھی بدتر ہوجائیں گے۔اب کشمیر کے حالات پر قابو پانا اور کشمیری عوام کا اعتماد جیتنا سرکار کے لئے بڑا چیلینج ثابت ہوگا۔کیونکہ سرکارکے اس عجلت پسندانہ فیصلے سے یہ پیغام عام ہواہے کہ ہماری سرکار کشمیر کا مسئلہ حل کرنے اور کشمیر کی ترقی کے لئے پر عزم ضرور ہے مگر وہ کشمیریوں کو اعتماد میں لئے بغیر اور انکی رائے کی اہمیت کو سمجھے بنا کشمیر کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے ۔یہ بات اب کشمیریوں کے دل میں گھر کر گئی ہے اور آئندہ جوکچھ بھی کشمیر میں ہوگا وہ اسی فکر کے نتیجے میں ہوگا۔
دفعہ۳۷۰ میں تبدیلی اور کشمیر کی موجودہ صورتحال کو لیکر کچھ کشمیری طلباء نے دہلی میں جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔اس مظاہرے کو کئی سوشل میڈیا چینلوں نے براہ راست نشر کیا ۔قابل غور یہ ہے کہ ان تمام چینلوں کے احتجاجی ویڈیوز اور انٹریوز پر جو ہندوستانی عوام نے تبصرے کئے ہیں ،ان سے اندازہ ہوتاہے کہ ہماری موجودہ نسل کس قدر متشدد اور تخریبی ذہن کا شکار ہوگئی ہے ۔ان کے مطابق کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن کشمیری قابل گردن زدنی ہیں ۔ان تمام تبصروں میں کشمیریوں کو دی جارہی بھونڈی گالیوں ،نازیبا اور نفرت آمیز تبصروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر کس قدر منافقت کا شکار ہیں ۔کیا کشمیریوں کو جمہوری نظام میں اپنے حقوق کے لئے احتجاج کا حق نہیں ہے ؟ کیا وہ سرکار کے سامنے اپنے مطالبات نہیں رکھ سکتے ؟۔کیا کشمیر کی موجودہ صورتحال پر انہیں اپنی رائے رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟ اگر نہیں تو کیوں؟ ہمارے عوام کی ذہنیت کتنی زہریلی ہوتی جارہی ہے اس پر غورکرنے کی ضرور ت ہے ۔یہ زہریلی ذہنیت اچانک وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ رفتہ رفتہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں یہ نفرت کا زہر انڈیلا گیاہے ۔ہم تخریب کاری کے لئے یرقانی و زعفرانی تنظیموں کو ہی ذمہ دار نہیں مانتے بلکہ بڑی حد تک اس کی ذمہ داری موجودہ اور سابق حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے ۔۳۷۰ ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد جو قابل اعتراض بیانات اور تبصرے منظر عام پر آئے ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ ہمارے عوام کے دلوں میں کشمیر کے لئے کتنا احترام ہے ۔بی جے پی کے کئی رہنمائوں نے کشمیر کی لڑکیوں سے شادی کو لیکر اشتعال انگیز بیانات دیکر اپنی اور پارٹی کی ذہنیت کو صاف کرنے کی کوشش کی ۔وہیں عام ہندوئوں کی طرف سے جو نازیبا بیانات سامنے آئے وہ بھی کشمیریوں کو مشتعل کرنے کے لئے کافی ہیں۔ایسے تمام بیانات کشمیریوں کو ہندوستانی سرکار اور عوام سے بددل کرنے کے لئے کافی ہیں۔یہ بیانات واضح کرتےہیں کہ ہم بھی کشمیر کے مسئلے کاحل صرف اورصرف بندوق کے ذریعہ چاہتے ہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے؟ بندوق کسی مسئلے کو حل نہیں کرسکتی ۔ہمیں کشمیریوں کے تئیں اپنی اشتعال انگیز اور گندی ذہنیت پر دوبارہ غورکرنے اور بدلنے کی سخت ضرورت ہے ۔
ہم نے اس سے پہلے بھی یہ تلخ تجربہ حاصل کیاہے کہ ہمارے عوام کشمیریوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ہم علاحدگی پسندوں اور آئین ہند میں یقین رکھنے والوں کو ایک ہی ترازو میں تولتے ہیں ۔ہمارا یہ رویہ کشمیر ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے ۔کیونکہ کشمیریوں کے خلاف جاکر ہم کشمیر کو ہندوستان کا حصہ نہیں بنا سکتے ۔جب تک ہم کشمیریوں کے لئے وہی اخلاقی رویہ اختیار نہیں کریں گے جو ہندوستان کے ہر شہری کے لئے کرتے ہیں ،تب تک نہ تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتاہے اور نہ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے ۔بہتر تبدیلی کے لئے کشمیریوں سے زیادہ سے زیادہ مذاکرات ہی واحد حل ہے ۔جب تک ہم کشمیریوں کا اعتماد حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک نا تو کشمیر کی ترقی ممکن ہے اور نہ اس کی موجودہ صورتحال میں بہتر تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے ۔