عیدقرباں: سنت ابراہیمی کی یادگاراور اطاعت خداوندی کامظہر
اے آزاد قاسمی
دنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب و ادیان میں خوشی منانے کیلئے تہوار کے کچھ ایام مقرر ہیں،جو قوموں کی تہذیبی،سماجی،معاشرتی رسم ورواج کاعکاس ہوتی ہیں، کسی قوم میں تہوار ناچ گانے کا تصورہوتاہے توکسی کے یہاں تہوارکا تصورمال ودولت کی زیبائش اور نام ونمودسے عبارت ہوتی ہے،دین اسلام چونکہ ایک کامل دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے، اس کے تمام طرح کے دینی وشرعی تقاضے فرمان خداوندی اور احادیث نبویہ ﷺ سے ماخوذہیں اس لئے اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو خوشی منانے کے لئے سال میں دو دن عید الاضحی اور عید الفطر کی صورت میں دیئے ہیں،جو فرزدندان توحید کے لئے انفرادی واجتماعی خوشی،روحانی مسرت،سماجی اور معاشرتی شون وشوکت کا مظہر ہے، عید الاضحی حج کی ادائیگی اور عید الفطر رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل کے بعد منائی جاتی ہے،عید قرباں کا تہوار فریضہ حج کی تکمیل کے بعد 10ذوالحجہ کواللہ کے حضوردوگانہ اداکرنے کہ بعد مسلمانان عالم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی اور اللہ کے حضورتسلیم ورضاکی بے مثال (وفدینہ بذبح عظیم)کی پیروی میں اس عظیم، پاکیزہ اورافضل عمل کو اداکرتے ہیں جو بارہ ذو الحجہ کے غروب تک جاری رہتا ہے۔
قربانی:حلال جانوروں کاتقرب الی اللہ کے لئے ذبح کرنا ہے،قربانی کاعمل کسی نہ کسی شکل میں حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے جاری ہے،جب حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں کے درمیان ایک تنازعہ کے حل کیلئے اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کو کہا گیا جس میں ہابیل کی قربانی تو مقبول اور قابیل کی مسترد ہوئی۔
ارشادباری تعالیٰ ہے ”اور آپ اہل کتاب کوحضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں کا واقعہ پڑھ کرسنادیجئے،جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لئے نیازپیش کی توایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہیں“ قربانی کاتصور زمانہ جاہلیت اور دوسری تمام قوموں میں بھی متعارف رہی ہے۔ زمانہ قدیم میں اہل مصر کے بارے میں کہا جاتاتھا کہ وہ اچھی فصل اور خوشحالی کے لئے دریائے نیل میں کنواری دوشیزاوں کی قربانی پیش کرتے تھے،اور سابقہ انبیاء علیہم السلام میں بھی ان کی شریعت کے مطابق اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کے ثبوت ملتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے ”یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھا ہے کہ ہم کسی رسول کی اس وقت تک تصدیق نہ کریں،جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے کہ اس کو آگ کھاجائے“ جس کاطریقہ یہ تھا کہ قربانی پیش کی جانے والی اشیاء کو کسی پہاڑ یا یا پیڑ پر رکھ دیاجاتا اور اس وقت کے نبی علیہ السلام اللہ سے دعامانگتے اور آسمان سے ایک خاص قسم کی آگ آکراسے جلادیتی جو عنداللہ قربانی کے مقبول ہونے کی علامت تھی۔اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کاعمل سابقہ قوموں میں بھی کسی نہ کسی شکل میں مشروع رہی ہے،البتہ اس کی خاص شان اورفضیلت ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی واقعہ سے ہوئی، اللہ کواپنے خلیل کا یہ عمل اس قدرپسند آیاکہ رہتی دنیا تک کیلئے ان کے اس عمل کو امت محمدیہ ﷺپر واجب قراردیاگیا۔
حضرت زید بن ارقم ؓ راوی ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ یہ قربانی کیا ہے تو حضورﷺ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا پھر اس میں ہمارے لئے کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا جانورکے ہربال کے بدلے ایک نیکی الخ، ایک دوسری حدیث میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے لوگوں تم قربانی کرواور اس قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امید رکھو،اس لئے کہ اس کا خون گرچہ زمین پر گرتاہے لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتا ہے، ایک حدیث میں حضور ﷺ نے ان لوگوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا جو استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتے ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ، حضورﷺ نے فرماجو شخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے پھر بھی وہ قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔
حضرت حسین بن علی رَضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“۔
حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو“۔
حضرت ابو سعید رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا! اللہ کے رسول! یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ … نے فرمایا ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی“۔ قربان جائے خاتم النبین ﷺ کی اس کریمانہ شفقت پر،بے انتہادورودسلام ہو آپ پراورآپ کی آل اولادپر ﷺ۔
آیت کریمہ،احادیث مبارکہ اورتاریخی روایات سے پتہ چلتاہے کہ قربانی کی روح اور اسکا مقصد جانوروں کو ذبح کرنایا اس کا خون بہانا نہیں ہے بلکہ اس کی اصل روح تقویٰ کا حصول، ایثارنفس کاجذبہ اور تقرب الی اللہ پیداکرنا ہے،یہ چیزیں جب ہی حاصل ہوں گی جب انسان اللہ کے حضور اپنا سب کچھ اسی جذبہ اور اسپرٹ سے پیش کرے جس جذبہ وفاشعاری سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگرحضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں اپنی زندگی کی عزیزترین متاع پیش کی تھی،اس لئے قربانی کے علامتی عمل کاتقاضہ بھی یہی ہوناچاہئے تھا کہ عاشق خود اللہ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا، مگر شان کبریائی دیکھئے کہ یہ حکم دیا گیا کہ تم جانوروں کوقربان کروہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود کو قربان کردیا، ’واقعہ ’ذبح عظیم“کا مقصداہل علم کے نزدیک جان کی قربانی پیش کرنا ہے کیونکہ اس سے انسان کے اندرجاں نثاری اور سرتسلیم خم کرنے کاجذبہ پیداہوتاہے اور یہ قربانی کی اصل روح ہے جو صدقہ یا دیگر اعمال نافلہ سے حاصل نہیں کیا جاسکتاکیونکہ قربانی کااصل منشاء اور روح توجان دینا ہے اور صدقہ کی اصل روح مال دینا ہے،قابل ذکر ہے کہ صدقہ کے لئے کوئی وقت اور دن بھی متعین نہیں ہے جبکہ قربانی کیلئے ایک خاص دن اور وقت متعینہ مقرر ہے اور اس کانام بھی یوم نحر،یوم الاضحی رکھاگیا ہے، قربانی کی اصل روح کی وضاحت اللہ کی کتاب کی اس آیت کریمہ کے مفہوم سے بھی ہوتی ہے کہ”تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ کے پاس نہیں پہنچتاہے بلکہ تمہاراتقویٰ یعنی وہ جذبہ صدق اللہ تک پہنچتاہے جسکی بناء پر تم اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہو۔
لیکن موجودہ معاشرہ میں قربانی جیسی عظیم عبادت میں بھی حد سے زیادہ غلو اور نام ونمود کا عنصر پایاجانے لگاہے، لوگ اپنے آس پڑوس اور رشتہ داروں میں اس بات کا چرچا کرتے ہیں کہ میں نے اتنے لاکھ کی قربانی کی یا یہ کہ میں نے اتنی قربانیاں کیں،یہ سب دنیاوی نام ونموداور نمائش کے لئے ہوتا ہے جس کا اثرموجودہ معاشرہ پر یہ ہورہا ہے قربانی جیسی عظیم عبادت کا اصل مقصدفوت ہوتا جارہا ہے، جبکہ سنت ابراہیمی اداکرنے کا اصل مقصدجانورذبح کرنا یا نفسانی خواہشات کی تکمیل یا نام ونمودنہیں بلکہ قرب الہی کا حصول اور اطاعت خداوندی ہے۔ الغرض قربانی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب اور رضاہے، اگر اس خالص نیت سے قربانی کی جائے تو یقینا وہ بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت سے سرفرازہوگی، اگر نام ونمود، ریاکاری اور دکھلاوے کی نیت سے قربانی کی جائے تو ایسی قربانی سوائے گوشت کھانے کے اور کچھ نہیں ہے جو روز قیامت ثواب سے محرومی کا باعث ہوگا، کیونکہ اللہ کے حضور قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ قربانی کرنے والے کی نیت دیکھی جاتی ہے، جس کے ذریعہ اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے۔قربانی کے عمل کو انجام دیتے ہوئے ہمیں نام ونمودونمائش سے بچتے ہوئے ملت کے محروم طبقات کی مددواعانت کو بھی مدنظررکھناچاہئے،ہمیں یہ یادرکھنا چاہئے کہ نام ونمودکی نمائش قربانی کے حقیقی اجروثواب کوضائع کرنے کاموجب بن سکتاہے۔عیدالاضحی کے مبارک موقع پر جانورذبح کرنا، اچھے کپڑے زیب تن کرنا اور قربانی کے گوشت سے طرح طرح کے پکوان بنانااوراس سے لذت حاصل کرنا حقیقی معنوں میں ہمیں دیگرذمہ داریوں سے فارغ نہیں کردیتابلکہ ہمیں اس موقع پر اپنے پورے وجودکا جائزہ لینا چاہئے اورہر اس عمل کو چھوڑدینا چاہئے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مرضی کے خلاف ہواور ہر اس عمل کو اپنا شعاربنالینا چاہئے جو اللہ نے ایک سچے مومن کی پہچان کے لئے معیارقراردیاہے۔
قربانی کی اہمیت اور فضیلت کوسمجھنے کے لئے حجۃ الوداع کاوہ تاریخی خطبہ بھی ہمارے لئے ایک نمونہ ہے جس میں حضورﷺ نے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر،امیر کو غریب پر اور غریب کو امیرپر، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اور فوقیت نہیں ہے بلکہ فضیلت کی بنیاد تقویٰ ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم قربانی کی اصل روح،اصل پیغام اورحقیت سے کوسوں دورہیں، ہرطرف نفرتیں بڑھ رہی ہیں اورہم آپس میں ہی ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں اگر ہم قربانی کے ایثاروجذبہ اور فلسفہ کو سمجھ لیں تو معاشرہ میں موجودہ تمام خرابیاں دورہوجائیں گی اور پیارومحبت کے جذبہ کو فروغ ملے گا مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر ایک اپنے حصے کی قربانی دے اور اپنا محاسبہ کرے کیونکہ حضورﷺ نے جو ہمیں قربانی کا تصور دیا ہے وہ اخلاص، تقویٰ، اور ایثارومحبت پر زوردیتا ہے کوئی وجہ نہیں ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ جو قربانی اللہ کے حضورپیش کیا جائے وہ غمگساری،ہمدری، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدانہ کرے۔
لن ینال اللہ لحومہا ولادماؤہا ولکن ینالہ التقویٰ منکم
ہرکز اللہ کونہ اس قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون مگراسے تمہارا تقویٰ پہنچتاہے