نئے قانون ”تین طلاق پر تین سال کی سزا“ کے لیے علماء ذمہ دار نہیں
(ہندوستان کے موجودہ تناظر میں ہمیں کیا کرنا چاہئے)
نریندر مودی اور امت شاہ کی سرپرستی میں قائم بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے مختلف حیلے اختیار کرکے آخر کار تین طلاق پر تین سال کی سزا کا بل راجیہ سبھا سے پاس کرالیا جس کی منظوری کے لئے بی جے پی کئی سالوں سے بے چین تھی۔ یہ وہی پارٹی ہے جس نے بعض مرتبہ انتخابات کے لئے ایک مسلمان کو بھی اپنی پارٹی کا امیدوار نہیں بنایا تھا جس پر تاریخ گواہ ہے، حالانکہ ہندوستان میں تقریباً 20 فیصد مسلمان رہتے ہیں اور ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ بھی بلند کرتے ہیں۔ یہ وہی پارٹی ہے جب اپوزیشن پارٹیوں نے اس سے مطالبہ کیا کہ کم از کم شوہر کے تین سال کی جیل کے دوران مرکزی حکومت مطلقہ بیوی اور بچوں کے نان ونفقہ کو برداشت کرے کیونکہ جیل میں جانے کے بعد شوہر بیوی اور بچوں کا خرچہ کیسے برداشت کرے گا تو مسلم خواتین کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانے والی موجودہ حکومت اس کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ یہ وہی پارٹی ہے جو اس بل پر بحث ومباحثہ کے لئے پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی کو یہ بل بھیجنے کے لئے تیار نہیں ہوئی، یعنی موجودہ حکومت اس بل میں معمولی سی تبدیلی کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوئی، غرضیکہ چند حضرات نے جو طے کردیا بھارتیہ جنتا پارٹی صرف اُسی کو نافذ کرنا چاہتی ہے، جس سے اُس کے مذموم ارادے واضح ہوجاتے ہیں۔ تین طلاق کا مسئلہ سو فیصد مسلمانوں کامسئلہ ہے، لہٰذا سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ بلند کرنے والی مرکزی حکومت کو چاہئے تھا کہ ہندوستان کے بڑے مسلم اداروں، مختلف مسلکوں کے علماء کرام اور مسلم تنظیموں کے ساتھ مسئلہ کا حل نکال کر مذکوہ نعرہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا۔ قرآن وحدیث کے ماہرین علماء کرام اور دانشوران قوم کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا تو بہت دور کی بات ہے، کروڑوں ہندوستانی مسلمان خاص کر خواتین نے تین طلاق سے متعلق شریعت اسلامیہ کے فیصلہ پر مکمل طور پر اطمینان کا اظہار کیا تھا، اُس پر دھیان تک نہیں دیا۔
اگر طلاق شدہ مسلم خاتون کے لئے ملازمت کا انتظام یا اُس کے بچوں کے لئے مفت تعلیم کا بندوبست حکومت کرتی تو مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی نظر بھی آتی مگر حکومت مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کے بجائے صرف اور صرف مسلمانوں کو جیل میں ڈال کر اُن کے گھر والوں کو عدالت اور کچہری کے چکر لگوانا چاہتی ہے تاکہ تین سال بعد جب شوہر جیل سے باہر نکلے تومسائل حل ہونے کے بجائے ایسے پیچیدہ ہوجائیں کہ جن کا حل کبھی نہ ہوسکے۔ شریعت اسلامیہ میں ایک ہی وقت میں تین طلاق کو اسی لئے نا پسند کیا گیا ہے کہ اس کے بعد میاں بیوی کے درمیان صلح کے تمام ہی دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس بل کو پاس کرانے پر مصر تھی اُس کے ذریعہ نہ صرف میاں بیوی کے درمیان صلح کے تمام ہی راستے بند ہوجائیں گے بلکہ دونوں خاندانوں کے درمیان ایسی نفرت پھیل جائے گی کہ اس کی تلافی بظاہر ممکن نہ ہوگی کیونکہ جب شوہر جیل سے واپس آئے گا تو وہ کسی بھی حال میں اُس بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتا جو اس کے لئے تین سال کی جیل کا سبب بنی ہو۔ غرضیکہ تین طلاق دینے والے شخص کو تین سال کی قید کا قانون قرآن وحدیث کی روح ہی کے خلاف ہے۔ظاہر ہے جنہوں نے کبھی قرآن مجید کھول کر نہ دیکھا ہو وہ قرآن کریم کے احکام ومسائل سے کیسے واقف ہوسکتے ہیں؟
صدر جمہوریہ ہند کے دستخط کے بعد یہ بل ہندوستان کا نیا قانون بن گیا ہے جو آئندہ ماہ سے نافذ ہوجائے گا، یعنی اب تین طلاق دینے والے مسلم مرد کو مجرمانہ سزا (تین سال کی جیل) دی جائے گی اور اس کی ضمانت بھی آسان نہیں ہے۔ یقینا ہمارے معاشرہ میں طلاق دینے میں عجلت سے کام لیا گیا جس کی وجہ سے مسائل درپیش آئے، لیکن غور وخوض کرنے کی بات یہ ہے کہ اس بل کو پاس کرانے کے لیے بی جے پی آخر کار اتنا بے چین کیوں تھی، حالانکہ تین طلاق سے متعلق گنتی کے چند واقعات ہی ہندوستانی عدالتوں میں پہنچے ہیں، اس کے برعکس لاکھوں کی تعداد میں طلاق سے متاثرہ ہندو خواتین ہندوستان میں موجود ہیں جن کی حکومت کو زرّہ برابر کوئی فکر نہیں۔ تین طلاق دینے والے شخص کو دی جانے والی سخت سزا سے ہی حکومت کی نیت صاف معلوم ہورہی ہے۔ بی جے پی کو لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل ہے۔ راجیہ سبھا میں وہ یقینا ابھی تک اقلیت میں ہے، لیکن کچھ سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے لئے متنازع بل پاس ہونے کے وقت یا تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے پالے میں بیٹھ جاتی ہیں یا پھر واک آوٹ کرکے بی جے پی کو بل پاس کرانے میں باہر سے مدد کرتی ہیں۔ تین طلاق کے متعلق بھی ایسا ہی ہوا کہ بعض نام ونہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں نے واک آؤٹ کرکے بی جے پی کے ارادوں کی تکمیل میں چور دروازے سے اس کی مکمل مدد کی۔
تین طلاق سے متعلق بل لوک سبھا وراجیہ سبھا سے پاس ہونے اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد جب نیا قانون بن گیا تو مختلف حضرات نے اپنے تاثرات پیش کئے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ علماء حضرات اور مسلمانوں نے عمومی طور پر اس قانون سے اپنی مخالفت اور ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلہ کی روح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی امور میں کھلی ہوئی مداخلت بھی ہے جو ہندوستانی قوانین کے خلاف ہے۔ ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں کی 90 فیصد سے زیادہ تعداد یہی سمجھتی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں اور جمہور علماء کا 1400 سال سے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی موقف ہے۔ نیز 1400 سال میں آج تک کسی بھی مسلم حکومت نے تین طلاق دینے والے شخص کو ایسی سزا کی تجویز تک پیش نہیں کی اور نہ ہی آج بھی کسی بھی مسلم ملک بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے والے شخص کو ایسا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں کئی سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی، تین طلاق کے واقعات بھی پیش آئے لیکن ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے والے شخص کی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سرپرستی میں چلنے والی بعض تنظیموں نے اس بل کے راجیہ سبھا میں ڈرامائی انداز میں پاس ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ بعض حضرات جو اپنے آپ کو دانشورانِ قوم سمجھتے ہیں، جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے وہ صرف اور صرف علماء کرام کے خلاف لکھنا شروع کردیتے ہیں اور غالباً اسی کو دین اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں حالانکہ اُن کی عملی زندگی کو سامنے رکھ ایسا لگتا ہے کہ وہ حضرات سید البشر وسید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کے بجائے دیگر دنیا دار حضرات کے طریقہ میں بظاہر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اِن حضرات نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے تین طلاق دینے والے شخص کو دی جانے والی سزا کو انصاف کے خلاف تو قرار دیا مگر اس کی مکمل ذمہ داری علماء کرام پر تھوپ کر کنارہ کشی اختیار کرلی، یعنی قانون بننے سے قبل وہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی واقع قرار دینے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے تھے، مگر قانون بننے کے بعد وہ حضرات اس بل کے خلاف لکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، حالانکہ تین طلاق پر تین سال کی مجرمانہ سزا کا قانون علماء کرام کی وجہ سے پاس نہیں ہوا ہے بلکہ دہلی مرکز میں مکمل اکثریت حاصل کرنے والی اور ہندوستان کے اکثر صوبوں میں حکومت کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اپنے سیاسی مفادات، بعض سیاسی پارٹیوں کی دوغلی پالیسی، اپوزیشن کی کمزوری اور RSS کے منظم ایجنڈے کی وجہ سے یہ بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پاس ہوا ہے۔ صرف یہی ایک بل پاس نہیں ہوا ہے بلکہ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران 36 بل پاس ہوئے ہیں جو ایک ریکارڈ بھی ہے۔ مثلاً کشمیر سے متعلق 70 سال سے زیادہ پرانی دفعہ 370 اور 35A کا خاتمہ کیا گیا۔ اس مانسو ن اجلاس میں چند ایسے بل بھی پاس ہوئے ہیں جو تین طلاق سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، جن کے متعلق عوام کو مکمل طور پر واقفیت بھی نہیں ہے۔ (1) National Register of Citizenship جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اب مسلمان کو دستاویز پیش کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ اُس کے باپ دادا ہندوستانی تھے، یعنی اپنے آپ کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے صرف اپنا پاسپورٹ یا آدھار کارڈ یا الیکشن کارڈ یا راشن کارڈ وغیرہ دکھانا کافی نہیں ہوگا بلکہ اپنے باپ دادا کا ریکارڈ بھی پیش کرنا ہوگا جو عام آدمی کے لئے آسان کام نہیں ہے۔ (2) The Unlawful Activities Prevention Amendment Bill یعنی اب حکومت جب چاہے جس کو چاہے اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ دہشت گرد بنا کر جیل کی سلاخوں میں ڈال سکتی ہے۔ غرضیکہ اب ہر شخص کے اوپر تلوار لٹکا دی گئی کہ وہ حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھاسکے۔ (3) RTI Amendment Bill جس کے بعد پوری میڈیا مکمل طور پر حکومت کے قبضہ میں ہوگئی ہے، اب وہی بات میڈیا پر نشر ہوگی جو حکومت چاہے گی۔ سبھی مانتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اِن بلوں کے پاس ہونے کا تعلق علماء کرام سے نہیں بلکہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے وہ کام کئے ہیں جو سالوں سے RSS کے ایجنڈے میں تھے اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی بلکہ خواتین کے حقوق کے نام سے ایک سے زیادہ نکاح اور بچوں کی تعداد کو محدود کرنے جیسے سینکڑوں مسائل ا س کی زد میں آئیں گے۔ اور اگر اپوزیشن پارٹیاں ایسی ہی قلا بازیاں کھاتی رہیں تو بہت ممکن ہے کہ یکساں سول کوڈ بھی نافذ ہوجائے۔
اب چونکہ تین طلاق پر تین سال کی جیل کا قانون بن گیا ہے اور ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس کے بل پاس کرانے کے مقاصد میں ناکام بنادیں تو سب سے پہلے علماء کرام کو ممبر ومحراب سے یہ پیغام عام کرنا ہوگا کہ کوئی بھی مسلمان جذبات میں آکر چھوٹی چھوٹی بات پر ایک ساتھ تین طلاق نہ دے، بلکہ سخت ضرورت کے وقت صرف ایک طلاق دی جائے۔ گھر کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو تو اس کا حل آپس میں بیٹھ کر کریں، بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہونے پر صرف شرعی عدالتوں سے رجوع کریں،کسی بھی حال میں تھانے یا عدالتوں کا رخ اختیار نہ کریں۔ خاص طور پر جو قانون بنایا گیا ہے اس کا سہارا نہ لیں کیونکہ یہ قانون نہ صرف مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنائے گا بلکہ دونوں خاندانوں کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کرے گا کہ نسلوں تک دشمنی باقی رہے گی۔ مسلم تنظیموں اور بڑے اداروں سے التجا ہے کہ ہندوستانی قوانین کے مطابق ملی مذہبی آزادی کے خلاف اگر کوئی بات سامنے آئے تو ماہرین قانون سے رجوع کرکے مکمل تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ آخر میں تمام حضرات سے درخواست ہے کہ اب بی جے پی دوسری بار پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں آگئی ہے۔ صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ اور صوبوں کے گورنر جیسے اہم عہدوں پر انہی کے پسندیدہ امیدوار فائض ہیں۔ لوک سبھا میں مکمل اکثریت حاصل ہے۔ لہٰذا جذبات کو بالائے طاق رکھ کر صبر وتحمل اور دور اندیشی سے کام لیں۔ باہمی مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مل جل کر آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا جو موقف ہے اُس پر عمل کریں، علماء دین کا احترام کریں اور اُن کے کسی موقف سے اگر کوئی اختلاف بھی ہے تو اُس کے اظہار میں شائستگی اور احترام کا دامن نہ چھوڑیں۔ یہ ملک کسی مخصوص مذہب کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی سب کا ہے، اور اس پر سب کا یکساں حق ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ہے، اور آج بھی اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی سمت میں ہمیں سوچ سمجھ کر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو سماجی بھائی چارہ کو مضبوط کریں اور دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ ہماری روز مرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں معاون ہوں۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی