فارسی ادب کے نایاب نسخے کتب خانوں کی زینت بن کر رہ گئے:پروفیسر شاہ محمود حنیفی
امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیزوشعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی کے باہمی اشتراک سے ورکشاپ کا انعقاد
لکھنؤ: امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیزوشعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی کے باہمی اشتراک سے ’مغلوں کے فارسی دستاویزات‘ کے عنوان آج8؍اگست کو لکھنؤ یونیورسٹی کے کرشن اوستھی آڈیٹوریم میں ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔امریکن انسٹی ٹیوٹ اور ہندوبیرون ہند سے تشریف لائے مختلف شرکاء نے اس ورکشاپ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اورمغلوں کے عہد کے فارسی ذرائع کے حوالے سے اس دور کے تاریخ،جگرافیہ،معاشیات اور دوسرے اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ امریکی یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر شاہ محمود حنیفی نے افغانستان کے قومی آرکائیوں میں بابر نامہ کے نسخے کا تعارف کرایا اور اس کے مبادیات پر بھی روشنی ڈالی۔انہوں نے مزید کہاکہ فارسی ادب کے نایاب نسخے صرف کتب خانوں کی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب کوعوام الناس کیلئے دستیاب کریا جائے ایک عام طبقہ ان سے محروم ہے،اس لئے اتنی آسانیاں پیداکرائی جائیں کہ اس طرح کی کتابوں کو ایک ایک شخص کی دسترس میں دیا جائے۔تاکہ آنے والی نسلیں مستفید ہوسکیں۔
ایران کلچر ہائوس،نئی دہلی کے مرکز تحقیقات کے ایڈیٹر احسان اللہ شکر اللہی نے ہندوستان کے مختلف کتب خانوں میں محفوظ گرانقدر فارسی مخطوطات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی اہمیت وافادیت بیان کی اور دانشمندوں اور طلباء کی ان نسخوں کے تئیں عدم دسترسوی پر شدید رنج کا اظہار بھی کیا۔انہوں نے کہا کہ سوامی رنگناتھن نے کتابوں کی حفاظت کے جو اصول وضع کئے پوری دنیا نے اس کو اپنا یا لیکن ہندوستان میں اس کی پیروی نہیں ہورہی ہے اور فارسی ادب کے نایاب نسخے صرف کتب خانوں کی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ اور ایک عام طبقہ ان سے محروم ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ کتابوں کو ایک ایک شخص کی دسترس میں دیا جائے۔
ماہر خطاط حمید رضا قلیح خانی نے بھی خطای کے حوالے سے گفتگو کی اور کتبوں اور مقبروں پر کندہ کتبے کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شعبۂ تاریخ کی پروفیسر محترمہ سیما علوی نے اس ورکشاپ میں کلیدی خطبہ پیش کیا ۔انہوں نے اپنے خطبے میں ہندوستان میں اٹھارویں صدی عیسوی کے سیاسی حالات کا ذکر کیا اور مغلوں کے عہد آخر میں ’یونانی طریقۂ معالجہ انگریزی طریقۂ علاج کے زیر اثر‘ اس کے زوال کے علل واسباب پر روشنی ڈالی۔
پروگرام کے افتتاح میں امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیڈ اسٹڈیز کے ہیڈ ڈاکٹر احتشام احمدخان نے افتتاحی کلمات اداکرتے ہوئے ادارے اورمہمانوں کا تفصیلی تعارف کرایا۔اس کے بعدورکشاپ کے چیرس شاہ محمودحنیفی،اماندہ لینزیلو،اورپروفیسرعارف ایوبی نے ورکشاپ کے اغراض ومقاصد اور ایجنڈے پر تفصیلی روشنی ڈالی،
اور مہمانان کا استقبال وخیر مقدم گلدستہ پیش کر کیا گیا۔اس موقع پر امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز کے اساتذہ بشارت حسین،ڈاکٹرخصال احمد،ڈاکٹروصی،رفعت،شیبا افتخار،ضیاء اللہ صدیقی اورصدف فاطمہ نے مہمانوںکو گلدستہ پیش کر استقبال کیا۔
ورکشاپ پورے دن جاری رہا اور اس کے مختلف سیشن ہوتے رہے۔پہلے سیشن میںایران۔مغل انڈیا ، افغانستان،سینٹرل ایشیا، آٹومن امپائر، لارجر انڈین اوشین، سینٹر اینڈ پریفری
شاہ محمود حنیفی(افغانستان)بہادین کیبرانی،بریان سٹیزنے اپنے مقالات پیش کئے۔ دوسرے سیشن میںترانا بینس،دیپانجن مجمودار، وپن کشنا،اماندہ لنزیلو،سمایک گھوش، ھما رمضان علی، ریچل کراچن، انوراگ ایڈوانی، زہرہ مہدی،نے اپنے مقالات پیش کئے۔تیسرے سیشن میںنمرتا کنچن، ڈاکٹر حامد رضاگلچک خانی، ڈاکٹر احسان اللہ شکرلانی، رائیکل ہرسچ، ساجدہ حسینی،نے اپنے مقالات پیش کئے۔
چوتھے سیشن میںجان نواک،کیارک، بریک ان رائٹ، اسپینسروغیرہ نے اپنے مقالات پیش کئے۔پانچویں سیشن میںڈاکٹر عارف ایوبی،پروفیسر آصف نعیم، پروفیسر احسن الظفر، ڈاکٹرشبیب علوی،ڈاکٹر سید غلام نبی احمد، سید حذیفہ علی ندوی، ڈاکٹرسیما علوی نے اپنے مقالات اور خیالات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر شعبہ علوم مشرقیہ کے ڈاکٹرارشد علی جعفری، ڈاکٹر تقی علی ، ضیاء اللہ صدیقی،ڈاکٹرمسیح الدین خان، ڈاکٹرخبیب،محمدحنیف،ڈاکٹر سکندر اصلاحی، وغیرہ کے ساتھ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے پروفیسران ، معززین اور دانشوروں نے شرکت فرمائی، پروگرام نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا اورآخر میں ڈاکٹر احتشام احمد خان نے مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ اداکیا۔