امریکی وزیر خارجہ کا دورۂ ہندوستان
عادل فراز
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو ۲۵ جون کو سہ روزہ سرکاری دورے پر ہندوستان آئے ہوئے تھے۔انہوں نےوزیر اعظم نریندر مودی ،وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ ملاقات کی ۔ان ملاقاتوں میں ہندوستانی دفاعی نظام کے معاہدے ،ایرانی تیل کی درآمد پر امریکی پابندیوں،امریکہ اور ہندوستان کے مابین تجارتی تعلقات اور سیاحت سمیت دیگر موضوعات پر اہم گفتگو ہوئی ۔مائک پومپیو کا یہ دورہ اس وقت ہوا کہ جب امریکہ اورایران کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے ۔امریکی دبائو کی وجہ سے ہندوستان نے ایرانی تیل کی درآمد کو روک دیاہے اور ہندوستان دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے روس کے ساتھ ایس کے ۴۰۰ میزائیل کی خریداری کے لئے پرعزم ہے ۔ان تمام موضوعات کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ بھی اہم ہے کہ حالیہ دنوں میں ہی امریکہ نے ہندوستان میں مذہبی آزادی کےخاتمے پر اپنی رپورٹ پیش کی تھی ۔اس رپورٹ میں ہندوستان کے جن داخلی مسائل پر امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا تھا ہندوستان نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے امریکی رپورٹ کی مذمت بھی کی تھی ۔وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ہندوستان میں مذہبی آزادی کے خاتمے پرپیش کی گئی امریکی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں ہر کسی کو آئین کی روشنی میں آزادانہ زندگی گذارنے کا حق ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت امریکی وزیر خارجہ ہندوستانی دورے پر تھے اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی یا کسی دوسرے سرکاری ترجمان نے مائک پومپیوسے اس رپورٹ کے متعلق کوئی بات کیوں نہیں کی ؟۔اس رپورٹ کے عام ہونے کے فوراََ بعد مائک پومپیو کا دورۂ ہندوستان پر آنا بھی قابل ذکر ہے ۔اگروزیر اعظم نریندر مودی یاکسی سرکاری ترجمان نے اس رپورٹ پر امریکی وزیر خارجہ کے حضور میں اعتراض وارد نہیں کیا تب بھی یہ بات بہت اہم ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہندوستان نے امریکی رپورٹ کو ظاہراََ مسترد کیاہے لیکن وہ اس رپورٹ کی حقیقت سے واقفیت کی بنیاد پر یہ ہمت نہیں کرسکاکہ امریکی وزیر خارجہ کے سامنے رپورٹ کے نکات کو خارج کرکے اپنا اعتراض درج کرواسکے ۔
امریکی وزیر خارجہ نے ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے طویل ملاقات کے بعد ایس جے شنکر کی موجودگی میں جو بیان دیاہے وہ اس لئے قابل غورہے کیونکہ ایس جے شنکر نے انکے اس بیان کی تردید نہیں کی ۔مائک پومپیو نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ہم سب جانتے ہیں کہ ایران دہشت گردی کو فروغ دینے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔دنیا بھر میں ہندوستان کے لوگوں کو دہشت گردی کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہماری دہشت گردی کے خطرے کے معاملے پر باہمی سمجھ ہے اور اس خطرے سے نمٹنے کے لئے توانائی صحیح سمت لگے ‘‘۔مائک پومپیو کے دورۂ ہندوستان کی مصلحت اس بیان سے پوری طرح واضح ہوتی ہے ۔وہ ہندوستان کے دورے پر اس لئے آئے ہوئے تھے تاکہ ہندوستان پر ایران سے تعلقات ختم کرنے کے لئے پوری طرح دبائو بناسکیں ۔پومپیو کی آمد سے پہلے ہی ہندوستان نے ایران سے تیل کی درآمد کو روک دیا تھا ۔اگر ہندوستان ایران سے تیل کی درآمد شروع نہیں کرتاہے تو اسکے لئے سعودی عرب واحد متبادل ہے لیکن سعودی عرب سے مہنگا تیل خرید نے کی بنیاد پر ہندوستان میں مہنگائی کا بڑھنا یقینی ہے ۔ابھی بھی ہندوستان میں مہنگائی کی صورتحال کی تشویش ناک ہے ،اگر امریکی دبائو کو نظرانداز کرکے ایرانی تیل کی درآمد کا کام شروع نہیں ہوتاہے تو یہ مہنگائی موجودہ سرکار کے لئے درد سر بن جائے گی اور عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تنگ آکر سرکار کے خلاف سڑکوں پر اترنے کے لئے مجبور ہوگی ۔
وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے مائک پومپیو سے ملاقات کے بعد جو بیان دیاہے وہ روایتی قسم کا بیان ہے ۔’’ ہندوستان وہی کرے گا جو اس کے قومی مفاد میں ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’’’’ہمارے بہت سے ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں اور ان کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ ہم وہی کریں گے جو قومی مفاد میں ہو گا‘‘۔ہندوستانی وزیر خارجہ نے ابھی تک کوئی اطمینان بخش بیان جاری نہیں کیا ہے جس سے صحیح طرح ہندوستانی مؤقف کا اندازہ لگایا جاسکے ۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ہندوستان امریکی دبائو میں پوری طرح ایران سے تجارتی تعلقات ختم کرے گا اور اگر نہیں تو آئند ہ کے لئے ایرانی تیل کی درآمدکے سلسلے میں اسکی خارجہ پالیسی کیا ہوگی۔
معلوم ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے زمام حکومت سنبھالتے ہی ہندوستانی خارجہ پالیسی میں تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔ہندوستان اپنے پرانے دوستوں کو نظرانداز کرکے نئے ملکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھارہاہے جن میں اسرائیل کو فوقیت حاصل ہے ۔ہندوستان ہمیشہ عالمی دبائو کو نظر انداز کرکے فلسطین کی حمایت کرتا آیاہے مگر اس بار اس نے اسرائیل کے حق میں ووٹ کیاہے جس سے ہندوستان کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کی حقیقت معلوم ہوتی ہے ۔بی جے پی کو آرایس ایس کی حمایت حاصل ہے اور آرایس ایس کی پشت پناہی استعمار کرتا رہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی اسرائیل سے امڈتی ہوئی محبت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔۲۰۱۹ ء میں پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی کے بعد نتین یاہو کا ٹویٹ کرکے نریندر مودی کو مبارک باد دینا روایتی طرز پر نہیں تھا بلکہ نتین یاہو بی جے پی اور اسرائیل کی درپردہ دوستی کو جگ ظاہر کررہے تھے ۔ان تمام حقائق کے پیش نظر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی خارجہ پالیسی میں فلسطین اورایران کے لئے کوئی زیادہ گنجائش نہیں ہے ۔ہندوستان ایران کے ساتھ اسی قدر تجارتی تعلقات جاری رکھے گا جو اسکے لئے بیحد ضروری اور ملک کی ترقی کے لئے لازمی ہونگے ۔اس وقت ہندوستان اپنے نئے دوستوں پر زیادہ تکیہ کیے ہوئے ہے اور انکی دوستی میں ہندوستان کی ترقی کے خواب دیکھ رہاہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ ہندوستان پرانے دوستوں کو چھوڑ کر جن نئے دوستوں کو گلے لگانے میں اتاولے پن کا مظاہرہ کررہاہے انکی دوستی عالمی پیمانے پر کیا گُل کھلاتی ہے اور ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں مزید کیا تبدیلیاں رونماہوتی ہیں۔