بی جے پی کی فتح کے فارمولے کو سمجھنے کی ضرورت ہے
حالیہ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے غیر یقینی اکثریت حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ ابھی عوام کے درمیان ان کا اعتماد پوری طرح بحال ہے ۔ایگزٹ پول میں جو نتائج پیش کئے گئے تھے بی جے پی تقریبا انہی نتائج کے مطابق کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ایگزٹ پول کے نتائج آنے کے بعدبھی یہ کسی کو یقین نہیں تھا کہ بی جے پی اکثریت حاصل کرکے اپنے دم پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی کیونکہ جس طرح عوام میں مودی سرکار کے خلاف غصہ دکھائی دے رہا تھا اس سے محسوس ہورہاتھا کہ وزیر اعظم بھلے ہی مودی بنیں لیکن سرکار بی جے پی کی نہیں ہوگی ۔مگربی جے پی کی کارکردگی نے تمام دعوئوں اور قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کردیا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی عوام کے درمیان نریندر مودی کا اعتماد ختم نہیں ہواہے اگر ایسا ہوتا تو بی جے پی کبھی اس قدر اکثریت حاصل نہیں کرپاتی ۔نریندر مودی کی اس غیر یقینی جیت کے کئی بہت واضح اسباب ہیں جن پر غورکرنا ضروری ہے ۔
بی جے پی کی کامیابی کی ایک وجہ یہ رہی کہ اس نے پورے ہندوستان میں تنظیمی طورپر کام کیا اور اپنے تنظیمی نیٹ ورک کو مزید تقویت دی ۔ہر علاقے میں بی جے پی اور آرایس ایس کے اراکین زمینی سطح پر کام کرتے نظر آئے ۔انہوں نے عوام کو ایک بار پھر یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر ان کے خوابوں کو کوئی شرمندۂ تعبیر کرسکتاہے تو وہ بی جے پی سرکار ہی ہے ۔ان رضاکاروں نے محلے محلے جاکر اپنے ووٹرز کو راشٹرواد،آستھا اور دھرم کی دہائی دیکر متحد کیا ۔اس انتخاب میں یہ واضح ہوگیاکہ ہندوستان میں سیکولرازم کے لئے اب کوئی جگہ نہیں ہے ۔ہندوستان فاشزم اور اقلیت مخالف راہ پر چل پڑاہے ۔جیساکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کامیابی کے بعد کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس انتخاب میں کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر عوام کے درمیان جاسکے۔وزیراعظم کا یہ بیان ایک اٹل حقیقت ہے ۔حالیہ انتخاب ذات پات اور آستھا کی بنیادوں پر لڑا گیا ۔سیکولر چہرے بھی فاشزم کا سہارا لیکر انتخاب لڑرہے تھے ۔
دوسری اہم وجہ یہ رہی کہ حزب اختلاف ،خاص طورپر کانگریس عوام کو ترقی اور متحد ہونے کا کوئی ایجنڈہ نہیں دے سکی۔انکے مینی فیسٹو میں بھی بے روزگاری جیسے اہم مسائل پر کوئی قابل ذکر بات نہیں ملتی ہے ۔تمام اہم مسائل سے قطع نظر حزب اختلاف ان مورچوں پربھی ناکام رہا جن پر بی جے پی راشٹرواد،آستھا اور دھرم کے ہتھیاروں سے مسلح ان کا مقابلہ کررہی تھی۔حزب اختلاف کے پاس مودی کو کوسنے کے علاوہ کوئی واضح ایجنڈہ نہیں تھا جس کا نقصان انہیں جھیلنا پڑا۔بی جے پی نے پورے الکشن میں راشٹرواد ،آستھا اور دھرم کے نام پر ووٹ مانگے اور حزب اختلاف عوام کو بی جے پی کےراشٹرواد کی حقیقت بتلانے میں ناکام رہا۔ہم نے کسی ایک انتخابی ریلی میں کسی لیڈر کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ بی جے پی کا راشٹرواد فرقہ پرستی کی بدلی ہوئی صورت ہے ۔ہندوئوں کو یہ یقین دلایا گیاکہ مسلمان اس ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جسکے بعد انکا دھر م بھی خطرے میں پڑجائے گا ۔ایک نریندر مودی ہی ہیں جو انکے دھرم اور راشٹر کی حفاظت کرسکتے ہیں ۔اس یقین دہانی کے بعد ملک کا ہندو طبقہ نریندر مودی کوہندودھر م کا مسحا سمجھتاہے اور آنکھیں موند کر نریندر مودی کی حمایت کو اپنا دھارمک فریضہ مانتاہے۔کانگریس ان تمام حقائق سے انجان بنی رہی اور فقط ’’ چوکیدار چورہے‘‘ جیسے نعرے پر ہندوستانی عوام کو متحد کرنے کی کوشش کرتی نظرآئی لیکن حقیقت سے نظریں چرانا کانگریس ہی نہیں تمام علاقائی جماعتوں کو بہت مہنگا پڑا۔ کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتیں نریندر مودی کو کوستی رہیں اور نریندر مودی ہندوئوں کا مسیحا بن کر ہندوستان کے اقتدار پر مسلط ہوگئے ۔
حالیہ تناظر میں ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو یہ تسلیم کرلینا ہوگاکہ ہندوستانی عوام کے درمیان سیکولر ڈھانچہ پوری طرح تباہ ہوچکاہے ۔ہندو ئوں کی اکثریت راشٹرواد ،آستھا اور دھرم کے نام پر متحد ہوچکی ہے اور ہندوستان ’ہندوراشٹرواد‘ کی طرف قدم بڑھا چکاہے ۔اس حقیقت کو جتنی جلدی تسلیم کرلیں بہتر ہوگاکہ اب ہندوستان کی سیاست میں سیکولر ازم کے لئے کوئی جگہ نہیں رہ گئی ہے ۔ملک کی اکثریت بی جے پی اور آرایس ایس کے ایجنڈے پر ایمان لاچکی ہے اور انہیں خود کو ’فاشسٹ ہندو‘کہلانے میں بھی کوئی عار نہیں ہے۔اب حزب اختلاف کے لئے خوداحتسابی کا وقت ہے ۔مگر خوداحتسابی سے پہلے بی جے پی کی فتح کے فارمولے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عادل فراز
8896531406