ہندوستان اور ایران کے تعلقات کی اہمیت
عادل فراز
۲ مئی کو ایران پر امریکی پابندیاں مکمل طورپر نافذ کردی جائیں گی ۔پابندیوں کے مکمل نفاذ کے بعد ہندوستان سمیت دیگر ممالک ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کے تجارتی تعلقات رکھنے کے لئے مجاز نہیں ہونگے ۔ایران پر نئی پابندیوں کے نفاذ کے بعد امریکا نے بعض ممالک کو ایران سے تیل کی خریداری پر کچھ ماہ کی چھوٹ دی تھی ،۲ مئی کو یہ چھوٹ ختم ہورہی ہے جس کے بعد ایران سے تجارت پر مکمل پابندیاں نافذ ہوجائینگی ۔امریکہ کی یہ نئی پابندیاں ایران کے جوہری منصوبے اور بیلسٹک میزائیل پروگرام کے خلاف ہیں۔امریکہ چاہتاہے کہ ایران اپنے جوہری منصوبے اور بلیسٹک میزائیل پروگرام سے دستبردار ہوجائے اور اگر اس کا منصوبہ امن پر مبنی ہے تو عالمی برادری یعنی امریکہ کو ان منصوبوں کے جائزے کی پوری اجازت دی جائے ۔ایران کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا جوہری و میزائیل منصوبہ پوری طرح پرُ امن ہے لیکن وہ کسی دوسرے ملک کو اپنے پروگرام کے جائزے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
اس سے پہلے ہندوستان نے واضح الفاظ میں امریکی اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہندوستان اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کو تسلیم کرے گا ،اسکے علاوہ کسی دوسرے کی عائد کردہ پابندیوں پر عمل کرنے کے لئے اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔اس وقت ہندوستان کے اس بیان کوعالمی سطح پر بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا کیونکہ نریندر مودی سرکار نے اسرائیل سے بہتر تعلقات استوار ہونے کے بعد یہ بیان دیا تھا ۔اس بیان سے ہندوستان کو عالمی بازار میں بہت فائدہ پہونچا ۔پہلا بڑا فائدہ یہ تھا کہ اسرائیل اور امریکہ نے ہندوستان کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ ایران کے تیل کے متبادل دینے کے لئے تیار ہیں ۔متبادل کے طورپر سعودی عرب کو پیش کیا گیا اور ہندوستانی تیل کمپنیوں کے مالکان اور عہدیداران کے ساتھ سعودی عہدیداروں کی میٹنگ بھی رکھی گئی ۔اس کے بعد جو بیانات منظر عام پر آئے وہ تسلی بخش نہیں تھے کیونکہ سعودی عرب تیل کی پیدوار میں افزودگی کی یقین دہانی کرانے میں ناکام رہا تھا ۔اب سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان امریکی دبائومیں ایران سے تیل کی تجارت ختم کرتاہے تو اسکے متبادل کے طوپر کیا سعودی عرب ہندوستان کے تیل کے مطالبات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ؟ اگر نہیں تو پھر ہندوستان کو مزید مہنگائی اور روپیہ کی قیمت میں مزید تنزلی کے لئے آمادہ رہنا ہوگا۔نئ پابندیوںکے مکمل نفاذ کے اعلان کے بعد ہندوستانی وزارت پیٹرولیم نے بھروسہ دلایا ہے کہ دوسرے ممالک سے کچّے تیل کی معینہ سپلائی ہوتی رہے گی ۔مگر ابھی ان ممالک کے ناموں کا اعلان نہیں کیا گیاہے جو ایران کے تیل کے متبادل کے طوپر ہندوستان کو کچّے تیل کی سپلائی کرینگے ۔
اگرہندوستان ،چین اور دیگر ممالک امریکی فیصلے کے خلاف جاکر ایران سے تیل کی تجارت جاری رکھتے ہیں تو انہیں امریکی بینکوں کا متبادل بھی تلاش کرنا ہوگا کیونکہ عالمی بازار میں فقط امریکی بینکوں کے ذریعہ ہی تجارت ہوتی ہے ۔جو ممالک امریکی فیصلے کا احترام نہیں کرینگے وہ تجارت کے لئے امریکی بینکوں کا استعمال نہیں کرپائیں گے ۔اس کا اثر یہ ہوگا کہ ہندوستان کو عالمی بازار میں تجارت کے لئے بہت مشکلیں پیش آئیں گی کیونکہ عالمی منڈیوں میں ڈالر کے ذریعہ ہی تجارت ممکن ہے ۔یوروپی یونین نے ایران سے تجارت کے تسلسل کے لئے نیا میکانزم تیار کرنے کا اعلان کیا تھا ۔یہ میکانزم ڈالر سے تجارت کے مقابلے میں ایک اچھے متبادل کے طورپر دیکھا جارہا تھا مگر ابھی تک یوروپی یونین اس نئے میکانزم کو فعال نہیں کرسکاہے ۔آیانئی پابندیوں کے مکمل نفاذ کے بعد یہ نیا میکانزم پوری طرح فعال ہوسکتاہے؟ یوروپی یونین کی طرف سے ابھی ایسا کوئی اعلان نہیں ہواہے جس سے ہندوستان سمیت ان تمام ممالک کو جو ایران سے تجارتی تسلسل کے خواہش مند ہیں ،یہ یقین دہانی ہوسکے کہ نیا میکانزم پوری طرح تیا ر ہے اور امریکی بینکوں کے متبادل کے طورپر کام کرسکتاہے ۔واضح رہے کہ یوروپی یونین نے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی سخت مخالفت کی تھی اور نئے میکانزم کی آمادگی کا اعلان کیا تھا تاکہ یوروپی کمپنیاں ایران سے تجارتی تعلقات بحال رکھ سکیں۔اگر یہ نیامیکانزم فعال نہیں ہوتاہے تو یوروپی کمپنیوں کے لئے بھی امریکہ سے تعلقات بحال رکھنے کی مجبوری رہے گی ،اس لئے وہ ایران سے تجارتی تعلقات بحال نہیں رکھ سکیں گے ۔
امریکہ نے حال ہی میں ایرانی فوج ’ سپاہ پاسداران انقلاب‘ کو عالمی دہشت گردتنظیموں کی فہرست میں شامل کرکے ایران پر عالمی دبائو بنانے کی کوشش کی ہے مگر ایران پر اس فیصلے کا خاطر خواہ اثرنہیں دیکھا گیا ۔اس فیصلے سے ایران کو ہی فائدہ پہونچا اور داخلی طورپر ایرانی عوام اور حزب اختلاف بھی ایرانی حکومت اور آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ کھڑے نظر آئے ۔ڈونالڈ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی چھ ممالک کے جوہری معاہدے کو رد کرنے اعلان کیا تھا جس کی مخالفت یوروپی یونین نے بھی کی تھی کیونکہ یہ فیصلہ آمرانہ اور یک طرفہ تھا ۔امریکہ یک طرفہ نئی پابندیوں کو نافذ کرنے میں اس لئے کامیاب ہوگیا کیونکہ عالمی سطح پرکوئی بھی ملک امریکی بینکنگ سسٹم کو نظر انداز کرکے دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات بحال نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ یوروپی یونین کو نئے مالیاتی نظام انسٹیکس کی ضرورت محسوس ہوئی ۔حال ہی میں نئے مالیاتی نظام انسٹیکس کے ڈائریکٹر نے برطانوی دارلحکومت لندن میں تاجروں ،سرمایہ کاروں اور مختلف کمپنیوں کے ساتھ منعقد ہوئی ایک میٹنگ میں بیان دیتے ہوئے کہاکہ یوروپی تاجر اس نئے میکانزم کے ذریعہ ایران سے تجارت کے لئے آمادہ ہیں۔لیکن مسئلہ یہی ہے کہ ابھی تک یہ نیا میکانزم فعال نہیں ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ ۲ مئی کے بعد یہ نیا میکانزم کتنی جلدی فعال ہوکر امریکی بینکوں کے متبادل کے طور کامیابی کے ساتھ کھڑا ہوتاہے۔
ہندوستان کا مسئلہ صرف ایران کے ساتھ تجارت کا ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان نے ایران میں چابہار بندرگاہ کی ترقی کے لئے کافی سرمایہ کاری کی ہے ۔اس بندر گاہ کا استعمال دونوں ممالک تجارت کےفروغ کے لئے کرنا چاہتے ہیں ۔ساتھ ہی ایران مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی چابہار بندرگاہ کے ذریعہ تجارت کو فروغ دینا چاہتاہے ۔فی الحال امریکہ نےچابہار کو لیکر ایران اور ہندوستان کو کچھ چھوٹ دی ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ چابہار کو لیکر مستقبل میں امریکا کا کیا رخ ہوگا اور ہندوستان امریکہ کے یک طرفہ فیصلے کو کس قدر تسلیم کرے گا ۔
ہندوستان اور ایران کے درمیان دیرینہ تعلقات قائم ہیں۔مشرق وسطیٰ میں ایران اورہندوستان بڑی طاقت بن کر ابھرے ہیں اور دونوں ممالک کے بغیر مشرق وسطیٰ کے تجارتی معاملات میں ترقی ممکن نہیں ہے ۔ہندوستان کی مودی سرکار نے بھی امریکی دبائو کو نظر انداز کرکے ایران سے تعلقات استوار رکھے اور مزید فروغ کے لئے کئی اہم کوششیں کیں۔لیکن ہندوستان کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے ایران کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بھی سخت ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جانب سے نئی پابندیوں کے مکمل نفاذ کی واضح مخالفت نہیں کی گئی بلکہ یہ کہہ کر اس معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان نئ پابندیوں پر مزید غورو فکر کے بعدہی کوئی اقدام کرے گا۔ہندوستان بخوبی جانتاہے کہ امریکہ کایہ فیصلہ ایرانی سرکار کو گھٹنوں پر جھکانے کے لئے ہے اور ایرانی سرکار امریکہ کے سامنے کسی بھی شرط پر جھکنے کے لئے تیار نہیں ہوگی ۔اسلئے اب ہندوستان کا مؤقف پہلے سے زیادہ اہم ہوگا ۔قابل غور یہ ہے کہ موجودہ وقت میں مشرق وسطیٰ کی ترقی اوریک طرفہ امریکی فیصلے کی آبرو ہندوستان کےفیصلے سے جڑی ہوئی ہے۔دیکھنا یہ ہوگا کہ ہندوستان یوروپی یونین کے آمادہ کردہ نئے میکانزم سسٹم کے ذریعہ ایران سے تجارتی تعلقات بحال رکھتاہے یا پھر وہ امریکی دبائو میں آکر اپنے دیرینہ تعلقات کو ختم کرنے کی غلطی کرے گا۔یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا کہ نیا میکانزم امریکی بینکنگ سسٹم کا متبادل بن سکتاہے یا نہیں اوراگر بن سکتاہے تو پھر اسکے اثرات کہاں تک مرتب ہونگے ۔