مسلمانوں میں مرکزیت کا بحران کب اور کیسے ختم ہوگا؟
عادل فراز
۲۰۱۹ کےپارلیمانی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکاہے ۔تمام سیاسی و غیرسیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی تکمیل کےلئے جی توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ضمیر کی خریدوفروخت کا سلسلہ جاری ہے اور سیاست کے بازارمیں ایمان منہ مانگے داموں پر نیلام ہورہاہے ۔ایسے حالات میںجب ہر کوئی اپنے ذاتی فائدے کے لئے ہاتھ پائوں ماررہاہےایک قوم ایسی بھی ہےجو حالات سے بے خبر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈالے ہوئے اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ شکاری ان سے بےخبرہے۔لیکن انہیں علم نہیں کہ شکاری کئی بار انکے بڑوں کا شکار کرچکاہے اور اب دبے پائوں ان کی طرف بڑھ رہاہے ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انتخابات کےموقع پر مسلم قیادت کے پاس کوئی لائحۂ عمل نہیں ہے ۔کسی قومی تنظیم اور قومی رہنما کی طرف سے کوئی ایسا بیان اور منثور منظر عام پر نہیں آیا جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ مسلم قیادت موجودہ صورتحال اور درپیش مسائل سے نپٹنے کے لئے آمادہ ہے یا نہیں ۔یہ وہ وقت ہے کہ جب پورا ہندوستان ،خاص طورپر اقلیتوں اور دلتوں کو کمزورکرنے والے لوگ،زعفرانی تنظیمیں اور ملک کے سیکولر کردار کو ختم کرنے والے افراد چاروں محاذ پر اپنی پوری تیاری کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں،مگرایسے پرآشوب حالات میں بھی ہماری قیادت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے ۔یہ وقت بیان بازی ،کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت اور اپنی ناکامیوں اور پسماندگی کا ٹھیکرا دوسروں کے سرپھوڑنے کا نہیں ہے بلکہ اپنے حالات بدلنے کے لئےمضبوط لائحۂ عمل کے ساتھ میدان عمل میں اترنے کا وقت ہے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے قائدین کو ملت کی پرواہ نہیں ہے ۔انہیں صرف اپنے اور متعلقین کے مفادات کی فکر ہے ۔اگر انہیں ذرا بھی ملت کی پرواہ ہوتی تو پارلیمانی انتخابات سے پہلے منصوبہ بندی کے ساتھ میدان عمل میں اتر جاتے اور انتخابات تک ملت کو اسکے حقوق دلانے اور سیاسی حیثیت عطا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوتے ۔مگراب تک ہر طرف سناٹاہے ۔ہوکا عالم ہے ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہم پر خطر حالات سے آگاہ ہی نہیں ہیں ۔موجودہ صورتحال تشویش ناک نہیں بلکہ اطمینان بخش ہے اور ہمارے قائدین نے یہ بارور کرلیاہے کہ جس طرح ان کے ذاتی مسائل آسانی کے ساتھ حل ہوجاتے ہیں اسی طرح شاید امت کے مسائل بھی حل ہوجائیں گے ۔
مسلم قائدین سے ہمارامخاطب ہونا ہی شاید غلط ہےکیونکہ مسلمانوں کاسب سے بڑا مسئلہ قیادت کا بحران اور مرکزیت کا فقدان ہے ۔جو قائد ہیں وہ علاقائی سطح پر مختلف نظریات اور سیاسی جماعتوں کے ایجنڈےکے اسیر ہیں اس لئے ہم ان سے کسی بھی طرح کی توقع نہیں رکھتے ۔کیونکہ انہوں نےآج تک امت کےمفاد میں کوئی اقدام نہیں کیاہے تو اب کیا کریں گے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمان انہی قائدین کے دام فریب میں الجھے ہوئے ہیں۔جب تک امت مسلمہ ان نام نہادقائدین کے دام فریب سے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گی حالات کبھی نہیں بدلیں گے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو امت کا سیاسی استحصال کرکےاپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں ۔اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ پہلےتوان نام نہاد قائدین پر لگام کسیں اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اپنے مسائل کے حل پر مجبورکریں ۔آج تک مسلمانوں پر قیادت کو تھوپا گیاہے انہیں قائدکےانتخاب کا حق نہیں دیاگیا ۔اگرانہیں یہ حق دیا جاتاتوشایداب تک ایک مرکز قائم ہوچکا ہوتا اور مسلمان اس قدر پسماندگی اور سیاسی بے اعتنائی کاشکار نہ ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مرکزیت کیسے قائم ہو؟
اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے ۔کیونکہ اس سوال کا دائرہ اور پس منظر ایک مکمل صدی پر محیط ہے ۔جب تک ہم ان حالات اور واقعات کا تجزیہ نہیں کرینگے جن کی بنیاد پر آج مسلمانوں میں قیادت کابحران ہے اور مرکزیت کافقدان ہے ،اس وقت تک ہم کسی ایک مرکز پرجمع نہیں ہوسکتے اور نہ مرکزیت کی تلاش ختم ہوسکتی ہے ۔۱۸۵۷ء کے بعد سے ۱۹۴۷ ء تک اور آزادی کے بعدسے موجودہ عہد تک ایک مکمل اور منظم سازش کے تحت مسلمانوں میں قیادت اور مرکزیت کو ختم کیا گیاہے ،جس کا نقصان یہ ہوا کہ آج مسلمان کی حیثیت خس و خاشاک کی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ہم نے حالات کا تجزیہ نہیں کیا ۔درپیش صورتحال پرغور و خوض کرنے سے ہمیشہ کتراتے رہے ۔نتیجہ یہ ہواکہ آج ہماری عدم مرکزیت کا فائدہ اس طرح اٹھایاجارہاہے کہ ناعاقبت اندیش افرادقومی رہنما بن کر ہمارے سروں پر مسلط ہیں۔لہذاضروری ہے کہ ایسے افراد کو معین کیا جائے جوان عوامل کاتجزیہ پیش کریں جن کی بنیاد پرمسلمانوں کی مرکزیت کو ختم کرکے اس مرکزیت کو دوسروں کی طرف منتقل کردیا گیا۔
تمام سیاسی و مذہبی رہنما خواہ وہ کسی بھی نظریے کے حامل ہوں اپنےاتحاد کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی انانیت اور خودپرستانہ فکر کو ختم کرکے امت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دیں ۔کیونکہ جب تک یہ علاقائی رہنما متحدنہیں ہونگے اس وقت امت کے اتحاد کی دہائی دینا نا انصافی ہے ۔اگر یہ بکھری ہوئی طاقتیں پہلے خود متحد ہوجائیں تو امت خود بخود ان کے گرد جمع ہوجائے گی ۔لیکن ان علاقائی رہنمائوں کو جمع کرنا ایساہی ہے جیسے کتّے کی ٹیڑھی دُم کو سیدھا کرنا ،لیکن اگر ان میں سےبعض امت کے مفاد کی خاطر متحد ہوگئے تو بہت سی آسانیاں پیدا ہوجائینگی۔اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگاکہ ہمیں اپنی سیاسی طاقت اورحیثیت منوانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اور حکومت ہماری طاقت اور حیثیت کو پہچان کر تسلیم کرے گی ۔اس طرح جن حقوق کا رونا ہم روتے رہتے ہیں ان کی بازیابی میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی اور جو صورتحال اس وقت درپیش ہے اس پر بھی قابو پانا ممکن ہوگا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان اس وقت خوفزدہ ماحول میں زندگی بسر کررہاہے ۔اسے اس ماحول سے باہر آکر اپنی طاقت کامظاہرہ کرنا ہوگا ۔ہمیں سمجھنا ہوگاکہ جن لوگوں نے جارحیت اور تشدد کے ذریعہ ہمیں خوف کے ماحول میں زندگی جینے پر مجبور کیاہے انکے مقاصد کیاہیں۔اگر ہم اس خوف کے ماحول سے باہر نکل کر بغیر ڈرے ہوئے اپنی پوری طاقت کا مظاہرہ نہیں کرینگے تو ان کے ذریعہ کئے جارہے تشدد اور ظلم میں مزید اضافہ ہوگا، جس کا نقصان ہم تو اٹھاہی رہے ہیں مگر ہماری آنے والی نسلیں اس کا زیادہ خمیازہ بھگتیں گی۔ممکن ہے اس ڈر کے ماحول کو ختم کرنے کے لئےکئی طرح کی قربانیاں دینا پڑیں مگر ہمیں دریغ نہیں کرناچاہئے کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہر حال بہتر ہوتی ہے ۔
مسلم نوجوانوں کو انکے تابناک ماضی سے روشناس کرایا جائے اور موجودہ صورتحال سے نپٹنے کےطریق کار پرمکالماتی فضا قائم ہوتاکہ انکے اندر جو ناامیدی اور خوف کی فضا پائی جاتی ہے اس کاخاتمہ ہو سکے ۔مسلم تنظیمیں اور ادارےنوجوانوں کی تربیت پر مکمل دھیان دیں ۔ان کے لئے تربیتی ورکشاپ قائم کئے جائیں جو نئےزمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوں تاکہ ہمارا نوجوان کسی بھی طرح احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔
ایسے جدید تعلیمی مراکز قائم کئے جائیں جہاں ایسے دانشوروں کو تیار کیا جاسکے جو مسلمانوں کو ایک بہتر قیادت اورمرکزیت عطا کرنے کی راہ میں اپنےبہتر خدمات پیش کرسکیں ۔یاد رکھیں جب تک قیادت مولویوں کےہاتھ سے نکل کر دانشور طبقے کے ہاتھ میں نہیں جائے گی ہم اسی طرح رسوائی اور ذلت کامنہ دیکھتے رہیں گے ۔علماء کو چاہئے وہ ان مراکز اور تعلیمی اداروں کی سرپرستی کریں اور اپنے علمی بیانات اور مالی تعاون سے ان اداروں کو ہرممکن کمک پہونچائیں۔اب یہ اصرارنہیں کرنا چاہئے کہ امت کی رہنمائی صرف اور صرف مولوی حضرات کاحق ہے۔ہندوستان کے سیاسی حالات میں علماء کا کردار مشکوک ہوکر رہ جاتاہے اور سیاسی تقاضوں کی تکمیل میں سیاسی رہنمائوں کی طرح انکے قول و فعل کا تضاد انکی شخصیت کشی کرتاہے ۔
ممکن ہےکہ ہمارےبعض نظریات سے مکمل طورپر اتفاق نہ کیاجائے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس وقت ہمیں جتنے بھی مسائل درپیش ہیں اور جس خوف اور ناامیدی کے ماحول میں ہماری ملت زندگی گذار رہی ہے ،اس کےبنیادی اسباب میں ایک اہم سبب مرکزیت کا فقدان ہے ۔ہمارے دانشوران اور علماء حضرات کو چاہئے کہ اس مرکزیت کی بحالی اور ملی قیادت کے بحران کے خاتمے کے لئے سرگرم عمل ہوں ۔یوں تو بہت دیرہوچکی ہے لیکن جب جاگیں تبھی سویرا ہے ۔