پروفیسر محمود الٰہی اپنے وقت کے ایک بڑے محقق اور معتبر نقاد تھے: رفعت عزمی
’ادبی نشیمن‘ نے پروفیسر محمود الٰہی کی پانچویں برسی پر جذباتی خراج عقیدت پیش کیا
۔لکھنؤ۔ معروف محقق اور ناقد پروفیسر محمود الٰہی کی پانچویں برسی کے موقع پر یہاں ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد اردو سہ ماہی ’ادبی نشیمن‘کے دفتر، الماس باغ، ہردوئی روڈ میں کیا گیا۔ ابتدا میں پروفیسر محمود الٰہی کی تصویر پر گل پوشی کر کے انہیں جذباتی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
اس موقع پر صدر جلسہ رفعت عزمی نے کہاکہ پروفیسر محمود الٰہی اپنے وقت کے ایک بڑے محقق اور معتبر نقاد تھے۔ انہوں نے تحقیق اور تنقید کے میدان میں مختلف کار ہائے نمایاں انجام دئے۔ درس و تدریس سے فراغت کے دنوں میں موسم گرما کے دوران ان کی تعطیل کتب خانوں میں قلمی نسخوں کی تلاش میں صرف ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ حالانکہ پروفیسر محمود الٰہی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ’زخمی‘ تخلص اختیار کرتے ہوئے شاعری سے کیا، مگر اس میدان سے وہ بہت جلد کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے ہمیشہ نام ونمود کی پروا کیے بغیراردو ادب کی خدمت کرنا اپنا نصب العین بنا لیا تھا۔ ایسے قلم کے سپاہی کی ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اس دوران ادبی نشیمن کے مدیر ڈاکٹر سلیم احمد نے کہاکہ پروفیسر محمود الٰہی نہ صرف اردو کے اہم محقق اورنقاد تھے بلکہ ایک مشفق استاد اور انسان کی حیثیت سے گورکھپور یونیورسٹی اور ادبی حلقوں میں علاحدہ شناخت رکھتے تھے۔ ان کے شاگرد ملک کی اہم یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آج بھی ان سے حاصل کیے گئے فیض کی روشنی میں درس وتدریس جیسی اہم خدمات کو انجام دے رہے ہیں۔میرے لئے یہ بات قابل فخر ہے کہ مجھے پروفیسر محمود الٰہی کی شاگردگی کا شرف حاصل ہے۔
تعزیتی جلسہ میں محمد اقبال خاں، سید انصار احمد، نصیر احمد، نازش احمد، وقار حسین، محمد رضا، محمد عارف نے پروفیسر محمود الٰہی کی شخصیت اور علمی لیاقت نیز ان کی تحقیقی و تنقیدی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مجموعی طور پر اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ گومتی نگر میں موجود اردو اکادمی کا دفتر ان ہی کی کاوشوں سے وہاں تعمیر ہو سکا۔پروفیسر محمود الٰہی نے اردو اکادمی کے چیرمین کی حیثیت سے اپنے مختلف دورانیہ میں وسیع تر اشاعتی پروگرام کو عملی جامہ پہنایا اور کم قیمت پر اردو کی نصابی کتابیں شائع کرائیں تاکہ طالب علموں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں مستفید کیا جا سکے۔ پروفیسر الٰہی نے اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ہو یا پھرالہلال اورمیر کے نکات الشعراء کی اشاعت سمیت مختلف دوسری کتابوں کو دوبارہ منظر عام پر لانے کا بیڑا اٹھایا اور اسے بخوبی انجام دیا۔تعزیتی جلسہ کی نظامت ڈاکٹر سلیم احمد نے انجام دی۔