حب الوطنی کو قوم پرستی کے دائرہ میں قید نہیں کیا جاسکتا: مولانا سید ارشدمدنی
ملک کے اتحاد وسالمیت کے لئے تمام طبقات کا متحد ہونا ضروری ہے،مجلس عاملہ سے خطاب
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس مرکزی دفتر مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال، ۱ بہادر شاہ ظفر مارگ،نئی دہلی میں مولانا سید ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا،واضح رہے کہ مولانا سید ارشد مدنی نے آج مجلس عاملہ کی موجودگی میں نئے ٹرم کی صدارت کا چارج لیا اور اسی کے ساتھ موجودہ قومی مجلس عاملہ تحلیل کردی ۔ اب صدرمحترم نئی مجلس عاملہ نامزدکرکے ان کے مشورہ سے جنرل سکریٹری کو نامزدکریں گے، اس میٹنگ میں ملک کے موجودہ حالات اورقانون وانتظام کی بد تر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز پر تفصیل سے غور خوض ہوا اور ان پر مجلس عاملہ کے ممبران نے کھل کر اپنی رائے اور احساسات کا اظہار کیا ۔جمعیۃعلماء ہند ہمیشہ سے قومی یکجہتی ،وطنی اتحاد کی داعی اورآزادی وطن کی علمبرداررہی ہے ،اس کا یہ امتیاز ہے کہ یہ وسیع اورعظیم الشان ملک جو ہمارا وطن عزیز ہے ،صدیوں سے مختلف فرقوں اورملتوں کاگہوارہ اورمختلف زبانوں اورعقائد ورسوم کاسنگم رہا ہے،وطنیت کے لازوال رشتہ نے اس ملک کی وسیع آبادیوں کوزبان ،تہذیب اوررسم ورواج کے تمام اختلاف کے باوجود ہمیشہ ایک بنائے رکھا ہے ،یہی وحدت اورباہمی تعلقات کی خوش گواری اورتعاون درحقیقت اس ملک کی سب سے بڑی قوت اور اس کے استحکام وترقی کی بنیادہے ۔بعدازاں مولانا سید ارشدمدنی نے مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقدہورہاہے ، جب ملک نامساعد حالات کا شکارہے اور پارلیمانی الیکشن کی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے ، انہوں نے کہا کہ آزادی سے قبل کی تاریخ ہو یا اس کے بعد کی جمعیۃعلماء ہند نے ہر ہر موقع پر اپنے خیالات وافکار سے ملک وقوم کو ایک روشنی دکھائی ہے ، جمہوریت کی بقاہو ، آئین کی پاسداری ہو یا ملک کے اتحادویکجہتی کا مسئلہ جمعیۃعلماء ہندنے ہر نازک موقع پر رہنمائی کا اہم فریضہ انجام دیا ہے ، اس اجلاس میں تمام اہم مسائل پر گفت وشنید ہوئی ، اور اس طرح کے نامساعد حالات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے ، اس پر بھی تفصیل سے غورخوض ہوا ، اور متعدداہم تجاویز پیش کئیں گئیں ، مولانامدنی نے کہا کہ ملک بلاشبہ تاریخ کے سب سے نازک دورسے گزررہا ہے ، جن قدروں اوراصولوں پر آزادہندوستان کی بنیادرکھی گئی تھی اسے دانستہ کھوکھلا کردیا گیاہے ، چنانچہ آئین وقانون کی بالادستی کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی زبردست خطرہ لاحق ہوچکا ہے ، ایک مخصوص نظریہ کو ملک پر مسلط کرکے اس کے آئینی کردار کو تباہ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ، اقلیتوں کے حقوق پر مسلسل شب خوں ماراجارہا ہے ، اور اگر یہ سب کچھ آئندہ بھی اسی طرح جاری رہا تو ہمارے اکابرین نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا وہ نہ صرف اپنی تعبیر سے محروم ہوجائے گا بلکہ ٹوٹ کر بکھرسکتاہے ، انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں ہم پر دوہری ذمہ داری آن پڑی ہے، ایک طرف جہاں ہمیں ملک میں اتحاد،امن یکجہتی کوفروغ دینا ہے وہیں انصاف پسند لوگوں کو ساتھ لیکر ہمیں ان طاقتوں سے لوہابھی لینا ہے ، جو ملک کو ایک نظریاتی مملکت میں تبدیل کردیناچاہتی ہیں ، مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتارہا ہے اسے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ، نت نئے تنازعات کھڑا کرکے مسلمانوں کو نہ صرف اکسانے کی کوششیں ہوئی ہیں بلکہ انہیں کنارے لگادینے کی منصوبہ بند سازشیں بھی ہوتی رہی ہیں ، ایک مخصوص نظریہ پر مبنی قوم پرستی کا پروپیگنڈہ کرکے مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کئے جاتے رہے ہیں ، لیکن اس سب کے باوجود مسلمانوں نے جس صبروتحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ مثالی ہے اور اس کے لئے ملک کا ایک بڑا انصاف پسند طبقہ بھی انہیں تحسین پیش کررہا ہے ، انہوں نے کہا کہ ہمیں آگے بھی اسی طرح صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں ہمیں آئندہ بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اور مشتعل کرنے کی کوششیں کرسکتی ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے امن ،بھائی چارہ ، یکجہتی اوراتحادکو ہمیشہ اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھاہے، کیونکہ ہمارے اکابرین یہی کرتے رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو ہندوراشٹر کی راہ پر لگاکر اسے ایک ترقی یافتہ ملک بنادیں گے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں یہ ملک امن ،اتحاداوریکجہتی کی راہ پر چل کرہی ترقی کا سفرطے کرسکتاہے ، اور اس ترقی میں ملک کے ہر شہری کا تعاون شرط ہے ، انہوں نے وضاحت کی کہ ہماری لڑائی کسی مخصوص سیاسی پارٹی سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ملک کی صدیوں پرانی تہذیب ، اور اس کی مشترکہ ثقافت کو ختم کرکے اسے ایک نظریاتی مملکت میں ڈھالنا چاہتے ہیں ، مولانا مدنی نے کہا کہ جو لوگ اس طرح کے نظریہ کے پروردہ اور حامی ہیں اگران کی طاقت اور حوصلہ کو ابھی توڑانہ گیا تواس کوتاہی کے لئے ہمیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ،انہوں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس شہری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ملک کے اتحاداور اس کی سالمیت میں یقین رکھتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات خاص طور پر مسلم اقلیت اور دلتوں کیلے تقسیم کے وقت سے بھی بدتر اور خطرناک ہوچکے ہے ایک طرف جہاں آئین اور قوانین کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کوبھی ختم کردینے کی خطرناک روش اخیتارکی جارہی ہے ۔ ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانبداری اور رواداری کے لئے مشہورہے ،سیکولرازم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے ، کثیر المذاہب ملک میں کسی ایک خاص مذہب اور خاص سوچ کی حکمرانی نہیں چل سکتی ، ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور یہ ملک مذہبی غیر جابنداری اور سیکولرازم کی راہ پر چل کرہی ترقی کرسکتا ہے ، آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ ملک کسی خاص مذہب کی نظریہ کے بنیاددپر چلے گا یا قومیت کی بنیادیا سیکولرازم کے اصولوں پر ؟ مولانامدنی نے انتباہ دینے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں کسی ایک نظریہ اور مذہب کی بالادستی چلنے والی نہیں ہے یہ ملک سب کا ہے ہندوستان ہمیشہ سے گنگاجمنی تہذیب کا علمبردار ہے اور اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے ۔ مولانا مدنی نے اپیل کی کہ وہ سیاسی بیداری اور شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ریاست اور ملک کی ترقی ، امن وامان،ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی مضبوطی کے لئے زندگی کولگادیں۔
اپنے خطاب میں مولانا مدنی نے کشمیر کا خصوصی طورپر ذکرکیا اورکہا کہ جمعیۃعلماء ہندکا ابتداسے ہی یہ موقف ہے کہ کشمیر ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اس لئے کشمیر ہی نہیں کشمیری عوام بھی ہمارے ہیں ، انہوں نے وضاحت کی کہ مسئلہ کشمیر کا حل بندوق اورظلم وجبرسے نہیں نکل سکتابلکہ اسے آپسی بات چیت کے ذریعہ ہی حل کیا جانا چاہے صرف بندوق کے بل بوتے پر حالات بد سے بدترہوتے جائیں گے ، ہمیں کشمیریوں کا دل جیتے کی اشدضرورت ہے ، انہوں نے کشمیر کے عوام سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ وادی میں امن اتحاداورمشترکہ تہذیبی وراثت کو بچائے رکھیں کیونکہ یہی کشمیر کی روح ہے اور یہی کشمیریت ہے ، اس کے ساتھ حکومت پر یہ بھی ضروری ہے کہ بہکے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے اور ان کے دلوں کوجیتاجائے اور انہیں باورکرایا جائے کہ اپنے حقوق اور مطالبات منوانے کے لئے جمہوریت نے جوہمیں راستہ بتایا ہے وہی درست راستہ ہے ، انہوں نے اس امرپر بھی گہری تشویش کا اظہارکیا کہ اب کچھ لوگ فوج کو بھی اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں یہ خطرناک روش ہے ، مولانامدنی نے صاف لفظوں میں کہا کہ حب الوطنی کو قوم پرستی کے تنگ دائرہ میں قید نہیں کیا جاسکتا، یہ ایساجذبہ ہے جو دلوں میں ازخودپیداہوتاہے ،انہوں نے کہا کہ انسان جس زمین پر پیداہوتاہے فطری طورپر اس سے محبت کرتاہے ، مگرحب الوطنی کے اس جذبہ کو قوم پرستی کے جس غلط مفہوم سے وابستہ کرنے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے وہ ایک مخصوص نظریہ کی ترجمان ہے اوراسے حب الوطنی کانام نہیں دیا جاسکتا۔
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کے پس منظرمیں انہوں نے اجلاس میں کہا کہ سپریم کورٹ کی منشاء کے مطابق ہم مصالحت کے لئے راضی ہوئے ہیں جس کے لئے فریقین کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیداکرنی ضروری ہوگی ، آسام میں این آرسی کو لیکر عوام میں جو خوف و ہراس ہے اس پر بھی انہوں نے گہری تشویش کا اظہارکیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ڈیڈلائن31 ؍جولائی کو ختم ہونے والی ہے جس کی وجہ سے این آرسی کی حتمی فہرست تیارنہیں ہوسکی ہے ، اور پارلیمانی الیکشن کا اعلان ہوچکاہے ، ایسے میں جن شہریوں کانام کسی وجہ سے این آرسی میں نہیں آسکاہے وہ اس خوف کا شکارہیں کہ اب ان کا کیا ہوگا ،انہیں ووٹ دینے کا حق ملے گا بھی یا نہیں ، مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ جب تک این آرسی کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا تب تک ان لوگوں کو جن کا نام ووٹر لسٹ میں ہے ان کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا، جن لوگوں کا نام این آرسی میں شامل نہیں ہوسکا ہے انہیں غیر ملکی نہیں سمجھا جائے گا اور انہیں ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگا ، حال ہی میں دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتارگیارہ مسلم نوجوانوں کی پچیس برس بعد عدالت سے باعزت رہائی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بارپھر انصاف سربلند ہوا اور تفتیشی ایجنسیوں کا جھوٹ عدالت میں بے نقاب ہوا ، اس سے مسلم نوجوانوں کو منصوبہ بندطریقہ سے دہشت گردبنانے کی سازش کا ایک بارپھر پردہ فاش ہوگیا ، لیکن انصاف کے اس حصول میں ان بے گناہوں کی زندگی کے پچیس قیمتی سال خوف وہراس میں بیت گئے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ انصاف کی تلاش میں ان کی زندگیاں تباہ ہوگئیں ،مولانا مدنی نے کہا کہ پچیس برس تک مسلسل ذہنی اذیت میں جو لوگ مبتلارہے ہوں وہ معمول کی زندگی کبھی نہیں گزارسکتے ، انہوں نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کی ایک ایسی سنگین خلاف ورزی ہے جس میں اصل خاطیوں کے لئے کوئی سزانہیں ، انہوں نے کہا کہ جب خاطی پولس افسران کو جواب دہ بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کہہ دیا جاتاہے کہ ایسا کرنے سے پولس کا مورل کمزورہوگا لیکن یہ کہا جاسکتاہے یہ پولس افسران مسلم نوجوانوں کے ساتھ جو ظلم کررہے ہیں اس سے ہماری پوری قوم کا مورل کمزورہورہا ہے ، انہوں نے کہا کہ انصاف کا یہ عمل اس وقت تک ادھوراہے جب تک بے گناہوں کو دہشت گردبنانے والے پولس افسران کو اس کے کئے کی سزانہیں مل جاتی ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس طرح کے معاملہ میں نہ صرف خاطی پولس افسران کو سزاملنی چاہئے بلکہ متاثرین کے لئے مناسب معاوضہ کا بھی التزام ہونا چاہئے اور یہ معاوضہ انہیں خاطی پولس افسران کی تنخواہوں سے کاٹ کر دیاجاناچاہئے ،انہوں نے کہا کہ جب تک ایسا نہیں ہوگا مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بنانے کا مذموم سلسلہ اسی طرح بے روک وٹوک جاری رہے گا اور ہماراقانون اسی طرح بے بس نظر آئے گا ۔جمعیۃعلماء ہند نے اس سلسلہ میں احمدآبادکی سول عدالت میں ان افسران کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے ہرجانہ اور سزاکامطالبہ کرتے ہوئے اکشردھام مندرکے باعزت بڑی مفتی عبدالقیوم صاحب نے جمعیۃعلماء کے توسط سے مقدمہ دائر کررکھاہے۔
مجلس عاملہ میں مظفرنگر فسادسے متاثرین کے لئے باغونوالی مظفرنگر میں مکانوں کی تعمیر ، بہارسیلاب سے مثاثرین کے لئے ،ارریہ ،پورنیہ میں بازآبادکاری کاکام مکمل ہوچکاہے اور کٹیہارمیں جاری ہے ۔ کیرالہ سیلاب سے مثاثرین کے مکانات کی مرمت اور تعمیر کی تفصیلات صدرمحترم نے بتلائیں،جس پر ورکنگ کمیٹی میں اطمینان کا اظہارکیاگیا اور سروے کے بعد مستقبل کے پروگرام کے لئے صدرمحترم کو اختیاردیاگیا ، جمعیۃعلماء ہند کی تنظیم اور اس کے تعمیری پروگرام کے موضوع پر بھی میٹنگ میں غورہوا ،طے پایا کہ ریاستی جمعیتیں اپنی ریاست کی ضلعی اورمقامی یونٹوں کو منظم اورفعال بنائیں اس سلسلہ میں مرکز ان کوہر قسم کاان شاء اللہ تعاون دے گا۔
مجلس عاملہ میں مولانا واضح رشید ندوی ؒ ،مولانا محمد یعقوب مرحوم رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند، مولاناعمارصاحب الہ آبادی، صاحبزادی حضرت مولانا قاری محمدصدیق باندؒ وی ،مولانا عبیداللہ مرحوم کی اہلیہ مرحومہ ،والد ہ مولانا عبدالرشید ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء آسام اور برادربزرگ مولانا نثاراحمدصاحب مالیگاؤں کے لئے دعاء مغفرت کی گئی اوران کے ورثاسے تعزیت کی گئی
اجلاس مجلس عاملہ کی کارروائی زیر صدارت مولانا سید ارشدمدنی مدظلہ مفتی کفایت اللہ ہال میں مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی اور صدرمحترم مدظلہ کی دعاء پر اختتام پزیر ہوئی ۔اجلاس میں حضرت مولانا سید ارشدمدنی مدظلہ ،مولانا عبدالعلیم فاروقی ،مولاناحبیب الرحمن قاسمی ، مولانا مفتی غیاث الدین قاسمی، مولانا سید اشہدرشیدی ، مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانا عبداللہ ناصر قاسمی، مولانا فضل الرحمن قاسمی ، الحاج حسن احمد قادری اور الحاج سلامت دہلی کے علاوہ مولانا محمد خالد قاسمی ، مولانا مفتی عبدالقیوم منصوری، مولانا محمد سفیان کیرالہ، مولانا عبدالقیوم قاسمی،جناب گلزاراحمد اعظمی ،مولاناحلیم اللہ قاسمی، مفتی حبیب اللہ قاسمی،مولانامحمد احمد، حافظ ارشد،جناب محب اللہ امین بنگلور اور قاری شمس الدین قاسمی بطورمدعوخصوصی شریک ہوئے ۔