نہ سمجھوگے تو مٹ جاوگے
از ۔ ڈاکٹر عفت ذکیہ
لیکچرر شعبہ اردو اسماعیل ڈگری کالج ، میرٹھ
بر صغیر میں علماءکی کثرت قابل مبارکباد ہونے کے باوجود گرتا ہوا فکری اور علمی معیار افسوسناک ہے ۔ کثرت کے باوجود کیفیت کے فقدان کا یہ مطلب ہر گر نہیں کہ بابصیرت اور با شعورعلماءنا پید ہیں ۔ در حقیقت با عمل محققین اور علماءجنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال جو کم و بیش تیس سے چالیس سال پر محیط ہیں، حصول علم کے لیے ملکی اور غیر ملکی علمی ادارے ،حوزات علمیہ مثلاً قم اور نجف کی خاک چھانی۔ اپنے اقتصادی اور سیا سی حالات کے زیر اثر گمنامی کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ کوئی بڑا سیا سی خیمہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی پہنچان نہیں ہے ۔ جانے مانے منبروں اور کمیٹیوں تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی جس کی بنا پر عوام سے ان کا فاصلہ بنا رہتا ہے ۔ اس کے بر عکس کچھ لو گ جو بڑے بڑے عہدوں پر جو لوگ قابض ہیں ان میں سے اکثریت کی اصلیت یہ ہے کہ وہ تین چار ماہ کے لیے قم یا نجف گئے ۔ عمامہ سر پر رکھااور آگئے ۔ اپنے اثر و رسوخ ، بڑے باپ کی اولاد ہونے اور اپنے خاندانی پس منظر کی بنا پر میڈیا اور سو شل میڈیا پر ان کی اجا رہ داری ہو جاتی ہے ۔ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے منبر کی شکل میں ایک بڑا پلیٹ فارم پکے ہوئے پھل کی طرح ان کے لیے تیار رہتا ہے ۔ باپ کے بڑے نام سیا سی اور مذہبی اپروچ کی وجہ سے بغیر محنت اور صلاحیت کے اعلیٰ منصبوں پر قابض ہو جاتے ہیں قابل ترین شخصیات ، علمائے با عمل جو دینی ، علمی اور سیا سی بصیرت رکھنے کے ساتھ دیگر امتیاز ات کے با وجود اپنی نا قدری،گمنامی اور باپ دادا کے بڑے نام نہ ہونے کی بنا پر بیس تیس برس تک علوم دین حاصل کرکے بھی ان تین چارہ ماہ پڑھے ہوئے بے بصیرت افراد کے پیچھے چلنے اور ان کی بات ما ننے پر مجبورہو جاتے ہیں ۔
اِ ن اَ ن پڑھ یا کم پڑھے لکھون کی اپنے بزرگوں کی اعلیٰ ترین علمی و سیا سی اداروں اور تنظیموں میں بڑے عہدوں پر فائز ہونے کی بنا پر آیات عظام کے دفتروں تک خوب رسائی ہے ۔ جہاں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیاجاتا ہے ۔ کل اختیارات ان کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خمس وغیرہ کے اجا زے تک یہی افراد دلا تے ہیں ۔ ان کے مقابلے محنتی ، دیانت دار ، علمی صلا حیت کے حامل اور قوم کے ہمدرد علماءکو ان اداروں تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملتا ، ضرورت پیش آنے پر مجبوراً انہیں عالم نما جاہلوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ کے لیے ان کے زیر احسان آجا تے ہیں ۔
علاوہ ازیں محنتی اور با بصیرت علماءچھوٹی چھوٹی بستیوں میں جہاں قوم کے بیس یا پچیس سے زیا دہ گھر نہیں ہوتے ، محرم کے عشرے پڑھنے پر مجبور ہیں ۔ بہت سے تو ایسے ہیں جن بے چاروں کو علمی صلاحیت اوربہترین قوت گویا ئی رکھنے کے باوجود صرف تعارف نہ ہونے کی وجہ سے مجالس کے عشرے تک نصیب نہیں ہو تے ۔ اس کے بر عکس نام و نمود والے ذاکرین صرف چار چھ ماہ قم یا نجف رہ کر آنے پر بڑے منبروں اور قوم کی اکثریت والے علا قوں میں کثیر مجمع کے عشروں، مجالس اور پر وگراموں کو خطاب کرتے نظر آتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں قوم کا علمی معیار روزبروز گر تا چلا جا رہا ہے ۔ گمراہی اور بے دینی میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔ بے بنیاد عقائد سر ابھا رہے ہیں ۔ حق و باطل کی تفریق مٹتی جا رہی ہے ۔ دشمن عنا صر اس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر قوم کو توڑنے اوربنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی ہر ممکن کو شش کررہا ہیں ۔ وہ اپنی کو ششوں میں کس حد تک کامیاب بھی ہے ؟…. اخباریت ، ملنگیت اور نصیریت کا بڑھتا ہوا رجحان اس کی زندہ مثال ہے ۔ در حقیقت اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ عوام نے جب منبروں پر ایسے لوگوں کو براجمان دیکھا جن کا علم و عمل سے دوردور کا بھی واسطہ نہیں تو اخباریت اور ملنگیت کو اس سے بہتر تصورکرنے لگے ہیں بر صغیر کی اکثیریت اسی خلفشار کا شکار نظر آتی ہے ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اس صورت حال کا الزام کس کے سر لگایا جائے ؟ کون اس کا ذمہ دار ہے ؟ علمائ؟ یا پھر قوم ؟
جہاں تک میری فکر کی رسائی ہے ۔ اس صورت حال کے ذمہ دار علما حضرات کے ساتھ ساتھ قوم کے با رسوخ افراد بھی ہیں جو نام نہاد مصلحتوں کی بنا پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب مزید خاموشی خطرے کی علامت ہے ۔ خطرات اب سنگین صورت حال اختیار کر چکے ہیں ۔ لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم ڈھونڈ کر ایسے علما کو منظر عام پر لائے جو اپنی علمی ، فکری اور شعوری صلا حیتوں کے ذریعہ قوم کو گمراہی کے دلدل میں دھنسنے سے بچا سکیں ۔
با شعور افراد اور با عمل علماءکا یہ فریضہ ہے کہ وہ قوم میں پھیلے ان نقائص کو منظر عام پر لا کر ان کو دور کرنے کی تدبیریں کریں ۔علما ءکو ان کے حقوق دلائے جائیں ۔روز بروز ہونے والی علماءکی توہین ، ان کی حقوق سے محرومی اور ان کے ساتھ ہونے والی غیر اخلا قی حر کتیں قوم کی بر بادی کا پیش خیمہ ہے ۔
قوم اور علما کے متحد ہونے کے لیے پہلے علماءکا خود متحد ہونا ضروری ہے ۔ علما ءمتحد ہوں گے تبھی قوم میں اتحاد ممکن ہے ۔ ظہور امام( عج) کے ظہور کی صحیح مفہوم میں زینہ سازی ، صحت مند معاشرے کی تعمیر اور تشکیل کے بغیر نا ممکن ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب قوم اور علما ئے حق متحد ہوکر بے بصیرت ، بد دیا نت اور مفاد پر ست عالم نما جا ہلوں اور خطیبوں سے منبروں ، مدارس اور تنظیموں کو آزاد کرائیں اور انہیں منبروں سے دور رکھیں ورنہ صور حال کا مزید سنگین اختیارکرنا جانایقینی ہے ۔ ابھی وقت ہوتے سنبھل جائیں نہیں تو اس کا نتیجہ روشن ہے ……..
’نہ سمجھو کے تو مٹ جاو ¿ گے ‘۔