عدالت میں مسلمانوں کا موقف پیش کرنے کے لئے جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء ہر طرح سے تیار:مولاناارشدمدنی
Turn off for: Urdu
سپریم کورٹ میں آج پیش ہوگا بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ
نئی دہلی : بابری مسجد کی ملکیت کا حساس ترین مقدمہ کل سپریم کورٹ میں ایک بارپھر پیش ہوگا اورفاضل عدالت کل ہی آئندہ سماعت کیلئے لائحہ عمل بھی تیارکرسکتی ہے معاملہ کی سماعت کس بینچ میں ہوگی اورسماعت کی نوعیت آئندہ کیا ہوگی اس کافیصلہ بھی کل ہوسکتا ہے ، اس کیلئے جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کا پینل اپنی تیاریاں مکمل کرچکا ہے ، اس حقیقت سے بہرحال انکارنہیں کیا جاسکتاکہ اس مقدمہ کولیکر عدالت پر فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے زبردست دباؤ بنانے کی نفسیاتی کوششیں ہوچکی ہیں ، حکومت سے عدالتی فیصلہ کی جگہ قانون سازی کامطالبہ بھی شدت سے ہورہا ہے ، اپنے ایک حالیہ انٹرویومیں وزیراعظم نریندرمودی نے عدالتی فیصلہ کے انتظارکرنے کی بات ضرورکہی ہے مگر یہ اشارہ بھی دیدیاہے کہ ضرورت ہوئی تو ان کی حکومت مندرکی تعمیر کے لئے آڈیننس لاسکتی ہے ، اس مقدمہ کی مضبوط اور بھرپورپیروی کیلئے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء ہند نے سینئر وکلاء پر مشتمل ایک باقاعدہ پینل قائم کیا ہے اور جمعیۃکے وکلاء اب تک انتہائی مدلل اور مثبت اندازمیں مسلمانوں کا موقف عدالت کے سامنے رکھ رہے ہیں ، جمعیۃعلماء ہند اور اس کے فعال صدرمولاناسید ارشدمدنی کا ابتداہی سے اس سلسلہ میں موقف بالکل واضح ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ہم عدالت کے فیصلہ کا بہرصورت احترام کریں گے لیکن مخالف فریقین اور فرقہ پرست تنظیمیں اس کے لئے تیارنہیں ہیں ، مولانا مدنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ ملک کے آئین اور قانون کے وقاراور بالادستی سے جڑاہوامعاملہ ہے اور محض اعتقادکی بنیادپر کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کے لئے مضبوط ثبوت اور شواہد کی ہی ضرورت ہے ، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وکلاء نے عدالت میں نہ صرف یہ کہ مثبت بحث کی ہے بلکہ مسجد سے جڑے ہوئے تمام قدیمی دستاویزات بھی عدالت کو مہیاکرایا ہے جن کا ترجمہ جمعیۃعلماء ہند نے کروایا ہے ، مولانا مدنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمان اس ملک کے پرامن شہری ہیں اور ملک کے آئین اور قانون کابھی وہ پورے صدق دل سے احترام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی تمام تر اشتعال انگیزیوں اور دھمکیوں کے باوجود انہوں نے صبروتمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے ، ان کا مزید کہنا ہے کہ عدلیہ پر ہمارااعتماد بہت مضبوط ہے اورہمیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ عدالت اس حساس مقدمہ میں ثبوت وشواہد اور تاریخی دستاویزات کی بنیادپر قانون کے مطابق ہی فیصلہ دیگی اعتقاد کی بنیادپر نہیں ، باورہوکہ اس مقدمہ میں جمعیۃعلماء ہند روز اول سے فریق ہے ، اور بابری مسجد آراضی کو جب الہ آبادہائی کورٹ کے ذریعہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا تو جمعیۃعلماء ہند نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں سب سے پہلے پٹیشن دائر کی تھی اور اسی پٹیشن پر قانونی جدوجہد اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے ۔