مولاناآزاد کو آزادی سے زیادہ ہندو مسلم اتحادعزیز تھا:مولانا کوثر ندوی
سدری ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے تحت سیمینار’مولانا ابواکلام آزاد فن وشخصےت‘ کاانعقاد
لکھنو : بھارت رتن ایوارڈ سے سرفراز مولانا ابوالکلام آزاد کے نزدیک سوراج اور آزادی سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہندو مسلم اتحاد تھا۔وہ مسلمانوں کومذہب پر قائم رہتے ہوئے جنگ آزادی میں حصہ لینے کی دعوت دیتے تھے ۔ ان کا دائرہ ادب، سیاست، مذہب، تاریخ اور فلسفے کے میدان تک پھیلا ہواتھا۔مولاناآزادکی نظریہ ¿ باہمی ہم اہنگی کی آج اشد ضرورت ہے۔مولانا آزاد محب اردوزبان بھی تھے، اردو کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے دوران مولانا آزاد نے ہندوستانی زبان کو سرکاری کام کاج کی زبان بنانے کی حمایت کی تھی مگر ملک کے بٹوارے کے بعد مولاناکااردو کا دعوی کمزورپڑ گیا۔انہوں نے کہا کہ قومی اتحاد کے تعلق سے مولانا آزاد کی کوششوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں اسے لے کر کتنی تڑپ تھی۔ مولانا نے رام گڑھ میں منعقد ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر آج ایک فرشتہ آسمان سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینارسے یہ اعلان کرے کہ سوراج 24 گھنٹے کے اندر حاصل کر سکتا ہی، بشرطیکہ ہندو مسلم اتحاد ختم ہو جائے تو میں سوراج کے بجائے قومی اتحاد کو منتخب کرونگا۔مذکورہ خیالات کا اظہارسدری ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقد سیمیناربعنوان’مولانا ابواکلام آزاد فن وشخصےت‘ کی صدارت کرتے ہوئے مولانامحمدکوثر ندوی نے ”لکھنو ¿گیسٹ ہاﺅس“ میں اداکئے۔
سمینار کے آغاز میں سدری ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹیکے جنرل سیکریٹری ضیاءاللہ صدیقی ندوینے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انہیں گلدستے پیش،اوراپنے استقبالیہ خطبے میںمسٹرضیاءاللہ صدیقی ندوی نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے طور پر دنیا میں شناخت بنانے والے محی الدین احمد کی مذہبی معلومات کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اخبار الہلال میں ان کے تحریرکردہ مضامین غیبی آواز کی مانند مسلم قوم کو متاثر کرتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد مسلمانوں کو مذہب کی راہ سے جنگ آزادی میں کود پڑنے کی دعوت دیتے تھے ۔ مولانا کی مادری زبان عربی تھی لیکن ان کی اردو تحریریں بھی لاجواب تھیں۔ ان کے الفاظ کا ایک طلسم ہوتا تھا۔ آزاد کا دائرہ ادب، سیاست، مذہب، تاریخ اور فلسفے کے میدان تک پھیلا ہواتھا۔ضیاءاللہ صدیقی نے مزید کہا کہ آج جو لوگ مسلمانوں کو قومیت کے سبق پڑھا رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ مولانا آزاد کا سبق پڑھ کر وہ اپنے ایمان کو تازہ کر سکتے ہیں۔ مولانا آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن دہلی کی جامع مسجد کے در و دیوار ہندوستان کے مسلمانوں کو جاگتے رہنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اگر آپ جاگنے کے لیے تیار نہیں تو کوئی بھی طاقت آپ کو جگا نہیں سکتی۔ مولانا آزاد کی شخصیت کے سینکڑوں پہلو تھے ۔مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد کی مذہبی، سماجی اور تعلیمی کارکردگی اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ سماجی اتحاد کے پیروکار تھے ۔مولانا آزاد ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے،وہ علامہ شبلی کے فیض یافتہ، انکی فکر کے نمائندے،دین کے پرجوش داعی، اور فکر ندوہ کے ترجمان تھے،انھوں نے علمی اور ثقافتی سطح پر ایسی قابل ذکرخدمات انجام دیں، جوہندوستان کے لئے طرہ ¿ افتخار ہیں،انکی سیاسی بصیرت،ہندومسلم اتحاد کا نظریہ وطن کے لئے بے انتہاقربانیوں کا تسلسل کی افادیت آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر ارشاداحمدخاں بیاروی وڈاکٹرنثاراحمد نے مولانا ابوالکلام آزاد اور جدید اردو صحافت پر کہا کہ محض 12 سال کی عمر میں مصباح اخبار کے ایڈیٹر مولانا آزاد جدید اردو صحافت کے روح رواں تھے ۔ وہ سیاست اور معاشرے میں مکمل تبدیلی چاہتے تھے ۔ اردو صحافت کوبلندی پر پہنچانے کی کوشش تو سرسید احمد خاں نے کی تھی۔مولانا آزاد ان سے بہت متاثر تھے لیکن آگے چل کر مولانا نے اپنی راہ خود منتخب کی۔انہوں نے کہا کہ مولانا نے اپنے ایک مضمون میں اخبارات کو زندہ ہادی قرار دیا تھا۔ مولانا صحافت کو آزاد اور خودمختار بنانا چاہتے تھے ۔ وہ دوسرے فریقوں کی مالی مدد سے چلنے والے اخبارات اور رسالے کو صحافت پر بدنما داغ سمجھتے تھے ۔ مولانا نے الہلال اخبار کو خوبصورت بنانے کے لئے تصاویر پر بھی زور دیا۔ وہ پہلا اردو اخبار تھا جس میں تصاویر کا استعمال کیا گیا۔ مولانا آزاد نے اردو صحافت کو ایک فکر دی، مگر افسوس کی بات ہے کہ مولانا نے جو چراغ روشن کیا تھا وہ مدھم پڑ رہا ہے ۔ اردو صحافت کا معیارگر رہا ہے ۔ موجودہ اردو صحافت کو دوبارہ اپنا وقار حاصل کرنے کیلئے مولانا کی وراثت کو اپنانا ہوگا۔
سیمینار کی نظامت کرتے ہوئےیونس سلیم نے کہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے ۔ مولانا آزاد کی شخصیت کے تین پہلو ہیں۔ سب سے پہلے ، وہ ایک ماہر تعلیم تھے ۔ دوسرے ، وہ ایک بہت اچھے ادیب تھے اور تیسرے ، سیاسی اعتبار سے ان کی شخصیت مثالی تھی ۔ مولانا آزاد نے ہی ہندوستان کے بٹوارے کے وقت ملک سے جانے والے مسلمانوں کو تاریخی تقریر کرکے روکا تھا۔ مسلم قوم کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے ۔