ملک اور مسلمانوں کو مولانا ابوالکلام آزاد جیسے قائد کی ہے ضرورت: بیداری کارواں
پٹنہ: پریس ریلیز۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی 130ویں یومِ پیدائش کے موقع پر آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدرنظرعالم نے ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا ایسا ہے جیسے کسی سمندر کی حدبندی کرنا۔ دانشور دور اندیش سیاست داں، مفکر، فلسفی، خطیب، صحافی اور عالمی مرتبہ مجتہد جیسے القاب میں بھی ان کو قید نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا نے صرف ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ آزادی کے بعد وزیرتعلیم کی حیثیت سے انہوں نے ملک کو بہت کچھ دیا۔ مولانا ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ زندگی کے ہرشعبہ میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا کے علم اور صلاحیتوں کا فائدہ مہاتماگاندھی، جواہر لعل نہرو اور پٹیل نے خوب اٹھایا لیکن مسلمانوں نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا ہی نہیں اور ان کو کانگریس کے قائد کے طور پر دیکھتے رہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ مولانا 1888 میں دُنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی۔ 1895 میں وہ کلکتہ پہنچے۔ یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی۔ اللہ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے فراخ دلی کے ساتھ نوازا تھا۔ انہوں نے تیرہ ۔چودہ برس کی عمر میں فقہ، حدیث، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ اپنے والد مولانا خیرالدینؒ کے علاوہ مولوی ابراہیمؒ، مولوی محمدعمرؒ، مولوی سعادت حسنؒ وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے دس گیارہ برس کی عمر میں شعرگوئی کا آغاز کیا اور مولوی عبدالواحدؒ کی تجویز پر آزاد تخلص پسند کیا۔ بعد میں نثرنگاری کی طرف توجہ دئیے۔ مولانا کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہرشعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ مولانا کی ادبی، سماجی، تاریخی اور سیاسی تحریروں میں قرآن کے حوالے موجود ہیں۔مولانا نے ایک جگہ تحریر فرمایا’’اسلام کسی ایسے اقدار کو جائز تسلیم نہیں کرتا جو شخصی ہو یا چند تنخواہ دار آفیسروں کی بیوروکریسی ہو وہ آزادی اور جمہوریت کا ایک مکمل نظام ہے جو نوع انسانی کو اس کی چھینی ہوئی آزادی واپس دلانے کے لئے آیا ہے اور خدا کے سوا کسی انسان کو سزاوار نہیں کہ بندگان خدا کو اپنا محکوم اور غلام بنائے‘‘۔ مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہیں تھے اور وہ صرف مسلمانوں کے لئے تعمیری سوچ و فکر رکھنے والے شعبہ بیان مقرر اور بیدار جید عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدآزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار بھی تھے۔ مولانا مذہب کے نام پر کسی بھی کام کے خلاف تھے۔ مولانا نے ایک جگہ لکھاہے کہ ’’آج میں یہ بات ببانگ دہل کہہ رہا ہوں کہ جن مسلمانوں نے تقسیم کا خواب دیکھا تھا اور اسلامی جمہوریت کی بنیاد ڈالنے کی بات کی تھی، آج ان کی بات قبول ہوگئی اور ہم گنہگاروں کی دعائیں کام میں نہ آئیں مگر میں آج یہ بات بھی دو روپے کے کاغذ پر لکھ سکتا ہوں کہ جس چیز پر بھی مذہبی جنون کا عملی جامہ پہنایا جاتا ہے وہ لمبی مدت تک کامیاب نہیں ہوپاتا۔‘‘مولانا ملک اور کانگریس پارٹی کے لئے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک ملک و قوم کی خدمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کے سچے سپوت ہیں۔ مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے بھی کہا تھا’’مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلیٰ ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرے‘‘۔ نظرعالم نے مولانا ابوالکلام آزاد کی یومِ پیدائش کے موقع پر صاف لفظوں میں کہا کہ مجھے کہنے میں ذرا بھی گریز نہیں کہ سرسیداحمدخاں اورمولانا ابوالکلام آزاد نے جو تعلیمی تحریک کی شروعات کی اور وہی تحریک آج بھی پورے ملک میں کام کررہی ہے ۔ ان دونوں شخصیت کے بعد ملک میں جو بھی مسلمانوں کے قائد اور رہنما ہونے کی بات کررہے ہیں انہوں نے مسلمانوں کو صرف پستی کی طرف ہی دھکیلا ہے جس وجہ کر آج مسلم قوم دلت سے بدتر زندگی آزاد ملک میں جینے کو مجبور ہیں۔ میں تمام ایسے قائد جو خود کو مسلمانوں کا رہنما بتانے سے گریز نہیں کرتے، لمبی لمبی تقریریں اور بڑی بڑی تحریکوں کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو سبرباغ دکھارہے ہیں وہ حضرات اگر مسلمانوں کے واقعی قائد ہیں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے ہیں تو مسلمانوں کے آنے والی نسل کو تعلیم سے جوڑنے کی تحریک کو مضبوطی دیں۔نشست میں کارواں کے نائب صدرمقصودعالم پپو خان، محمداشرف سبحانی، انصاف منچ کے نائب صدرنیازاحمد، اقلیت جاگرین سوسائٹی کے جنرل سکریٹری اسرارالحق لاڈلے، مولانا مہدی رضا قادری، مطیع الرحمن موتی کے علاوہ کثیرتعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔