ہاشم پورہ سانحہ پردیر سے آیا ہوا ایک درست فیصلہ : مولاناارشدمدنی
نئی دہلی : یہ ملک کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھافیصلہ ہے جو دیر آید درست آید کا مصداق ہے مگر اس سے انصاف کو سربلندی حاصل ہوئی ہے ،یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کے ہیں جو انہوں نے ہاشم پورہ قتل عام معاملہ پر آج دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اپنے ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ 31برس کے طویل انتظار اور قانونی جدوجہد کے بعد متاثرین کو انصاف مل گیا اور خاطیوں کو ان کے گناہوں کی سزامل گئی ، مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد سے اب تک ملک بھرمیں25 ہزارسے زائد فسادات ہوچکے ہیں لیکن بیشتر معاملوں میں متاثرین کو انصاف سے محروم رکھا گیا اس تناظرمیں انہوں نے وضاحت کی کہ اگر آزادی کے فورا بعد ہوئے جبل پورجیسے بھیانک فسادات میں خاطیوں کو سزامل جاتی اور قانون و انصاف کے معیارکو برقراررکھا جاتا تو اس کے بعد وقفہ وقفہ سے مسلسل ہونے والے فسادات کو رونماہونے سے روکا جاسکتا تھا اور ان فسادات کے دوران جو ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئی اور کروڑوں اربوں کی املاک کا نقصان ملک کوہوا اس سے بچاجاسکتا تھا ،ساتھ ہی فرقہ پرستی کو پھلنے پھولنے سے بھی روکا جاسکتا تھا ، مگر افسوس! جہاں کہیں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے تو انہیں ہمیشہ تعصب کی عینک سے دیکھا گیااور انتظامیہ وحکومتی سطح پر متاثرین کے ساتھ امیتاز کا رویہ اپنا کر خاطیوں کی درپردہ حوصلہ افزائی کی گئی جس کے خطرناک نتائج اب سامنے آچکے ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ اسی معاملہ کو دیکھیں پہلے ہی دن سے سب کچھ آئینہ کی طرح صاف تھا عینی شاہدین تھے جو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ پی اے سی نے عمداًاس قتل عام کو انجام دیا ہے مگر انصاف کے حصول میں 31برس کا طویل عرصہ صرف ہوگیا ، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ ایک ہی معاملہ میں ایک عدالت تمام خاطیوں کو باعزت بری کردیتی ہے تو دوسری عدالت انہیں خاطی قراردیکر سزاسناتی ہے ، انہوں نے آخرمیں کہا کہ اس فیصلے سے عدلیہ پر ہمارااعتماد مزید مضبوط ہوا ہے اور ہم اکثرمواقع پر یہ کہتے آئے ہیں کہ جو کام حکومتوں کو کرنا چاہئے تھا وہ عدلیہ کررہی ہے ، ہاشم پورہ واقعہ اس کی روشن مثال ہے ، انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ مانناہے کہ انصاف کا دوہرا پیمانہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اگر کوئی مجرم ہے اور اس کا جرم ثابت ہوجاتا ہے تو وہ خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواورکسی بھی رتبہ یا منصب پر فائز ہواسے سزاملنی چاہئے ، ،قابل ذکر ہے کہ 2015میں دہلی کی تیس ہزاری کورٹ نے تمام خاطیوں کو کلین چیٹ دیدی تھی تو اس کے فورابعد مولانا مدنی نے اترپردیش کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادوسے ملاقات کرکے اس فیصلے کے تناظر میں گفتگوکی تھی اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ ریاستی حکومت مثاثرین کی مالی امدادکرے ، اہم بات یہ ہے کہ مولانا مدنی کے مطالبہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اکھلیش سرکارنے نہ صرف 48 متاثرین کو پانچ لاکھ روپے فی کس مالی امدادفراہم کی تھی بلکہ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اس معاملہ میں زیریں عدالت کے فیصلہ کے خلاف اترپردیش حکومت ہائی کورٹ میں اپیل کریگی ۔چنانچہ اس روز کی ملاقات میں جو فیصلہ لیا گیا دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ کی شکل میں اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے