آج اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ملک کاآئین اور جمہوریت خطرے میں: ارشد مدنی
کیرالہ سیلاب متاثرین کے لئے ابتدائی طورپرمکانات کی تعمیر ومرمت کے لئے چھ کروڑ کے پروجیکٹ کو
منظوری
نئی دہلی ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں مرکزی دفترجمعیۃعلماء ہندکے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال ۱ بہادرشاہ ظفرمارگ نئی دہلی میں جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا ، جس میں ملک کے موجودہ حالات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دوسرے اہم ملی وقومی معاملات پر نہ صرف غورخوض ہوا بلکہ متعدد اہم تجاویز کو بھی منظوری دی گئی ، اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ گزرتے وقت کے ساتھ ملک کے حالات نہ صرف ابتر ہوتے جارہے ہیں بلکہ لوگوں میں عدم تحفظ اور خوف کا ماحول بھی مزید گہرا ہوتاجارہا ہے انہوں نے کہاکہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے کچھ لوگ جھوٹی تشہیر اور پروپیگنڈوں کے ذریعہ نہ صرف اقلیتوں میں خوف و دہشت پھیلانے کا خطرناک کام کررہے ہیں بلکہ منصوبہ بند طریقہ سے ایک مخصوص نظریہ کو ملک پر تھوپنے کی خطرناک کوششیں بھی ہورہی ہیں ، ان سب کے نتیجہ میں ملک کی اقلیتیں خاص پر طور مسلمان اور دلت طبقہ کے لوگ خود کو یکسر غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں ،ان کے اندریہ احساس گھرکرتا جارہا ہے کہ ملک کے قومی دھارے سے الگ کرکے انہیں کنارے لگادینے کی کوشش ہورہی ہے اور اس کوشش کو کسی نہ کسی سطح پر حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ اس خطرناک روش کے سبب ملک کے سیکولرازم ، آئین ، جمہوریت اورمذہبی اتحادکو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ مسلم اقلیت، دلتوں اورکرسچن کے لئے ملک کے موجودہ سیاسی حالات تقسیم کے وقت سے بھی زیادہ خطرناک ہوچکے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ہماراملک صدیوں سے کثرت میں وحدت کی مثال رہا ہے ، مذہبی ہم آہنگی ، رواداری ، اور ایک دوسرے کا احترام اس کی شناخت رہی ہے اور یہی شناخت ملک کے آئین کی روح ہے ، مگر افسوس کہ ایک طرف جہاں آئین وقانون کی بالادستی کو پامال کیا جارہاہے وہی دوسری طرف مذہبی شدت پسندی کوبڑھاوادیکر قومی یکجہتی ،رواداری ، مساوات اور ملک کے بھائی چارے کو نیست ونابود کردینے کی سازشیں ہورہی ہیں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی صدیوں پرانی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے شروع سے امن اور محبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں ، اس لئے میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ملک کسی ایک خاص مذہب اور مخصوص نظریہ کی حکمرانی پرنہیں چل سکتی ، بلکہ مذہبی غیر جانبداری امن ،اور سیکولرازم کی راہ پر چل کرہی یہ ملک ترقی کرسکتا ہے ، انہوں نے انتباہ کیا کہ اگر ملک میں آئین وقانون کی بالادستی ختم ہوئی اور مذہبی ہم آہنگی کا تانہ بانہ ٹوٹ گیا تو یہ بات ملک کے لئے انتہائی نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے ، مولانامدنی نے مزیدکہا کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے قیام سے آج تک ملک میں اتحاد ، یکجہتی ، امن ، اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے میں پوری طرح سرگرم رہی ہے ، جمعیۃکا یہ مشن آج کے حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے ، انہوں نے کہا کہ آج ہماراملک ترقی کی جن بلندیوں پرہے یہاں تک اسے پہنچانے کے لئے ملک کے ہرشہری نے اپنا تعاون دیا ہے ، اس لئے اگر دوسری قوموں اور لوگوں کی قربانیوں اوران کی خدمات کو پس پشت ڈال کر ملک کے قومی دھارے سے صرف مذہب کی بنیادپر انہیں الگ تھلگ کردینے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے کسی قوم یا فردواحد کا نقصان نہیں اس سے ملک کاآئین اور جمہوریت بھی خطرے میں پڑسکتی ہے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہجومی تشددکوئی ملی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ،یہ سیاسی طورپر ہی حل کیا جاسکتاہے اس لئے تمام سیاسی پارٹیاں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کوسیکولرکہتی ہیں میدان عمل میں کھل کرسامنے آئیں اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدام کریں صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔
اس موقع پر بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ کی اب تک کی قانونی پیش رفت پر اطمینان کا اظہارکیا گیا ، اور کیرالہ میںآئے بھیانک سیلاب کی تباہ کاریوں پر متاثرین سے ہمدردی کا اظہاکرتے ہوئے ایک اہم تجویز میں کہا گیا ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں جمعیۃعلماء ہند مذہب وقوم کی تفریق کے بغیر تمام متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے ہم مالک کائنات کے بندے ہیں لہذا اس کے ہر فیصلے پر سرتسلیم خم کردینا ہماری بندگی کا تقاضہ ہے اور وہی ہماری اس عظیم تباہی وبربادی کا مداویٰ بھی کرے گا ، تاہم بطور اسباب جمعیۃعلماء ہند اور اس کی شاخیں اپنی بساط کے مطابق سیلاب میں اپنا سب کچھ کھودینے والوں کی مددمیں سرگرم عمل ہے ، صوبہ جمعیۃعلماء مہارشٹرا غلہ ، کپڑے اور دیگر اشیاء کی فراہمی میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی زائد رقم خرچ کرچکی ہے،جمعیۃعلماء گجرات،احمدآباد متاثرین کے لئے تقریباڈیڑھ کروڑ کی اشیاء بھیج چکی ہے ، جمعیۃعلماء کرناٹک بھی پچاس لاکھ قیمت کی روز مرہ ضروریات کی اشیاء سے ان کی مددکرچکی ہے ، متاثرین میں ہندومسلم عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں ، تجویز میں مزید کہا گیا ہے کہ جمعیۃعلماء ہند نے ایسے لوگوں کے لئے جن کے مکانات تباہ ہوچکے ہیں اور اس وقت وہ کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبورہیں ابتدائی طورپر کیرالہ کے شمالی ، جنوبی ،اوروسطی زون میں تین سومکانات کی تعمیر اور مرمت کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، ایک مکان کی تعمیر پر تقریبا چارلاکھ اور مرمت پر کم ازکم ایک لاکھ تخمینہ ہے ، اس طرح اس منصوبہ پر تقریبا چھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے ۔انشاء اللہ اس پروجیکٹ کو صوبائی جمعیتوں کے تعاون سے پوراکیا جائے گا۔
دوسری اہم تجویز میں کہا گیا ہے کہ ملک میں یکم ستمبرسے ووٹر لسٹ میں نئے ناموں کے اندراج اور درستگی کا کام شروع ہوچکا ہے جو 31؍اکتوبر تک جاری رہے گا، ہر پولنگ بوتھ پر متعین دنوں میں سرکاری عملہ اس کے لئے ماموررہے گا ، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس سلسلہ میں مستعدی کا مظاہرہ کریں اور یہ یقین کرلیں کہ ان کے گھر اور خاندان کے کسی بالغ شخص کا نام ووٹرلسٹ میں شامل ہونے سے رہ تو نہیں گیا ہے ۔اگرایسا ہے تو وہ فوراناموں کا اندراج کروالیں ، کونکہ ایک تازہ انکشاف سے معلوم ہوا ہے کہ کروڑوں کی تعدادمیں 18سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں کے نام ووٹرلسٹ میں شامل نہیں ہے یہ انتہائی تشویشناک بات ہے ، مجلس عاملہ نے طے کیا ہے کہ ریاستی صدرورونظماء اعلیٰ کی توجہ باقاعدہ ایک سرکلرجاری کرکے اس طرف مرکوز کرائی جائے ، تاکہ وہ اضلاع کے ذمہ داروں کو اس بابت باخبر کرسکیں ۔
این آرسی کے تعلق سے انہوں نے آسام کے تمام شہریوں سے اپیل کی کہ وہ صبروتحمل کا مظاہرہ کریں کیونکہ سپریم کورٹ کے ہدایت کے مطابق 25؍ستمبر سے آبجیکشن اورکلیم کا عمل شروع ہورہا ہے چنانچہ جن لوگوں کا نام شہریت کے رجسٹر میں نہیں ہے وہ مذکورہ دستاویزات کے ساتھ این آرسی مراکز جائیں ،اور شہریت کے کاغذات پر کریں ، ان کی مددکے لئے جمعیۃعلماء ہند اور صدرجمعیۃ علماء آسام مولانا مشتاق عنفر کے ذریعہ متعین کئے گئے وکلاء اورکارکنان ٹیم ہر جگہ ان کی قانونی مددکے لئے موجودرہے گی ، انہوں نے کہا کہ اس عمل میں جن لوگوں کا نام فہرست میں آنے سے رہ جائے گا سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق انہیں دوبارہ شہریت ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا ، انہوں نے وضاحت کی کہ آسام کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ بنگالی ہندو، اوربنگالی مسلمان دونوں کا ہے اور جمعیۃعلماء ہند مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر آسام شہریت کے مقدمات کی پیروی کرہی ہے ،مولانا مدنی نے آخر میں کہا کہ میرا ایک ہی پیغام ہے کہ مسلمان جذبات کے بجائے ہوس سے کے کام لیں ، الیکشن جیسے جیسے قریب آتا جائے گا انہیں بھڑکانے اور اکسانے کی ہرممکن کوشش ہوسکتی ہے ، لیکن وہ اس جال میں ہرگز ہرگز نہ پھنسیں ، بلکہ اسلام کے امن وآشتی کے پیغام کو ہرشخص تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔
جلاس مجلس عاملہ کی کارروائی مولانا سید ارشدمدنی کی صدارت میں ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوئی ،شرکاء اجلاس میں صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سیدارشدمدنی ، ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، ارکان میں مولانا حبیب الرحمن قاسمی دیوبند، مولانا عبدالرشید آسام ، مولانا اشہد رشیدی مرادآباد،مفتی غیاث الدین قاسمی حیدرآباد، مولانا سید اسجد مدنی دیوبند، مولانا فضل الرحمن قاسمی ، مولانا عبداللہ ناصربنارس، الحاج حسن احمد قادری پٹنہ ، الحاج سلامت اللہ دہلی کے علاوہ مولانا محمد راشد قاسمی ، مولانا محمد خالد قاسمی ہریانہ ، مولانا عبدالقیوم قاسمی مالیگاؤں ، مولانا محمد احمد بھوپال ، مفتی عبدالقیوم گجرات ،مولانا محمد سفیان کیرالہ ، مولانا عبدالشکورکیرالہ، پروفیسر نصراللہ مدراس ، مفتی معصوم ثاقب آندھرا، جناب محب اللہ امین بنگلور، حافظ ارشدمیسور، مولانا حلیم اللہ ممبئی ، حافظ مسعووناگپور، مولانا مسلم قاسمی دہلی ، بطور مدعوخصوصی شریک ہوئے اجلاس کی کارروائی صدرمحترم جمعیۃعلماء ہند کی دعاپر اختتام پزیر ہوئی ۔