ہم جنس پرستی کی آئینی منظوری مشرقی تہذیب کی تاریخی شکست
شاہد کمال
ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے ۷۷۳ یعنی(گے گلچر) کے خلاف بنائی گئی تعزیرات کو مسترد کرتے ہوئے ہم جنس پرستی کے آئینی حقوق کو بحال کردیا ہے۔اس غیر فطری عمل کے فروغ کے لئے ہمارے مہذب معاشرے کے کچھ روشن خیال افراد ۸۵۱ برسوں سے درج تعزیرات ہند کے خلاف غیر فطری حقوق کی جو جنگ لڑ رہے تھے ،اس کا حتمی نتیجہ ۶ستمبر۸۱۰۲ کوان کے حق میں آہی گیا۔آخر کار مغرب کی اس دریدہ فکر اور اخلاق باختہ تمدن کے آگے ہماری ہزاروں سالہ مشرقی تہذیب نے اپنی شکست کا اعلان کردیا۔ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ اپنی تہذیب و ثقافت پر فخر کرنے والے دانشوران اس معاملے کو لے کر کتنے فکر مند ہیں اس کا اندازہ کچھ دنوں میں ضرور ہوجائے گا۔لیکن ایک بات ضرور واضح ہوگئی کہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کے علمبردار اداروں میں جشن کا ماحول ضرور ہے۔یہی وجہ ہے کہ راشٹریہ سوئم سیوک تنظیم کے ایک اہم عہدے دار ’ارن کمار‘ نے اس فیصلے کا بڑے پُرتپاک انداز میں خیر مقدم کیا ۔لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ’ایل جی بی ٹی‘ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک عام شہری کے دیگر حقوق کے ساتھ ہم جنس پرستی کی اجازت تو حاصل ہے، لیکن شادی کی نہیں۔لیکن یہ بات میری سمجھ سے پرے ہے کہ جب ہم جنسی پرستی غیر فطری عمل نہیں تو ایک ہم جنس پرست کا دوسرے ہم جنس پرست سے شادی کرنا کیسے غیر فطری عمل ہوسکتا ہے۔؟؟
یہاں پر ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ مرد اساس معاشرے پر تہمت طرازی اور عورتوں کے مساویانہ حقوق کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے والوں کو اب خاموش ہوجانا چاہئے،اور ان اداروں کو مقفل کردیاجائے ،چونکہ ہماری نئے تہذیب کے پروردہ معاشرے کو ایسے کسی ادارے کی ضرورت نہیں ہے۔خاص کر اس موجودہ صورت حال میں ،اس لئے کہ اب ہم جنسی پرستی کو آئینی حقوق حاصل ہوجانے کے بعد مردوعورت کواپنے فطری حقوق حاصل ہوچکے ہیں۔اب مرد عورت میں امتیاز برتنا یہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی توہین ہے۔اس فیصلے کے بعد حکومت کو چاہئے کہ ہم جنسی پرستوں کے مکمل حقوق کی پاسداری کے لئے ایک پختہ لائحہ عمل ترتیب دے تاکہ ان کی جان و مال کا تحفظ ممکن ہوسکے۔اس لئے کہ جنسی تشدد کی روک تھام کے لئے مذہب کے پس پشت تشدد آمیز رویہ کا جارحانہ اظہار کرنے والی تنظیمیں انھیں اپنا ہدف بنانے میں تامل نہیں کریں گی۔ اس لئے کہ ہمارے ملک میں یہ مسئلہ بہت حساس موڑ اختیار کرچکا ہے ۔خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں ہم جنسی پرستی کو بھی ”لو جہاد“ کے زمرے میں نہ شامل کردیا جائے۔اس لئے کہ ہم جنس پرستی جیسی روشن خیال ذہنیت رکھنے والوں کے نزدیک مذہبی حیثیت محض ایک لایعنی تصور ہے۔
انسان کی یہ غیر فطری بے راہ روی اسے کس مقام تک لیجائے گی ،اس کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ،لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس طرح کی جنسی بے راہ روی کا انجام سوائے المناک انجام کے اور کچھ نہیں ،یہ بات گزشتہ تاریخی باقیات میں آج بھی ایک عبرت کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس لئے کہ ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں ،اس انسانی معاشرے کی ڈور ہماری ماضی کی تاریخ سے ہی منسلک ہے ۔ جس سے چشم پوشی کرنا عقل کی پیشانیوں کو الٹ دینے کے مترادف ہے۔اس زمین پر ناجانے کتنی تہذیب و ثقافت نے جنم لیا اور اپنی ترقی کے جاہ جلال کے باوجود اپنے اخلاقی انحطاط اور معاشرتی بداعمالیوں کی عفونت زدگی اور جنسی بے راہ روی کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔جن کا عبرتناک تذکرہ کتابوں میں موجود ہے ،جس کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ہے۔چونکہ یہ ہمارا جمہوری نظام ہے۔
لیکن حکومت کو اس نکتہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اس لئے کہ اس لئے کہ آج بھی ہمارے اس مہذب معاشرے میں دو مخالف جنس سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے پیار کے اظہارکے جرم میں ناقابل تلافی ذہنی اور نفسیاتی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کے ویڈیوز ابھی گردش کر رہے ہیں کہ آپسی رضامندی سے پیار کرنے والے لوگوں کو بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور یہاں تک بہت سے لڑکیا ں آنرکلنگ جیسے فرسودہ روایات کی بلی چڑھی دی گئی ہیں۔لہذا عدالت عظمیٰ کوموجودہ حکومت کو اس بات سے متنبہ کرنا چاہئے کہ جس طرح ہم جنس پرستی جیسے غیرفطری عمل کو ہندوستان میں آئینی حقوق حاصل ہیں ،اسی طرح سے دو مخالف جنس سے تعلق رکھنے والے افراد اگر آپسی رضامندی سے اپنے پیار کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے ۔اس لئے کہ مذہبی آئین کے مطابق کسی مذہب میں ہم جنس پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے،لیکن آج سے ہمارے جمہوری نظام میں ہم جنسی پرستوں کو تمام شہریوں کی طرح انھیں یہ حقوق حاصل ہے ، لہذا دو مخالف جنس سے محبت کرنے والوں کو بھی ہمارے جمہوری نظام کے مطابق وہی حق حاصل ہونا چاہئے جو ’ایل جی بی ٹی ‘ معاشرے سے تعلق رکھنے والے افراد کو حاصل ہے۔ لہذا محبت کرنے والوں کو کسی مذہب و مسلک سے جوڑ کر اسے سیاسی رنگ دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جس ملک میں ہم جنس پرستی جیسی اخلاق سوز عمل کو آئینی حقوق حاصل ہوچکا ہے ، اس ملک میں مذاہب، ذات ،پات اور رنگ ونسل کی بنیاد پر ہونے والی شادیوں کو لے کر ”گھر واپسی‘ اور ’ لو جہاد جیسی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔
اب یہ بات منطقی انجام تک پہنچ چکی ہے کہ انسان کی جنسی بے راہ روی اپنی آسودگی کے حصول کے لئے کسی طرح کے مذہبی یا معاشرتی قید و بند کی محتاج نہیں ہوتی۔خاص کر مغرب زدہ جمہوری معاشرے میں ہر طرح کی غیر اخلاقی اور انسانیت سوز عمل کو جائز سمجھا جاتا ہے۔