عادل فراز

ہم مذہب کو سیاست اور سیاست کو مذہب سے جدا نہیں سمجھتے ۔اگر سیاست کو مذہب سے جدا تصور کرلیا جائے تو اسکے نتائج کے بارے میں سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔دنیا میں ہر ملک خواہ وہ کتناہی بڑا سیکولرازم اور جمہوریت کا دعویدارکیوں نا ہو مگر اس کا بھی اپنا ایک مذہب ہوتا ہے ۔ضروری نہیں ہے کہ یہ مذہب الہی ہو ۔سیاست کو مذہب سے اس لئے جدا کردیا گیا تاکہ مذہبی افراد سیاست میں دخیل نہ ہوں ۔دوسرے یہ کہ سیاست کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں سونپ دی گئی جن کا مذہب سے کوئی سروکار نہیں تھا مگراسکے باجود انہیں مذہب کی بنیاد پر سیاست کی کھلی چھوٹ دی گئی ۔آج بھی مذہب کے نام پر وہی لوگ سیاست کررہے ہیں جو مذہب کو سیاست سے باالکل الگ سمجھتےہیں ۔ان سب باتوں سے قطع نظر سیاسی بازیگروں کے پاس ایک لائحۂ عمل موجود ہےجس پر وہ سختی سے عمل پیراہیں ۔ممکن ہےیہ لائحۂ عمل انکے ذاتی مفادات تک ہی محدود ہومگر جو لوگ سیاست کو مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں ان کے پاس قوم یا اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لئے بھی کوئی مضبوط لائحۂ عمل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ان سے کسی فلاحی ایجنڈہ پر بات کی جاتی ہے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔کچھ لوگ موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر غورکرنے کے بجائے مولانا آزادؔ ،حسرت موہانی ،مولانامحمد علی جوہر اور دیگر اہم سیاسی و مذہبی شخصیات کے سیاسی نظریات کا رونا روتے رہتے ہیں ۔یقیناََ انکے سیاسی نظریات کا تجزیہ ضروری ہے مگر عصری ضرورتوں اور موجودہ صورتحال کو سمجھے بغیر انکے نظریات کے پٹارہ کے پاس ڈگڈگی بجانے کا کیا فائدہ ہے ۔اگر ہم موجودہ سیاسی و سماجی سیاق و سباق کوسمجھنا نہیں چاہتے ہیں توہمیں گزشتگان کے کارناموں کا راگ الاپنا بند کردینا چاہیے۔

آج سیاسی منظر نامہ پر وہ نام نہاد علماء ہیں جن کا مذہب سے بھی اتنا ہی تعلق ہے کہ جتنا سیاست سے ہے ۔وہ سیاسی اکھاڑ ہ میں کشتی لڑنے کے ماہر بھلے ہی نہ ہوں مگر مذہب میں سیاسی شعبدہ گری کا ہنر جانتے ہیں۔ایسے ہی لوگ عوام الناس کو ورغلاکر دوسروں کو سیاسی فائدہ پہونچاتے ہیں جبکہ وہ خود اس حقیقت سے غافل ہوتے ہیں کہ ان کے ایسے اقدامات سےملت کو بھاری نقصان پہونچ رہاہے ۔ایسے افرادکو ایک مکمل سازش کے تحت میڈیا میں فعال کردیا گیاہے ۔یعنی ان کے مذہبی نما چہرے کا بھی سیاسی استعمال دھڑلے سے کیا جارہے ۔یہ لوگ ایک مخصوص ایجنڈے کے مدنظر پیغام کی ترسیل کرتےہیں۔ممکن ہے یہ ایجنڈہ ان کا ترتیب دیا ہوا نہ ہو ۔کیونکہ میڈیاہائوس اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان پیش منصوبہ سازی کے ذریعہ انہیں اپنے طے شدہ ایجنڈہ پر لے آتے ہیں۔ممکن ہے ان مولویوں میں بعض قوم کے مخلص بھی ہو ں مگر اپنی ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پر وہ لوگ اسی ایجنڈے کے مطابق گفتگو کرتےہیں جو میڈیا ہائوس اور سیاسی جماعتیں آپسی تال میل سے طے کرچکی ہوتی ہیں۔اس ایجنڈے میں کارپوریٹ کمپنیوں اور سرمایہ دار طبقہ کے مفادات کا بھی خاص خیال رکھا جاتاہے ،یا انکے مفادات کے تحفظ کے لئےہی ایجنڈے مرتب کئے جاتےہیں۔

بعض وہ مذہبی ادارے جو وقتاََ فوقتاََ سیاسی مسائل پر قومی پس منظر میں بیانات جاری کرتے ہیں ان کے پیش نظر بھی کوئی اہم منصوبہ نہیں ہوتا۔یہ ردعمل اسلئے ظاہر کیاجاتاہے تاکہ حزب اقتدار یا حزب اختلاف کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔بعض تنظیمیں اورادارے جو اس خوشآمد پسندی کے عمل سے عاری ہوتے ہیں وہ فقط اپنی تنظیموں کوزندہ رکھنے کی غرض سے میڈیا کاسہارا لیتے ہیں ۔اس طرح میڈیا اور عوام میں بغیر کسی منصوبے اور بجٹ کے اداروں کو زندگی مل جاتی ہے یا پھر انکے ذمہ داران ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کرتےہیں مگر اس کوشش میں سیاسی گلیاروں کی آوارہ گردی کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ قومی چندہ سے ہی انکی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں۔ہندوستان میں کئ اہم اور بڑے مذہبی ادارے اور تنظیمیں ہیں ،یہ تنظیمیں اورانکے ذمہ داران قوم کے درمیان بااثر ہیں ۔انکے کام کاج پر بھی انگشت نمائی نہیں کی جاسکتی ۔مگرآج تک یہ ادارے اور تنظیمیں بھی قوم کو ایک بااثر لیڈر نہیں دے سکی ہیں۔کیوں؟کیونکہ ان تنظیموں کے پاس ’’لیڈرشپ‘‘ کے لئے کوئی لائحۂ عمل نہیں ہے ۔انہوں نے بھی قوم کو دوسروں کی دُم سے باندھ دیاہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکیں۔دوسروں کی دُم سے بندھی ہوئی قوم آج تک اپنی قیادت کے لئے فکر مند نہیں ہے اور نہ انہیں کسی قائدکی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔وہ ادارے جو قوم میں اپنی ایک الگ اہمیت رکھتے ہیں وہ بھی انتخابات کے دوران اس قدر بے بس ہوتے ہیں کہ انکے ہزار اعلان کے بعد انکے پوجنے والے انکے خلاف حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔اس طرح سیاسی جماعتوں کو ان اداروں اور تنظیموں کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے ۔اسکے بعد ان کے تمام مطالبات کو مجذوب کی بڑ سمجھ کر نظرانداز کردیاجاتاہے۔

موجودہ عہد میں شہرت کی ہوس نے بھی بعض کو سیاسی گلیاروں میں بھٹکنے پر مجبور کردیا ہے ۔یہ لوگ متنازع بیانات دیتے ہیں ،یا متنازع افراد کے ساتھ نظر آجاتے ہیںتاکہ انکے بارے میں کوئی نیا تنازع جنم لےسکے ۔بعض کی مراد اس لئے برآتی ہے کیونکہ انکی سماجی شخصیت اہم ہوتی ہے اور بعض اس لئے نامراد رہ جاتے ہیں کہ انکی غیر سماجی شخصیت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ نامراد افراد ذہنی و نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتےہیں۔بعض کو فوٹوکھنچوانے کی ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ وہ کسی سیاسی اور اہم شخصیت کے جنازہ کے ساتھ بھی سیلفی لینےسے نہیں چوکتے ۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ ہر مطالبہ مولوی حضرات سے ہی کیوں کرتے ہیں؟سوال یہ ہے کہ اگر قوم کی فلاح و ترقی کا سوال علماء سے نہیں پوچھیں گے تو کس سے پوچھیں گے۔اگر علماء اس سوال کے جواب سے پرہیز کرتے ہیں یا اپنی ہتک حرمت سمجھتے ہیں تو پھر انہیں سیاسی اکھاڑے میں کودنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔یہ سوال ان مولوی صاحبان سے بھی ہے جو منبر و محراب سے تو سیاسی گفتگو کرتے ہیں مگر جب ان سے کسی قومی منصوبے پر بات کی جاتی ہے تو دامن بچاتے نظر آتے ہیں۔اگر سیاست میں دلچسپی ہے تو سیاسی سوالوں کا جواب دینا ہوگا اور جواب دینے سے پہلے سوال کی سیاسی نوعیت کو بھانپنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی ۔

افسوس کی بات ہے کہ ہم نےمسجدوں کو فقط نمازکے لئے مخصوص کردیا ہے اورمدرسوں میں غیر ضروری روایتی تعلیم دی جارہی ہے ۔جن مذہبی اور تعلیمی مقامات کا استعمال منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہئے تھا انہیں روایتی اعمال کی آماجگاہ بنادیاگیاہے ۔کیا رسول اسلامؐ نے مسجدیں فقط نماز پڑھنے کے لئے تعمیرکرانے کا حکم دیاہے ،آیا پیغمبراسلامؐ نے مسجد کا دوسرا استعما ل نہیں کیا ،اسکے لئے تاریخ کے مطالعہ کی ضرورت ہے ۔مدرسوں میں جس طرح کی تعلیم رواج میں ہے اس سے طلباء کاہی مستقبل خطرے میں ہے وہ بھلاقوم کے مستقبل کا فیصلہ کیا کریںگے۔جب تک ہم عصری ضرورتوں اوراسکے تقاضوں کو نہیں سمجھیں گے اسی طرح اپنے اور پوری قوم کے مستقبل سے کھلواڑ کرتے رہیں گے ۔بعض افرادیہ کہتے ہیں کہ مولویوں اور مدرسوں کو ہدف تنقید بنانا نئے زمانہ کا فیشن ہے تو سوال یہ ہے کہ اس فیشن کو فروغ کس نے دیاہے؟جناب والا اسکے پیچھے بھی ہماری ناعاقبت اندیشی اور غیر سنجیدہ فکر یں ہیں۔علماء نے ہمیشہ قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کی ہے مگر ان علماء کے کردار اور سیاسی سوجھ بوجھ کوآج تک نہیں سمجھا گیا ۔آج بھی قوم کی تقدیر علماء ہی پلٹ سکتے ہیں مگر انہیں سنجیدگی سے غورکرکے لائحۂ عمل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

آج ہندوستان سیاسی بحران کا شکارہے ۔سیاست کی باگ ڈور ایسی یرقانی تنظیموں کے ہاتھ میں ہے جو ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جارہی ہیں۔مآب لنچنگ،مذہبی منافرت،آزادیٔ اظہار پر قدغن اوراقلیتوں کوکچلنے کی سیاست عروج پر ہے ۔ایسے پرآشوب عہد میں کہ جب قانون کچھ شرپسندوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے اور انتظامیہ سیاسی جماعتوں کی آلۂ کارہو،بغیر کسی سیاسی و سماجی لائحۂ عمل کے زندگی گزارنا اور اپنی نسلوں کے مستقبل کے تحفظ کی پرواہ نہ کرنا موت سے بھی بدترین انجام کا پیش خیمہ ہے ۔آج بھی ملّت علماء کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے اور اقتدار کے حریص نام نہاد علماء کا سہارا لیکر ملّت کو علماء سے بدظن کرنے میںمصروف ہیں ،اسکے باوجود ہمارے حق پرست اور حق گو علماء مصلحت کی چادر اوڑھ کر سورہے ہیں یا سونے کاناٹک کررہےہیں ،یہ انتہائی خطرناک عمل ہے ۔آج قوم کو ایسے رہنمائوں کی ضرورت ہے جو انکی قیادت کابیڑا اٹھاسکیں۔انکے بہترمستقبل کے لئے لائحۂ عمل ترتیب دے سکیں مگر اب تک انکی آواز پر کوئی لبیک کہنے والا نظر نہیں آتا۔

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری