لوگوں نے اقتدار تک پہونچنے کے لئے آل محمدؑ کو سہارا بنایاہے: مولانا سید حسنین باقری
دفتر مجلس علماء ہند میں ’’امام علی رضاؑ کے علمی و سیاسی آثار‘‘ کے موضوع پر سمپوزیم کا انعقاد
لکھنؤ:’’امام علی رضاؑ کے علمی و سیاسی آثار‘‘ کے موضوع پر دفتر مجلس علماء ہند واقع امام باڑہ غفرانمآب میں سمپوزیم کا انعقاد عمل میں آیا ۔پروگرام کا آغاز قاری محمد الیاس نے تلاوت کلام پاک سے کیا ۔اسکے بعد مولانا سید اصطفیٰ رضا نے سمپوزیم کے موضوع کا مختصر تعارف پیش کیا ۔انہوں نے کہاکہ اپنے ذوق کے مطابق سیرت کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اہلبیتؑ کو انکی شخصیت اور صفات و کمالات کے آئینہ میں دیکھنے
کی کوشش کریں۔اگر ہم ائمہؑ کی سیرت کا مطالعہ کررہے ہیں تو ہمیں اس عہد کی سیاست کو بھی سمجھنا ہوگا ‘‘۔
تعارفی تقریر کے بعد مولانا سید حسنین باقری نے ’’امام رضاؑ کا سفر طوس اور حدیث سلسلۃ الذھب ‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ لوگوں نے اقتدار کی کرسی تک پہونچنے کے لئے آل محمدؑ کو سہارا بنایاہے ۔اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اہلبیتؑ کو سہارا بنانایہ بتاتا ہے کہ معاشرہ میں انکےکردار کی عظمت مسلّم تھی۔مولانانے کہاکہ جو بھی اہلبیت ؑ کانام لے رہاہے ضروری نہیں ہے کہ وہ اہلبیتؑ سے دلی عقیدت رکھتاہو بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں اہلبیتؑ کے نام پر مفاد حاصل کرنے والوں کی تعداد زیادہ رہی ہے ۔اس لئے ایسے افراد کی نیتوں کو پرکھنا ضروری ہے آیا وہ محبت میں ایسا کررہے ہیں یا اپنے مفاد کے حصول کے لئے ائمہؑ سے محبت کا سوانگ رچ رہے ہیں ۔مولانانے اپنی تقریر میں عہد مامون رشید کی سیاست کا بخوبی احاطہ کیا اور ان حالات کا مکمل تجزیہ پیش کیا جنکے پیش نظر امام علی رضاؑ کو طوس کا سفر اختیارکرنا پڑا۔مولانانے حدیث ’’سلسلۃ الذھب ‘‘ کی عظمت اور اہمیت پر بھی تفصیلی گفتگو کی ۔
اسکے بعدمولانا سید سعیدالحسن نقوی نے ’’امام کی ولیعہدی کا سیاسی پس منظر‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مشہور ہے کہ حکومت کرنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا بھی ایک دھرم ہوتاہے جسے ’’ستّا دھر م‘‘ کہتے ہیں۔یہ لوگ تمام ادیان اور مذہبوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔مولانانے امام علی رضاؑ کے عہد کے سیاسی حالات کا بھرپور تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان حالات کا احاطہ کیا جن کی بنیاد پر مامون رشید امام علی رضاؑ کو اپنا ولی عہد بنانے پر مجبور ہوا۔مولانانے امین اور مامون کی سیاسی کشمکش اور امین کے قتل کے بعد پیدا ہوئے سیاسی بحران پر بھی تاریخی حوالوں کی روشنی میں مدلل گفتگو کی ۔
مجلس علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے ’’امام علی رضاؑ کے علمی آثار‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے امام ؑ کی کتابوں کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا۔مولانانے ابتدائے تقریر میں کہاکہ اللہ کی طرف سے ہر زمانے میں ہدایت کا انتظام ہوتاآیاہے ۔مگر ہم کیسے پہچانیں کہ کون اس کی طرف سے ہدایت کے درجہ پر فائزہے کیونکہ ہر دور میں ہدایت کے دو دعویدار ہوتے ہیں ۔ایک سچا دعویدار ہوتاہے اور ایک جھوٹا ہوتاہے ۔اللہ کی طرف سے مبعوث ہادی کی معرفت کے لئے ہم براہ راست اللہ سے بھی نہیں پوچھ سکتے اسکے لئے ہمیں وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔مولانانے کہاکہ اللہ نے کبھی اپنے ہادیوں کے نام نہیں بتائے کیونکہ ناموں میں بھی اشتباہ ہوجاتاہے ۔اس نےاپنے ہادی کے صفات بتائے ہیں جو ان پر پورا اترے وہی اسکی طرف سے منصوص ہادی ہوتاہے ۔مولانانےدوستی اور دشمنی کی نفسیات کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیاکہ دشمنوں نے بھی ائمہ معصومینؑ کے کردار پر کبھی انگشت نمائی نہیں کی ،یہ واضح کرتاہے کہ وہ بے عیب اور اللہ کی طرف سےہدایت کے درجہ پر فائز تھے ۔
پروگرام میں مولانا منظر علی عارفی،مولانا صابر علی عمرانی ،ڈاکٹر حیدر مہدی ،ڈاکٹر ظفر النفقی ،مولانا شاہنواز حسین ،مولانامرزانصرت علی ،مولانا نازش احمد ،شاہد کمال اور دیگر علماء و افاضل موجود تھے