بھوپال انکاؤنٹر کمیشن رپورٹ تحقیقات کے نام پر بھونڈا مذاق: ایڈوکیٹ شاہد ندیم
جسٹس پانڈے نے سپریم کورٹ کی گائڈلائنس کو یکسر نظر انداز کردیا
ممبئی: مہاراشٹر کی پڑوسی ریاست مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے مضافات میں گذشتہ سال مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے آٹھ مسلم نوجوانوں کے معاملے کی تحقیقات کرنے والے یک رکنی عدالتی کمیشن نے پولس کے اقدامات کو جائز ٹہراتے ہوئے اپنی ۱۷؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا کہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعات 41/42 کے تحت پولس نے کارروائی کی جس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر رپورٹ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہیکہ کمیشن نے سپریم کورٹ کی گائڈلائنس کو درکنار کرتے ہوئے اپنی رپورٹ مرتب کی ہے جس پر شدید اعتراضات جائز ہیں اور یہ تفتیش کے نام پر مہلوکین کے اہل خانہ کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔
ریٹائرڈ جسٹس (ہائی کورٹ ) ایس کے پانڈے نے اپنی رپورٹ گذشتہ سال حکومت کو پیش کردی تھی جسے گذشتہ پیر کو مدھیہ پردیش اسمبلی میں پیش کیا گیا جس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ کمیشن نے پولس کی ذیادتیوں کو جائز قرار دیا ہے جس کے بعد سے ہی مہلوکین کے اہل خانہ شدید ذہنی الجھن کا شکا ر ہیں ۔
بھوپال انکاؤنٹر کے بعد حادثہ کی جگہ کا معائنہ کرنے والے جمعیۃ علماء مہاراشٹر لیگل کے لیگل ایڈوائزر ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ جسٹس پانڈے کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوا کہ کمیشن نے عدالت عظمی کی جانب سے متعین کردہ گائڈلائنس کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا اور ایسی رپورٹ مرتب کی جس سے انتظامیہ اور پولس اہلکاروں کی کارروائی کو جائز قراردیاجاسکے اور انہیں کسی بھی طرح کی تادیبی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی وہ دستاویزات دفاعی وکلاء او ر مہلوکین کے اہل خانہ کو مہیاکرائے جس کاکمیشن کی رپورٹ میں اندارج کیا گیا ہے۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے پیوپلس یونین فار سول لیبرٹیز (PUCL) معاملے کے تاریخی فیصلہ میں جعلی انکاؤنٹر معاملے میں ۱۶؍ اہم نقات مرتب کیئے تھے اور انکاؤنٹر معاملات کی تحقیقات کرتے وقت انہیں فالو(عمل) کرنے کے احکامات جاری کیئے تھے لیکن جسٹس پانڈے کمیشن نے عدالت عظمی کی ہدایتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا جس کا کھلا ثبوت یہ ہیکہ تحقیقات کرتے وقت کمیشن نے کسی بھی آزاد گواہ کی گواہی درج نہیں کی اور نہ ہی مہلوکین کے اہل خانہ میں سے کسی کا بیان درج کیا ۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے مزید بتایا کہ عدالت عظمی کی گائڈلائنس کے مطابق انکاؤنٹر کرنے قبل پیروں اور سروں نے نیچے گولیاں چلائی جانی چاہئے اور حتی الامکان کوشش کرنا چاہئے کہ اس فرد کو زندہ گرفتار کیا جائے جس سے خطرہ لاحق ہے لیکن اس معاملے میں ملزمین کو زندہ گرفتار کرنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کی گئی بلکہ انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا جبکہ ان کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں تھا اور وہ نہتے تھے۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ کمیشن کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کرے لیکن اس پورٹ میں کوئی بھی فیکٹ فائنڈ نہیں ہوسکا جس میں شامل ہیکہ ملزمین جیل سے کیسے فرار ہوئے ؟اور پولس کانسٹبل کو کیسے اور اس کے ساتھ کتنے لوگوں نے مار پیٹ کی تھی؟ سی سی ٹی وی فوٹیج کے تعلق سے بھی کمیشن کی رپورٹ خاموش ہے ، بلاسٹک رپورٹ میں بھی اس تعلق سے کوئی تفصیلات نہیں ہے ملزمین کو سب سے پہلے کس جگہ گولی ماری گئی تھی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔
آخیر میں ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ جمعیۃ علماء جسٹس پانڈے کمیشن کی رپورٹ کو عدالت عظمی میں چیلنج کرنے کی تیاری میں ہے اور انہیں امید ہیکہ عدالت عظمی کمیشن کی جانب سے نظر انداز کی گئی ان کی ہدایت کا وہ سخت نوٹس لے گی اور خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔