ہند و ایران تجارتی تعلقات اور امریکہ کی سیاسی مداخلت
فراز نقوی
ہندوستان اور ایران کے درمیان دیرینہ تجارتی تعلقات رہے ہیں۔عالمی سیاست کے زیر اثریہ تعلقات متاثر ضرورہوئے مگر کبھی دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی نہیں آئی ۔کیونکہ دونوں ملک اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے بہتر تعلقات انکے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحال کی ضمانت ہیں۔ہندوستان میں اس وقت میں بھی ایرانی تاجر تجارت کے لئے آتے رہے جب وسائل کا فقدان تھا ۔ایرانی اپنی تہذیب و ثقافت کے امین بن کر اس سرزمین پر وارد ہوئے اور ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔ایرانی تاجروں کے علاوہ دیگر شعبہ ہائےزندگی اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد نے بھی ہندوستان کو اپنا مرکز قرار دیا ۔آج بھی انکے کارنامے تاریخ میں محفوظ ہیں اور تاریخی آثار ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔مگران دونوں دیرینہ دوستوں کے رشتوں کو متاثر کرنے اور تجارتی تعلقات ختم کرانے کی سازشیں بھی ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔یہ سازشیں کبھی پوری طرح کامیاب تو نہیں ہوسکیں کیونکہ طرفین مخالفین کی سیاست اور اپنی دوستی کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔یہ تعلقات عالمی دبائواور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے بعد کسی حد تک متاثر ضرور ہوئے مگر کبھی ختم ہونے کی نوبت نہیں آسکی ۔آج بھی عالمی استعمار کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح ایران اور ہندوستان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کردی جائے تاکہ وہ اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔
حال ہی میں ایران پر تازہ امریکی پابندیوں کے بعد عالمی سیاست میں برقی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔جبکہ یوروپی یونین اور روس وچین جیسے دیگر اہم ملکوں نے امریکی پابندیوں کو تسلیم نہیں کیاہے مگر امریکہ اس تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح ایران کو اقتصادی محاذ پر تنہا کردیا جائے ۔چین ،ہندوستان اور دیگر ممالک امریکہ کی سیاسی چالوں کو سمجھ رہے ہیں لہذا ابھی تک ان کا رویہ ایران کے تئیں تسلی بخش ہے کیونکہ اگر یہ ممالک ایران سے تجارتی تعلقات ختم کرلیتےہیں تو انکے ملک کااقتصادی ڈھانچہ بیحد کمزور ہوجائے گا جس کا سیدھا اثر ملک کے عوام پر ہوگا۔اس وقت ہندوستانی روپے کی قیمت عالمی بازارمیں ریکارڈ گراوٹ پر ہے ،اب اگر ہندوستان امریکی فیصلے کو تسلیم کرلیتاہے تو اس فیصلےکا اثر ہندوستانی معیشت کی کمر توڑ کر رکھدے گا ۔یوں بھی ہندوستان نے ایران کے ساتھ مزید بہتر تعلقات کے لئے بیحد سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ،چاہ بہار معاہدہ پایہ تکمیل کو پہونچ چکا ہے ۔ دیگر اہم پراجیکٹس پر کام جاری ہے ۔اگر ہندوستان امریکی دبائو میں آکر ایران سے تجارتی تعلقات منقطع کرتاہے تو اسکی اربو ں روپے کی سرمایہ کاری پر پانی پھر جائے گا ۔
امریکہ نے ایران سے خام تیل حاصل کرنے والے تمام ممالک کو دھمکی آمیز لہجہ میں کہاہے کہ وہ ۴ نومبر۲۰۱۸ تک ایران سے پوری طرح تیل درآمد کرنا بند کردیںورنہ ایران کے ساتھ انہیں بھی پابندیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ظاہر ہے یہ دھمکی ان ملکوں کو ضرور خوفزدہ کرسکتی ہے جنکی طاقت امریکہ کے مقابلے میں بہت کم ہے اور ان کے سربراہان امریکی امداد پر گزربسر کررہےہیں،یا ان ملکوں کی داخلی سیاست میں امریکہ کی مداخلت ہوتی ہے ۔مگر ہندوستان اور چین جیسے ملک جو امریکہ پر پوری طرح منحصر نہیں ہیں،اسکی گیدڑبھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔چین تو یوں بھی عالمی بازار میں امریکہ کا زبردست حریف ہےاور امریکہ بھی چین کی صنعت اور عالمی بازار پر اسکی گرفت سے خوفزدہ ہے ۔چین بھی بخوبی جانتاہے کہ امریکہ کس حد تک اسکی راہ کا روڑا بن سکتاہے لہذا وہ امریکی دھمکیوں سے بےخوف اپنی تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔رہی ہندوستان کی بات تو وزیر خارجہ سشما سوراج نے واضح طورپر پہلے ہی یہ کہدیا تھا کہ ہندوستان اقوام متحدہ کے ذریعہ لگائی گئی پابندیوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے مگر وہ کسی ایک خاص ملک کے فیصلے کو ماننے کا پابند نہیں ہے ۔سشما سوراج کے اس بیان سے ہندوستانی حکومت کے مؤقف کی وضاحت ضرور ہوتی ہے مگر ابھی تک ہندوستان پس و پیش میں ہے کہ وہ امریکہ دھمکیوں کا جواب کس لہجے میں دے ۔
امریکی دھمکی کے بعد وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’امریکہ کے بیان میں ایران سے ۴نومبر تک تیل درآمد بند کرنے کی بات کہی گئی ہے ، تعلقات ختم نہیں کرنے کی نہیں ۔ یہ بیان کسی خاص ملک کے تناظر میں نہیں ہے۔ ہم سب فریقین کے ساتھ مل کر ملک کی توانائی تحفظ کو برقرار رکھنے کے لئے تمام اقدامات کریں گے۔رویش کمار نے کہاکہ ایران اور ہندوستان کے تعلقات تاریخی ہیں اور ہم امریکہ کےمؤقف سے الگ اپنا مؤقف رکھتے ہیںجسکی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے ‘‘۔وزارت خارجہ کا یہ بیان ظاہر کرتاہے کہ ہندوستان امریکی دبائو میں ایران سے تیل در آمد بند کرسکتاہے مگر وہ تعلقات ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ہم ہندوستان کے اس اقدام سے بھی متفق نہیں ہیں کہ وہ ایران سے تیل لینا بند کردے کیونکہ وزیر خارجہ کا یہ مؤقف ہے کہ ہندوستان فقط اقوام متحدہ کے ذریعہ عائد کی گئی پابندیوں کو تسلیم کرے گااسکے علاوہ کسی بھی ملک کے فیصلے کو ماننے کے لئے ہندوستان تیار نہیں ہے ،لہذا ایران سے تیل لینے پر پابندی کی دھمکی امریکہ کا ذاتی مفاد پر مبنی بیان ہے جسکی مخالفت عالمی سطح پر ہونی چاہئے ،ساتھ ہی ہندوستان کو امریکی دھمکی کا جواب ایرا ن سے خام تیل کی در آمد کو جاری رکھ کر دینا چاہئے ۔اس سے ہندوستان کی عالمی بازار میں طاقت اور اسکے فیصلے کی عزت میں اضافہ ہوگا ۔فی الحال ہندوستان ایران سے ۳۲۰۰۰۰ بیرل خام تیل در آمد کررہاہے ۔ایران پر پابندیوں کے وقت یہ مقدار کم ہوکر ۱۹۰۰۰۰ بیرل ہوگئی تھی۔یعنی پابندیوں کے دور میں بھی ہندوستان نے ایران سے تیل کی در آمد کو پوری طرح ختم نہیں کیا تھا ۔لہذا امریکی دھمکی کے تناظر میں ہندوستان کو اس درآمد میں کمی کرنے کے بجائے اس مقدار کو برقرار رکھنا چاہئے تاکہ اسکی خودمختاری کا بہتر تصور عام ہوسکے ۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی اسرائیل نواز ہے جس کا اثر ہندوستان اور ایران کے تعلقات پر بھی مرتب ہوگا ۔اگر اسرائیل امریکہ کی حمایت میں ہندوستان پر ایران سے تیل کی درآمد روکنے کا دبائو بناتاہے تو ممکن ہے کہ ہندوستان اس بار ایران سے پوری طرح تیل لینا بند کردے مگراس فیصلے سے عالمی سطح پر اسکی بہت بدنامی ہوگی ۔اس وقت ہندوستان کے فیصلے پر پوری دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں اور ہندوستان بھی اچھی طرح جانتاہے کہ اگر وہ اسرائیل نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے ایران سے اپنے تعلقات ختم کرتاہے تو اس کے واضح اثرات ملک کی معیشت پر مرتب ہونگے جس کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور اقتصادی ڈھانچہ جو پہلے ہی بہت کمزور ہوچکا ہے مزید تباہی کی طرف گامز ن ہوجائے گا ۔لہذا ہندوستان کو چاہئے کہ وہ امریکی دھمکی کے خلاف اپنے مؤقف پر اٹل رہے اور ایران و ہند کے دیرینہ تاریخی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرے ۔