مسئلہ ٔ فلسطین اور نفاق پرور سیاست کا المیہ
عادل فراز
آج ایک بار پھر فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں قلم اٹھایا تو احساس ہوا کہ پھر میں کچھ لوگوں کی دل آزاری کا مرتکب ہوں گا۔کوئی بھی حق پرست یہ سوال کرسکتاہے کہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کے جرم میں صرف استکباری طاقتیں ناراض ہوسکتی ہیں ،تو انہیں ناراض ہونے دو۔مگریہاں تو مسئلہ کی نوعیت ہی مختلف ہے ۔عالم استکبار مستضعفین ِفسلطین کی حمایت کوناقابل معافی جرم سمجھتاہے ،تومجھ جیسے افراد اسکے مجرم ہیں۔اس جرم کے بار بار ارتکاب پر نہ ہم پشیمان ہیں اور نہ انکی نظروں میں چڑھنے پر اپنی جان کا خوف ستارہاہے ۔میں تو ان افراد کی ناراضگی اور دل آزاری کی بات کررہاہوں جو خود کو فلسطین کا بڑا حامی اور مظلوم پرست ثابت کرتے ہیں مگر جب ان فرمانرائوں اور مسلمان ملکوں کی خاموشی اور نفاق پر سوال قائم کئے جاتے ہیں تو یہ مظلوم پرست ٹولا فلسطینیوں کےخلاف نام نہاد اسلامی ممالک اور فرمانرائوں کی حمایت میں اتر آتاہے ۔ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے وقت میں نے اپنے کالم ’’چوہوں کے دیس میں بلّی کا حج‘‘ میں لکھا تھا کہ سعودی عرب کی امریکہ دوستی کا راز کیاہے؟کیوں سعودی عرب امریکہ و اسرائیل کے سامنے کتّےکی طرح دم ہلاتا رہتاہے ۔ٹرمپ کے اس دورہ کے پس منظر میں جن خدشات کا اظہار کیاگیا تھا وہ بعض دوستوں کا بہت ناگوارگزرا۔ایک فاضل سیاسی تجزیہ نگار نےمئ ۲۰۱۷ کو ایک پورٹل سایٹ پر شایع میرے مضمون پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھا’’بھائی ، امریکہ سے ساری دنیا ڈرتی ہے ، روس اور چین بھی امریکہ سے خوف کھاتے ہیں۔ اتنی بڑی بڑی طاقت رکھنے والے ممالک جس سے خوف کھاتے ہیں اس سے سعودی لڑجائے ، اپنے ملک کو بھی افغانستان، عراق، شام ، لیبیا بنادے ؟جارجیا میں حال ہی میں ، امریکہ نے وارننگ دے دی تھی کہ اگر روس نے فوج پیچھے نہیں کی تو امریکہ حملہ کردے گا۔ روس نے چپ چاپ فوج پیچھے کرلی۔چین نے کہا تھا کہ جنوبی چین کے سمندر پر وہ کسی کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا، یہ سننا تھا کہ امریکہ نے اپنا فوجی بحری بیڑہ جنوبی چین کے سمندر میں بھیج دیا اور چین سے کہا کہ مار کے دکھا دو، چین نے خاموشی اختیار کرلی۔ اب اس امریکہ سے سعودی لڑجائے ؟ واہ‘‘
مجھے یقین تھا کہ اسے حالات کا صحیح علم نہیں ہے ۔سعودی عرب سے اندھی عقیدت کی بنیاد پر وہ ایسی باتیں کررہاہے ۔لہذا میں نے احتیاط سے جواب دیتے ہوئے کہا’’بھائی معلوم ہوتاہے آپ قرآن کریم کے مطالعہ سے دل نہیں لگاتے ۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کو ایسی روحانی طاقت عطا کی ہے جو کبھی باطل کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرسکتی۔اس روحانی طاقت کا مسلمان کو احساس نہیں ہے مگر صاحبان ایمان کو بخوبی ہے۔ آپ کے بقول سعودی عرب اس لئے اسلام دشمن ٹرمپ اور امریکہ کی غلامی کررہاہے تاکہ اسکے حالات شام و بحرین و لیبیا جیسے نہ ہوجائیں ۔یعنی آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ظالم سے تباہی کے خوف کی بنیاد پر دبا جاسکتاہے ۔اگر ایسا ہے تو پھر مجھے آپ کے تاریخی مطالعہ اور حیات رسول اکرمؑ سے ناواقفیت پر ترس آتاہے۔احزاب کی جنگ میں بھی دشمنوں کا عظیم اتحاد سامنے آیا تھا مگر رسول اللہؐ اس عظیم اتحاد سے مرعوب نہیں ہوئے ۔جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔وفات رسول اللہ ؐ کے بعد مسلمان روم،ایران ،سندھ اور دیگر علاقوں پر قابض ہوئے جبکہ مسلمانوں کی طاقت انکے مقابلے میں بہت کم تھی ،اسکے باوجود فتحیاب ہوئے۔یعنی مسلمان کبھی بڑی طاقتوں سے خوفزدہ نہیں ہوا۔بقول اقبال ؔ ؎
دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑادیے گھوڑے ہم نے
آج مسلمانوں کا بڑی طاقتوں سے خوفزدہ ہونا اور انکے ہاتھوں اپنا دین و ایمان بیچ دینا انکی ایمانی کمزوری کو ثابت کرتاہے۔آج وہی مسلمانوں کے دوست اور سرپرست ہیں جنکی دوستی اور سرپرستی کے لئے قرآن نے منع کیاہے۔ارشاد ہوتاہے’’اے ایمان والو ! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا ۔ المائدہ ( 51 )قرآن نے واضح طورپر اعلان کردیاہے کہ یہود و نصاریٰ اسلام دشمنی میں متحد ہیں اس لئے ان کی دوستی سے باز رہو۔اسکے باوجود ان کی دوستی کے لئے مرے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں تعلیمات قرآن پر یقین نہیں ہے ۔امریکہ خواہ کتنی بھی بڑی طاقت کیوں نہ ہو مگر مسلمان کو اللہ پر توکل ہونا چاہئے ۔اللہ قرآن میں ارشاد فرماتاہے ’’میرے علاوہ کسی بھی طاقت سے مت ڈرنا‘‘۔افسوس کہ آج مسلمان کو امریکہ اور اسرائیل جیسی طاقتوں پر تو ایمان ہے مگر قول قرآن کریم پر یقین نہیں ہے ۔
نوجوان نسل اپنے ضمیر سے سوال کرے کہ اگر سعودی عرب کو اسلام اور مسلمانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو پھر وہ فلسطینیوں پر ہورہے ظلم و تشدد کے خلاف آوازاحتجاج بلند کیوں نہیں کرتا۔اندھے مقلد پھر فرار کا جواز پیش کریں گے کہ سعودی عرب اپنا تحفظ کرے یا فلسطینیوں کے حق کے لئے آواز اٹھائے ۔تو صاحب ہم ایسی نام نہاد اسلامی حکومت کو قطعی پسندنہیں کرسکتے جو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے کام کررہی ہو ،جسے عالم اسلام کے حالات پر تشویش نہ ہو ۔رسول اسلام کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ،اگر کسی ایک عضو کو تکلیف پہونچتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتاہے ۔کیا آپ سعودی عرب کو ایسا پاتے ہیں؟‘‘۔اسکے بعد ان صاحب کا کوئی جواب نہیں ملا۔لیکن یہ ضرور معلوم ہوگیاکہ ہمارے نوجوان آج بھی نام نہاد اسلامی ملکوں کی اندھی تقلید کررہے ہیں۔انہیں حالات اور موجودہ سیاست کا صحیح علم نہیں ہے۔بعض کو مولوی حضرات نے گمراہ کررکھاہے اور کچھ حقائق کا علم ہوتے ہوئے بھی تجاہل عارفانہ کا شکار ہیں۔یہ دونوں ہی معاشرہ کے لئے ناسور ہیں ۔ظاہر ہے ایسے افراد نہ تو فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں لب کھولنے کی جرآت کرسکتے ہیں اور نہ امریکہ و اسرائیل کے فاسد اور اسلام دشمن منصوبوں کے خلاف محاذ آرا ہونے کی ہمت رکھتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو ’’عالمی یوم قدس‘‘کے موقع پر یہ کہکر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ یہ تحریک تو ایرانیوں کی دَین ہے، یعنی خالص شیعوں کی تحریک ہے اس لئے ہمارا ’’عالمی یوم القدس‘‘ سے کیا سروکارہے۔افسوس ہوتاہے ایسی فکروں پر اور ایسی نوجوان نسل پر ۔اگر ایران دشمنی میں مظلوموں کی حمایت سے دستبردار ہونا باعث ثواب ہے تو ایسے دین اور عقیدہ کا اللہ ہی مالک ہے ۔
یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کے بعد مشرق وسطیٰ کی سیاست کا منظر نامہ تیزی سے بدل رہاہے ۔امریکہ نے یروشلم (بیت المقدس) کو عالمی برادری کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرلیاہے ۔جس وقت امریکہ یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کررہاتھا ،اس کے خلاف نہتے مظلوم فسلطینی اپنی سرزمین پر پرُامن احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے ۔مگر اسرائیلی فوج نے ان مظاہرین پر بمباری کی اور مظلوموں کا قتل عام کیا۔حیرت ہوتی ہے کہ اس قتل عام کے خلاف مسلمان سڑکوں پر نظر نہیں آئے ۔کبھی سوچا ہے کیوں؟۔کیونکہ نوجوان نسل کو یہ بارآور کرادیاگیاہے کہ امریکہ و اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔تمام اسلامی ملک اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے ہیں۔جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ صرف زبانی مذمت کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور بس! دوسرے ہماری نوجوان نسل اسلامی ملکوں کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہتی ہے کہ آخر اس واقعہ پر ان کا کیا ردعمل سامنے آتاہے ۔اس کے بعد یہ نسل اپنا لائحۂ عمل طے کرتی ہے کہ انہیں کیا کرناہے ۔یعنی مظلوموں کی حمایت اورظالم کے خلاف احتجاج کرنے میں بھی ہم اندھی تقلید کرتے ہیں ۔
نوجوان نسل کو غورکرنا چاہئے کہ امریکی سفارت خانہ کا یروشلم منتقل کرنا ایک دورس سیاسی فیصلہ ہے ۔ابھی تک فسلطین اور اسکے حامی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ یروشلم پر پہلا حق مسلمانوں کاہے اور بیت المقدس کی سرزمین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہے ۔عالمی سطح پر بھی یہ مشہور تھا کہ اسرائیل ایک ریاست کا نام نہیں ہے بلکہ وہ فلسطین کی زمین پر جابرانہ تسلط کے بعدخود کو ایک آزاد اور مکمل ریاست کا نام دیتاہے ۔فلسطینیوں کی مزاحمت اور قربانیوں کے پس پردہ جہاں دیگر عوامل کارفرماہیں وہیں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل اپنے غاصبانہ و آمرانہ قبضہ سے اُسے آزاد کرے ۔مگر صہیونی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کے نتیجہ میں فلسطینیوں کی سالہا سال کی محنت اکارت ہوتی نظر آتی ہے ۔امریکہ اور کئی دیگر ممالک نے اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرکے یروشلم کواسرائیل کا پایہ ٔتخت تسلیم کرلیا۔یہ کبھی نہ ہوتا اگر تمام مسلمان ممالک امریکہ کی غلامی سے آزاد ہوتے ۔اس غلامی کا انجام یہ ہواکہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ آج صہیونیوں کا پایۂ تخت بن چکاہے اور مسلمانوں میں اتنی بھی سکت نہیں بچی ہے کہ وہ عالمی سطح پر اس فیصلے کا بائیکاٹ کرسکیں۔وہ مسلمان ممالک جن میں آج بھی امریکہ و اسرائیل نوازی میںایک دوسرے پر سبقت لینے کی ہوڑ مچی ہو ان سے بیت المقدس کے تحفظ اور فلسطینیوں کی حمایت کی امید رکھنا بھی جرم ہے ۔سعودی شہزادہ کا بیان اس دعویٰ کی دلیل ہے جس نے امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کے بعد کہا تھاکہ ’’مسئلہ فلسطین حل ہونے کے بعد اسرائیل سے فوری تعلقات بحال ہوسکتے ہیں ،کیونکہ اسرائیل اور سعودی عرب کا دشمن ایک ہے اور ہمارے مفادات مشترک ہیں‘‘۔اس بیان سے واضح ہوتاہے کہ سعودی عرب کو مسئلہ فسلطین کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔وہ تو اپنے روایتی حریف ’’ایران‘‘ کو شکست دینے کےلئے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملائے ہوئے ہے۔یعنی ایران دشمنی میں قرآن کے واضح اعلان’’یہود و نصاریٰ سے دوستی نہ کرو‘‘ اور فرمان رسولؐ ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘‘ کو نظراندازکرکے سعودی عرب اسلام دشمن طاقتوں کی گود میں جا بیٹھاہے ۔محمد بن سلمان کا یہ بیان کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مفاد مشترک ہیں،مشرق وسطیٰ کی سیاست کا پورا منظرنامہ صاف کردیتاہے۔اگر اس بیان کے بعد ’’اندھے بھکت‘‘ یہ سمجھنے سے معذور ہیں کہ سعودی عرب کی حقیقت کیاہے اوراسکے مسلمان نما چہرے کے پیچھے اسلام دشمن چہرہ چھپاہواہے ،تو انہیں سوائے اللہ کے کوئی دوسرا ہدایت نہیں دے سکتا۔یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ سعودی عرب جیسے مسلمان ملکون سے فسلطینیوں کو بھی کوئی امید نہیں ہے ۔فلسطین تو ان مسلمانوں کی طرف نگراں ہے جنکی حمیت اور غیرت ابھی مردہ نہیں ہوئی ہے ۔
امریکہ نے یروشلم میں سفارتخانہ کی منتقلی نہیں کی بلکہ عالم اسلام کی حمیت کو للکارا ہے ۔اس فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر جو ردعمل سامنے آنا چاہئے تھا وہ نہیں آیا۔جو بیانات میڈیا میں آئے ان میں امریکہ و اسرائیل کے اس فیصلے کی مذمت کے بجائے خوف کی جھلک تھی ۔ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کے لئے رسمی بیانات دیے جارہے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ عالمی استکبار عالم اسلام کے رد عمل کو بکری کی چھینک سے بھی زیادہ حقیر سمجھتاہے ۔اگر یہ مخالفانہ ردعمل متحدانہ طورپر ظاہر ہوتا تو نتائج مثبت ہوتے اور استعماری نظام کی چولیں ہل جاتیں ۔مگر جن مسلمان ملکوں کا نظام استعماریت کا پروردہ ہو وہ کبھی اسکے خاتمہ کے لئے متحد نہیں ہوسکتے۔عالم اسلام کو سمجھنا چاہئے کہ آخر صہیونیت کا پہلا ہدف مسلمان اور انکے آثار ہی کیوں ہوتے ہیں؟فقط مسلمان ملکوں کو تباہ کیوں کیا جارہاہے ؟۔قدرتی ذخائر جو اللہ نے مسلمانوں کو عطاکئے تھے رفتہ رفتہ صہیونیوں کے تسلط میں کیوں جارہے ہیں؟۔استعمار عالم اسلام کو اپنے کفش برداروں سے زیادہ اہمیت کیوں نہیں دیتا۔
اس نفاق پرورسیاست کی تہہ تک پہونچنے کے لئے سعودی وزارت خارجہ کے اس بیان کو ملاحظہ کریں جو امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کے بعد سعودی عرب کی طرف سے رد عمل کے طورپر میڈیا میں دیا گیاہے۔سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے نہتے فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی بحالی اور نصب العین کے حصول کے لیے ان کے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔سوال یہ ہے کہ سعودی عرب مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں کہاں نظرآتاہے؟سعودی عرب فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت تو کرتاہے مگر امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کی مخالفت میں بیان جاری نہیں کرتا۔کیوں؟کیاسرکاری سطح پر دنیا کو دکھانے کے لئے ایک مذمتی بیان جاری کردینا کافی ہے ۔سعودی عرب نے جس عزم کا اعادہ کیاہے وہ کبھی فلسطین کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف دکھائی نہیں دیا۔ٹرمپ کو اپنے گھر میں بلاکر اسکی پذیرائی کرنے والے ،اور عالم اسلام کے خلاف سرزمین وحی پر صہیونی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے منصوبہ بندی کرنے والے انہی کے خلاف کیسے قیام کرسکتے ہیں۔لہذا سعودی عرب مظلوموں کی ہمدردی میں نفاق سے کام نہ لے بلکہ کھل کر ظالموں کے خلاف میدان عمل میں اترجائے اور یقیناَ کامیابی اللہ کی طرف سے ہے۔