رمضان کا روحانی اور اقتصادی پہلو
مفتی محمدیحییٰ قاسمی
کوارڈینیٹر جمعیۃ علماء حلال فاؤنڈیشن
رمضان میںسب سے اہم عمل روزہ ہے۔صحیح بخاری میں حضور ﷺ کا ارشا دہے کہ’ جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت (یعنی اخلاص) سے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘روزے کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری ہے اور قرآن کے مطابق اس کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ لیکن اس کے علاوہ روزے کی فرضیت میں اللہ نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی تربیت کے لئے بے شمار حکمتیں رکھی ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ہر فن کا ماہرروزے کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی حکمتیں بیان کرتا ہے۔ایک طرف ایک صوفی اس کو تصوف کی تربیت قرار دیتا ہے، تو دوسری طرف ایک قانون داں اس کو قانون کے پالن کرنے کی تربیت گردانتا ہے۔ ایک سماجی کارکن اس کو اخوت اور ہمدردی کے لئے نمونہ قرار دیتا ہے تو ایک طبیب کی نگاہ میں روزہ صحت کا راز ہے۔ اسی طرح ایک ما ہر اقتصادیات اس کو اقتصادی اعتبار سے قوم وملت کے لئے ایک نسخۂ کیمیا سمجھتا ہے۔ غرض کہ ہر فن کے لوگ اس کے لئے الگ الگ حکمتیں بیان کرتے ہیں۔ان میں کا ہر شخص صحیح ہے کیوں کہ ہر حکم خداوندی میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہے جن تک رسائی ممکن نہیں۔ یہ ساری حکمتیں اپنی اپنی سمجھ کے اعتبار سے ہیں اور اصل حکمت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ذیل میں ہم رمضان اور روزے کی اقتصادی حکمت کو بالتفصیل اور دوسرے فائدوں کو بالاجمال ذکر کرتے ہیں ہیں کہ قادر مطلق نے ان میں اقتصادیات سمیت کتنی حکمتیں پوشیدہ رکھی ہیں۔
ایک صوفی کی نظر میں روزے میںنفس کی تربیت کا بہترین انتظام ہے۔حضرت شیخ الہندمولانا محمود حسنؒ فرماتے ہیں کہ روزے کے ذریعے سے جب نفس کو مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑجائے گی تو پھر اسے شرعاحرام چیزوں سے روکنا آسان ہوجائے گا۔جب روزے کی وجہ سے قوت نفس اور شہوت میں ضعف آئے گا تو متقی بن جاؤگے۔روزہ میں یہ بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے سرکش نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔اور شریعت کے احکام پر پابندی ہونے لگتی ہے۔متقی بننے کا یہی معنی ہے کہ انسانی نفس اس کے تابع ہوجائے اور احکام شریعت پر عمل آسان ہوجائے۔
ایک قانون داں کے خیال میںروزہ قانون کی پابندی سکھاتا ہے۔روزے کے ذریعہ انسان ایک مقررہ وقت کے لئے حلال اکل و شرب سے بھی رک جاتا ہے۔مقصد اس کا یہ ہے کہ یہ قانون کا پابند ہوجائے ۔جب وہ قانون کی پابندی کے ذریعے حلال چیزوں سے رک سکتا ہے تو وہ حرام چیزوں سے بھی رک جائے گا۔کھانے پینے اور نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے انسان کا نفس مزید پھلتا اور پھولتا ہے۔اسے کمزور کرنے کے لئے اسلام نے روزے کا قانون نافذکیا تاکہ نفس انسانی کو فاقہ کے ذریعے سے کمزور کیا جاسکے۔ لعلکم تتقون کا یہی مطلب ہے کہ انسان میں تقوی جیسی اچھی خصلت پیدا ہوجائے۔
ایک سماجی کارکن کی نگاہ میںروزے سے اخوت اور ہمدردی کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔روزے میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے، تو اسے ان لوگوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے جن کی زندگی تنگ دستی اور فقر وفاقہ میں گزرتی ہے۔چنانچہ وہ اپنی طاقت کے مطابق ان سے بھائی چارگی کا اظہار کرتا اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے میں ان سے ساتھ تعاون کرتا ہے،جیساکہ اسلام کا تقاضا ہے۔
ایک مہذب اور اخلاق و اقدار کے حامل شخص کی رائے میں روزہ اخلاق و کردار کی بلندی پیدا کرتا ہے۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’روزہ ایک ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو دل لگی کی باتیں کرے نہ شورو شغب۔اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑنے کی کوشش کرے تو کہہ دے،بھئی ! میں تو روزے دار ہوں۔‘‘ اس حدیث میں روزے کو ڈھال قرار دیا گیا ہے ،کس چیز سے؟ گالی گلوچ سے، شور و شغب اور دل لگی کی باتوں سے، حتی کہ کوئی گالی بھی دے تو کہہ دیاجائے کہ، میں تو روزے دار ہوں، میں روزے کی حالت میں اپنی زبان کو گالی سے آلودہ نہیں کروں گا،لڑائی کا جواب لڑائی سے نہیں، عفو و در گزر سے دوں گا۔یہ اخلاق و کردار کی وہ بلندی ہے جو روزے سے پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔
ایک طبیب کی نگاہ میں روزہ صحت کا راز ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ’’ روزہ رکھو صحت یاب ہو جاؤ گے۔‘‘ (الطبرانی)۔کیوں روزہ آنتوں کی صفائی، معدے کی درستگی، فضلات سے بدن کی تطہیر ، موٹاپے اور وزن کی کمی کا سبب ہوتا ہے جو کہ صحتمند رہنے کے لئے ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’انسان نے اپنے شکم سے بد تر ظرف کو پر نہیں کیا، آدمی کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اس کے پیٹھ کو کھڑا رکھ سکیں۔ پس اگر ناچار ہو تو اس کی ایک تہائی کو کھانے کے لئے، ایک تہائی کو پینے اور ایک تہائی کو سانس لینے کے خالی رکھے۔‘‘ (ترمذی، نسائی ،ابن ماجہ) اس حدیث میں پیٹ خالی رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس لئے کہ پیٹ خالی رکھنا اور کم کھانا جیسا کہ روزہ میں ہوتا ہے انسان کے لئے بہت سی جسمانی بیماریوں جیسے بلڈ پریشر، ذیابیطس،آنتوں کے عوارض، گردوں اور دل کے امراض سے حفاظت کا سبب ہے۔
ایک ماہر اقتصادیات کی نظر میںرمضان اور روزہ اسلامی معاشی نظام کا ایک حصہ ہے۔رمضان اقتصاد اور میاونہ روی کا مہینہ ہے، اس لئے اس میں اقتصاد کے بہت سے اسباق ملتے ہیں جو کہ حسن عمل اور عبادت میں مطلوب ہے۔یہ اقتصادی اسباق مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہیں:
اقتصاد کا پہلا سبق روزے کے ذریعہ فقراء اور مصیبت زدہ لوگوں کے حوالے سے احساس ہمدردی پیداکرناہے۔رمضان کا مہینہ روزے دار کے لئے فقیر،مصیبت زدہ کے تکلیف کو جاننے کاموقع فراہم کرتاہے ۔روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی شدت روزے دارکو یہ سبق دیتی ہے کہ ایک نان شبینہ کے محتاج کے لئے قوت لایموت کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔دنیا کے مختلف خطوں میں بہت سے مسلمان کھلے آسمان کے نیچے اپنی پوری زندگی گزاردیتے ہیں اور جن کے پاس پیٹ کی آگ کی بجھانے کے لئے پانی بھی نہیں ہے۔روزے میں بھوک پیاس کا احساس روزہ دار میںان لوگوں کو یاد رکھنے کا احساس جگاتا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی دعوت دینے کے ساتھ ان کو فقراء کی دست گیری اور معاونت پر ابھارتا ہے۔ اس کے نتیجے میںمال کی گردش ہوتی ہے اور معاشرہ میں اقتصادی توازن پیدا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان کو خیرات کا موسم اور اجر کو بڑھانے کا ذریعہ بنایا ہے،اور ایمان والوں کے لئے ایک عمل پہ ستر گنا ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ’’جو شخص رمضان میں نفلی عبادت کے ذریعے تقرب الہی کا طلب گار ہوگاتو اس کو اس شخص جیسا ثواب ملے گا جس نے رمضان کے علاوہ میں فرض ادا کیا اور جس نے اس میں فرض ادا کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے رمضان کے علاوہ میں ستر فرض ادا کئے۔یہ مہینہ ہمدردی اور غمخواری کا ہے،جوشخص اس مہینے میں کسی کو روزہ افطار کرائے گاتو اس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی مغفرت کا سبب اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا،اور اس کو روزہ دار کے ثواب میں کمی کئے بغیر روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے۔ـصحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص کے اندر افطار کرانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو یہ ثواب عطا فرمائے گا جو کسی روزہ دار کو ایک کھجور، پانی کا ایک گھونٹ یا تھوڑی سی لسی سے افطار کرادے۔‘‘ (بیہقی ،ابن خزیمہ)ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو کسی روزہ دار کو پانی پلائے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے کہ وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔‘‘ (ابن خزیمہ) اسی لئے رمضان میں فقیر کی غمخواری اور اعانت کرنا زیادہ اجر کا باعث ہے چاہے وہ مال،مأکولات ، مشروبات یا نرم بول کے ذریعہ ہو۔حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہــ’’حضورﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں جب حضرت جبرئیلؑ آپ سے ملاقات کرتے تھے تو آپ اور زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔آپ ﷺ بھلائی اور خیر کے کاموں میں تیز ہوا سے زیادہ فیاضی او ر سخاوت فرماتے تھے۔‘‘ گویا کہ اس مہینے میں فقیروں کو کھانا کھلانا، روزہ دار کو افطار کرانا اور سخاوت کا مظاہرہ کرنا حدیث نبوی ا تقاضا ہے۔اس کے نتیجے میں بہت سے سماجی، معاشی اور اقتصادی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
اقتصاد کا دوسرا سبب روزے کے ذریعہ انفاق اور خرچ میں میانہ روی کا سبق دینا ہے۔رمضان صدقات میں اضافے اور برکات کے نزول کا مہینہ ہے۔گویا کہ یہ مسلمانوں کے اقتصادی برکت کا سیزنہے۔اسی کی طرف حضور ﷺ نے اشارہ فرمایا ’’تمہارے پررمضان آیا ہے جو برکت والاہے۔‘‘(طبرانی) اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے’’اے لوگوںتم پرایک عظیم اور برکت والا مہینہ سایہ فگن چکاہے۔‘‘ (البیہقی) دوسری جگہ ارشا د ہے کہ’’اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔‘‘ قرآن میں غور فکر کرنے والا اگر گہرائی سے دیکھے گا تو اسے تقویٰ اور برکت میں ایک واضح ربط نظر آئے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ۔(سورہ بقرۃ:۱۸۳) دوسری جگہ ارشاد ہے ’’اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پر ہیز کرتے تو ہم ان پرآسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔‘‘ ان دونوں آیتوں کے مجموعے سے یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ برکت کا نزول تقویٰ پر منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ روزے کے ذریعہ بندوں کو متقی بنانا چاہتے ہیں ۔نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ روزے کے ذریعے اپنے بندوں کو روزی اور برکتوں سے نوازنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ اس ماہ مبارک میں اقتصادی برکت تو ہوتی ہے ،لیکن اسلام کے ہر امر میں میانہ روی کے واضح تعلیمات کے باوجود ہماری کوتاہی کے سبب یہ برکت ہماری متنوع غذاؤں کے سیلاب میں بہہ جاتی ہے۔ہمارے یہاں فضول خرچی میں لوگ سخی ہیں ۔جیسا کہ امریکہ کے سینتیسویں صدر رچرڈ نکسن نے عربوں کے تعلق سے کہا تھا:’’ عربوںکو پیسہ بنانا نہیں آتا ہے لیکن ان کو خرچ کرنا اچھی طرح آتا ہے۔‘‘
دوران روزہ کھانے پینے اور ان جیسی اشیاء سے رکنا مسلمانوں میں ان اشیاء کی خرچ میں کمی کرنا ہے جو وہ غیر ر مضان میں کیا کرتے تھے۔جامعہ ازہر کے صالح کامل سینٹر فار اسلامک اکونومی مصر کے مطابق اگر روزے کو ان کے شرعی اصولوں کے مطابق ادا کیا جائے تو مصری معیشت کو ہرسال ۳۰ ارب مصری پونڈ کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف غذاؤں میں تنوع اورافراط کے سبب ہماری اقتصادیات پر برا اثر پڑتا ہے۔خلیجی ممالک کے بعض رپورٹوں کے مطابق ’’تیار شدہ کھانوں کاپینتالیس فیصد حصہ کچرے کے ڈبوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔‘‘گویا کہ مسلمانوں نے رمضان کے مہینے کوفضول خرچی کا سیزن قرار دے دیا ہے۔شام ہوتے ہی بازار پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اور ماکولات اور مشروبات کی وہ نئی نئی قسمیں پسند کرتے ہیں جو غیر رمضان میں متصور نہیں تھی۔جس کے نتیجے میں مال کا ضیاع، جسمانی کسل مندی،عبادات کی ادائیگی میں سستی،بازار میں ایک معتدبہ وقت کا ضیاع،اور بہت سے انواع اقسام کے کھانے چیزوں میں وقت کی بربادی کے ساتھ اس کا بہت سا حصہ کوڑاکرکٹ کے ڈبوں میں پہنچ جاتا ہے۔
فضول خرچی ہر چیز میں ممنوع ہے۔یہاں تک حضور ا نے حضرت سعد ؓ کے سوال’کیا وضو میں بھی اسراف ہے‘ کے جواب میں ارشاد فرمایا:ہاں!اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کررہے) ہو۔‘‘ (ابن ماجہ) حضو ر ا نے اقتصادی فلسفہ بیان کرتے ہوئے خرچ کرنے کے تعلق ارشادفرمایا’’جو شخص (خرچ) میں میانہ روی اختیار کرے گا وہ محتاج نہیں ہوگا۔‘‘ اسی کے ساتھ جب قیامت کے دن مال کے متعلق سوال و جواب ہوگاتو پوچھا جائے گا کہ’’کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔‘‘ اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات و احادیث میں فضول خرچی کی ممانعت ہے۔جب عام دنوںمیں فضول خرچی کی ممانعت ہے تو رمضان میں یہ چیز بدرجۂ اولی ٰ ممنوع ہوگی۔
بیشک رمضان برکتوں والا،فقیروں کی حاجت روائی،مظلوموں کی داد رسی کا مہینہ ہے ۔ اس میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ہے۔ اسی کے ساتھ یہ مہینہ متقی بنانے، قانون کی پابندی سکھلانے،صحت کے اصول بتانے،سماجی ضروریات کے حوالے سے فکرمند رہنے اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط ہونے کے اسباق فراہم کرتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ رمضان کے برکتوں کے ساتھ اصول میانہ روی اور اعتدال کو ملحوظ رکھا جائے۔اتنا کھایا جائے کہ روزے کا مقصود فوت نہ ہو، اتنا نہ خرچ کیا جائے کہ میانہ روی کے حدیں پار ہوجائیں،کھانا اتنا نہ پکایا جائے کہ وہ کوڑے کے ڈبوں میں چلا جائے،اور سحری اتنی نہ کھائی جائے پورے دن کھٹی ڈکار آتی رہے۔ان تمام چیزوں میں اگر اعتدال کو ملحوظ رکھا جائے تو روحانی تربیت کے ساتھ بہت اقتصادی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔