امریکہ اور اسرائیل کا آخری اور مشترکہ ہدف کون؟
شاہدؔ کمال
عالمی منظر نامہ کے کینوس پر استعماریت اور صیہونیت کے منصوبہ سازوں کی طرف سے کھیچی جانے والی سیاسی اور تخریبی (افقی) اور (عمودی) لکیریں اپنے پورے خدو خال کے ساتھ مجسم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔اس کو سمجھنے کے لئے مشرق اوسطی میں چلنی والی ایک طویل مدت جنگ کی شکست و ریخت سے بہت نمایاں ہوچکی ہیں۔ چونکہ امریکہ ، اسرائیل اور اس کے حلیف ممالک نے جن مزموم مقاصد کے حصول کے لئے جس میدان جنگ کی زمین ہموار کی تھی ، وہ بازی ان کی سوچ کے برخلاف ثابت ہوئی ، اور مشرق اوسطیٰ میں ان استعماری اور صیہونی سازشوں سے مزاحم ہونے والی طاقتوں نے اپنی بھرپور استقامت کے ذریعہ وہ بساط لپیٹ دی ہے۔جس کا اندازہ امریکہ اور اسرائیل کی حالیہ عشروں میں کی جانے والی جارحانہ اور غیر منطقی اقدام سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔چاہے وہ سیریا کے مشرقی غوطہ پر امریکہ کی جانب سے کیا جانے والا مزائیلی حملہ ہو ،یا ایران دشمنی کے نام پر سیریا کے کچھ اہم اہداف پر اسرائیل کا مزائیل داغے جانے والا واقعہ ۔بعض سیاسی مبصرین کے نظریات کے مطابق اسرائیل کا سیریا پر کیا جانے والا حملہ اصل میں لبنان میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں حزب اللہ کی انتخابی جیت کی بوکھلاہٹ کا ایک نتیجہ تھا۔ یہ بات بھی اپنے اندر معقول جواز رکھتی ہے۔دنیا کے ماہرین دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدم انتہائی احمقانہ اور غیر منطقی تھا۔اس کے پیچھے براہ راست امریکہ اور اسرائیل کا کوئی بڑا فائدہ تو نہیں ہوا۔لیکن ، پس پردہ ریاض حکومت کے نوجوان شہزادے کی طرف سے کی جانی والی مالی پیشکش کا ایک قرض تھا جس کے فرض کی ادائیگی کی رسم ادا کی گئی ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ محمد بن سلمان کے امریکی دورے پر یہ بات بڑے کھلے ہوئے لفظوں میں ڈونالڈ ٹرمپ نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاض کا نوجوان شہزادہ ہماری استعانت اور مدد کے بغیر ایک ہفتے سے زیادہ تخت نشیں نہیں رہ سکتا،لہذا اس کے عوض ریاض حکومت کو اپنی بادشاہت کے تحفظ کے لئے لگان کے طور پر اسے اربوں ڈالر دینے ہوں گے۔نیو یارک ٹایمز کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عرب حکمرانوں کو اپنے خطوط میں تحریر کیا ہے کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کے قوانین کی اندیکھی کرتے ہوئے ،ایران سے ہونے والے سابق معاہدہ سے امریکی حکومت نے خود کو الگ کرکے ایران پر سخت اقدامات اور اقتصادی پابندی کی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے لئے امریکی اتحادی عرب ممالک کو معاوضہ دینا ہوگا۔ اس لئے کہ امریکہ نے خود ساختہ دہشت گردی کے خلاف کئ ارب ڈالر خرچ کئے ہیں ۔ لہذا عرب ممالک کے حکمرانوں کو بھی اس سلسلے میں انھیں دی گئ ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہئے۔امریکہ کا ایران سے ایٹمی معاہدہ توڑنے کا مقصد صرف اس کے ذاتی مفاد سے وابستہ ہے۔جس کی وجہ سے امریکہ کو دنیا دیگر بڑے ممالک کے سامنے کافی ذلت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کے صدرولادیمیر پوتین اور ترکی کے صدر اردوغان نے ٹیلفونک گفتگو میں اس بات کا ذکر کیا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے فرار اختیار کرنے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ،یہاں تک کہ ترک صدر طیب رجب اردغان نے ایرانی صدر ڈاکٹر روحانی سے گفتگو کرتے ہوئے مشترکہ ایٹمی معاہدے کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان تک کردیا ۔
دوسری جانب امریکہ صدر نے اپنے خطوط میںاس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ خلیج فارس کے بہت سے سرمایہ دار ممالک ایسے ہیں جنھوں نے اب تک دہشت گردی کے خلاف ہمارے موقف کی صرف تائید کی ہے۔ لیکن اس میں خرچ ہونے والے اخراجات میں اپنی شراکت درج نہیں کرائی ۔لہذا انھیں اب ایران کے خلاف کھل کر صرف ہماری حمایت ہی نہیں بلکہ مالی امداد بھی کرنی چاہئے۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے خلیج فارس کے عرب ممالک کی حفاظت کے لئے 7 ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں اور یہ رقم عرب حکمرانوں کو ادا کرنی چاہیے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ نے مذکورہ رقم وصول کرنے کے لئے سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشیدگی کو حل کرنے کے لئے ایک ٹیم بھی علاقہ میں روانہ کردی ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس موقف سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی نگاہیں عرب ممالک کے سرمایہ پر ہے جسے وہ ایران کے نام پر ان سے ہتھیانا چاہتا ہے۔جس دن عرب ممالک امریکہ کے اس موقف سے دستبردار ہونے کی کوشش کریں گے۔ اس دن ان کا بھی وہی انجام ہوگا جیسا کہ اعراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قذافی کے ساتھ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض حکومت نے امریکہ اور اسرائیل کی کھلی ہوئی حمایت کا اعلان کیا کردیا ہےجس کی وجہ سے دنیا کے تمام مسلمانوں میں ایک بے چینی اور کرب کی کیفیت کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ریاض حکومت کی جانب سے کئے جانے والے بیشتر فیصلے قوم و ملت کے مفاد سے کہیں زیادہ اپنی بادشاہت کے تحفظ اور اپنی ذاتی امریت اور ڈکٹیٹر شپ کی بنیاد پر کئے گئے ہیں۔جس سے قوم کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ،جس کی وجہ سے وہاں کے عوام کو اب اپنے عدم تحفظ کا احساس ہونے لگا ہے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں انتشار اور احتجاج کی کیفیت زمینی سطح پر دھیرے دھیرے ایک خطرناک انقلاب کی صورت اختیار کررہی ہے۔جس دن عوام اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے منظم ہوکر گھروں سے باہر نکل آئے تو وہاں کے عوام کی ٹھوکروںکی ایک ضرب سے شہنشایت اور امریت کا نخوت و غرور خاک میں مل جائے گا۔ ریاض حکومت کے زوال کی اصل وجہ خود امریکہ اور اسرائیل ہی ہوں گے،چونکہ مشرق اوسطی میں امریکہ اور اسرائیل کی حیثیت ایک ایسے پس خوردہ فوج کی طرح ہے جو خود اپنے ہی بنے ہوئے جال میں پھنس چکی ہے،جس سے راہ فرار کی کوئی صورت نہیں دکھائی دے رہی ہے،لہذا امریکہ وہاں سے باہر نکلنے کے لئے اپنے چہیتے غلام زادوں کو اپنا ہدف بنانے میں ایک لمحہ کے لئے بھی تامل نہیں کرے گا۔ریاض حکومت صیہونیت اور استعماریت کے شکنجے میں پوری طرح پھنس چکی ہے۔جس کا مستقبل ایک سبق آموز اور عبرتناک انجام کا م نتظر ہے۔