یادیں
بنگلا نمبر
عارف نقوی
میں کئی برس کے بعد اپنے آبائی شہر میں رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے کے لئے آیا تھا۔ بہت کچھ بدلا
ہوا نظر آرہا تھا۔ سڑکیں اور عمارتیں بدل گئی تھیں۔ لوگوں کے حلیے، ان کی شکلیں اور عادتیں بدل گئی تھیں۔ زبان اور
لہجے میں فرق تھا۔ باہمی رشتوں میں تبدیلیاں آگئی تھیں۔ جو دوست پہلے بے تکلفی سے باتیں کرتے تھے ، اب ان
کی زبان پر آپ اور جناب تھا۔ پہلے لوگوں کی زبانوں سے اپنے لئے بیٹا اور بھائی جیسے الفاظ سنتا تھا ، اب بھائی جان،
چچا جان، ماموں جان اور کبھی کبھی نانا اور داد ا سننے کو مل رہا تھا۔ جو علاقے پہلے ویران اور سنسان پڑے رہتے تھے اب
وہاں نئی نئی عالیشان عمارتیں مسکرا رہی تھیں اور جن علاقوں پر لکھنئو کو ناز تھا وہاں گندگی اور غلاظت اور کھنڈرات نظر
آرہے تھے۔
میں روز شام کو اپنے پرانے دوست احباب اور رشتے داروں سے ملنے جاتا اور دن میں تاریخی یادگاروں کی
زیارت میں وقت گزارتا۔ کبھی حسین آباد کے بڑے اور چھوٹے امام باڑے اور ریزی ڈینسی کی طرف قدم اٹھتے
اور کبھی حضرت گنج، امین آباد، نظیر آباد، نخاس اور چوک کے بازاروں کی طرف۔ حضرت گنج کے فیشن پرست بازار
کے پرانے کافی ہائوس میں ، جہاں کبھی اسرار الحق مجاز کے چٹکلوں اور نظموںپر واہ واہ ہوتی تھی اور آنند نرائن ملّاکے
اشعار پر دادیں دی جاتی تھیں، اب وہاں گالم گلوج سنائی دیتی ہے اور میزوں پر گرد کی تہیں جمی رہتی ہیں۔ نخاس کے
جن چائے خانوں میں سراج لکھنوی، سالک لکھنوی ، شمس لکھنوی ،نہال رضوی، شارب لکھنوی ، ساحر لکھنوی ،
حیات وارثی ، فہمی اور بہت سے دیگر شعراء ایک دوسرے کی غزلیں سن کر بال کی کھال نکالتے اور شین قاف درست
کرتے تھے، اب ویران پڑے تھے۔ اکثر میں چوک اور نخاس کے کسی ریستوراں میں جا کر لوگوں کو غور سے دیکھتا،
کہ شاید کوئی جانی پہچانی شکل نظر آجائے۔ مگر کامیابی نہ ہوتی۔ مجھے الجھن ہونے لگتی۔ وہاں پر کرتہ پائجامے میں
ملبوس دوپلّی ٹوپی لگائے، چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے لوگ مجھے عجیب نظروں سے گھورتے، جیسے سوچ رہے ہوں
کہ یہ پتلون قمیض کا جانورایک ہاتھ میں بیگ لئے ہوئے کہاں سے آ گیا ہے۔ امین آباد اور نظیر آ باد کے کے بہت
سے ریستوراں سنگم ہوٹل، نوری ہوٹل، چاند ہوٹل، عبداللہ کا چائے خانہ، جہاں بیٹھ کر ہم کسی زمانے میں سیاسی اور
ادبی سرگرمیوں کے منصوبے بناتے تھے اور ہزار لکھنوی،دل لکھنوی، صائم سیدنپوری، شعور بریلوی اور عبدالرشید خاں
قمر کے اشعار سنتے تھے اور کبھی کبھی اپنے اشعار انہیں سنانے کی ہمت کرتے تھے، اب کپڑوں کی دوکانوں میں تبدیل
ہو گئے ہیں۔ اب وہاں اشعار پر واہ واہ نہیں ہوتی، گاہکوں کو زور زور سے آوازیں دی جاتی ہیں۔
’’بھائی جان، اپنی بوتل لیتے جائیے۔‘‘
میری چچازاد بہن صبیحہ نے، جس کے ساتھ میں ٹھہرا ہوا تھا، مجھے ایک پلاسٹک کی بوتل پکڑاتے ہوئے کہا۔
اس میں فلٹر کا ابلا ہوا پانی تھا۔
’’ دیکھئے، باہر کا پانی مت پیجئے گا۔ ادھر ادھر کے ریستوراں میں کھانا مت کھائیگا۔ آپ کا معدہ ویسے
بھی ماشہ اللہ رہتا ہے۔‘‘
پھر وہ کچھ پڑھکر میرے منہ پر پھونکتی اور جب تک میں گھر واپس نہ آجاتا پریشان رہتی۔
دوپہر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں کچھ کمی آگئی تھی۔ سورج اشوک کے پیڑوں کی اوٹ میں چھپنے لگاتھا۔
سڑک چکبست روڈ سے گزرتے ہوئے میرے قدم بنگلہ نمبر ایک کے سامنے رک گئے۔ یہ بنگلہ شہر کے خوش پوش
علاقے میں ایک ایسی شاہراہ پر ، جو اردو کے مشہور شاعر برج نارائن چکبست کے نام سے منسوب تھی، قائم ہے۔
اسی بنگلہ میں میں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ بنگلہ کا دوسرا پھاٹک راجہ نواب علی روڈ پر کھلتا تھا۔ جہاں بغل میں داائیں
طرف ڈسٹرکٹ بورڈ کا دفتر اور اس کا بغیچہ تھا ، جس میں چکوترے اور نارنگیا ںتوڑنے کے لئے میں گھر کی منڈیر
کو پھاند کر دوسری طرف جایا کرتا تھا۔ سامنے لڑکیوں کا ایک کالج ناری شکھشا نکیتن تھا، جہاں کی لڑکیاں روز رنگ
برنگے لباسوں میں ملبوس پھدکتی ہوئی ہمارے گھر کے بیرونی چمن میں گھس کر گیندے اور گلاب توڑ کر اپنے آنچلوں
میں بھرتیں اور اس سے پہلے کہ ہم انہیں ٹوکیں ’’ یہ پوجا کے لئے ہیں۔‘‘ کہہ کر ہنستی ہوئی بھگ جاتی تھیں۔
ہمارے بنگلہ کے قریب ہی چکبست روڈ کے دوسرے کنارے پر ایک بڑے سے میدان میں ایک عدالت تھی۔ اس
کے سامنے اکثرمعصوم دیہاتیوں کا جمگھٹ لگا رہتا تھا اور مداریوں کے کرتب اور سانڈے کا تیل فروخت کرنے
والوں کی لچھے دار تقریریں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر تی تھیں۔ بنگلہ کے عقب میں نوکروں کے کوارٹروں کی پشت
پر ایک بڑا سا نالا اور اس کے پار امریکی مشنری کا ’سنٹینیل اسکول‘ تھا۔ جس میں میں پڑھتا تھا اور اگر کبھی اسکول جانے
میں دیر ہو جاتی تھی تو اسکول کی منڈیر یا نالے کو اس کے پائپ کی مدد سے پھاند کر وقت پر کلاس میں پہنچنے کی کوشش
کرتا تھا۔وہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر دریائے گومتی کے قریب ریزیڈینسی کے کھنڈرات تھے۔ جہاں ۱۸۵۷ء
میں جنگِ آزادی کے دوران انگریزی فوجیں محصور ہو کررہ گئی تھیں اور اودھ کی ہندوستانی فوج نے، جس کی قیادت
بیگم حضرت محل کر رہی تھیں، قلع کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ آج بھی گولوں کے نشانات اس کے کھنڈرات پر
دیکھے جا سکتے ہیں۔ سینٹینیل اسکول کے لڑکے اکثر ریزی ڈنسی کے کھنڈرات اور پارکوں میں شرارتیں کیا کرتے
اور پیڑوں پر چڑھ کر لال اور ہری املیاں توڑتے اور مالیوں کی گالیوں سے لطف اندوز ہوتے۔ریزی ڈنسی کے قریب
ہی چکبست روڈ کے ایک سرے پر ، چڑھائی پر بلرام پور اسپتال تھا ، جہاں ۵ ؍ دسمبر ۱۹۵۵ء کی رات کو میری نظروں کے
سامنے ہمارے ہردلعزیز شاعر اسرارالحق مجاز نے ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیں تھیں۔
سڑک کے دوسرے سرے پر ایک بڑے سے بوسیدہ مگر تاریخی پھاٹک کے سامنے قیصر باغ کی بارہ دری تھی
جہاں کہتے ہیں کہ اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ اندر سبھا کھیلا کرتے تھے جو ہندوستان کا پہلا اوپیرا مانا جاتا ہے۔ّ
بارہ دری کے دائیں اور بائیں دو خوبصورت پارک اور قریب ہی وہ محلات تھے ، جو اودھ کی بیگمات کے لئے وقف
تھے اور اب محمودآباد ہائوس، سلیم پور ہائوس وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں۔ تعلیمی زمانہ میں میرے بعض عزیز ترین
دوست شارب ردولوی، ذکی شیرازی، احراز نقوی، اشد رضوی، شاہد رضوی اور عمّار رضوی وغیرہ وہاں رہتے تھے ۔
اس کے قریب ہی احمد علی نامی ایک شخص کے ڈھابے میں بیٹھ کر ہم چائے پیتے اور ادبی سرگرمیوں کے منصوبے بناتے
تھے۔ وہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر بیگم حضرت محل پار تھا۔، جو پہلے وکٹوریہ پارک کہلاتا تھا۔ بعد میں
جنگِ آزادی کی مجاہدہ بیگم حضرت محل کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ کسی زمانے میں میں اپنے دوستوں
کے ساتھ وہیں پر کریکٹ کھیلا کرتا تھا۔ حالانہ بیٹنگ سے زیادہ گیند کے پیچھے دوڑنا پڑتا تھا۔
میں نے چکبست روڈ کے بنگلہ نمبر۱ پر ایک بار پھر نظر ڈالی۔ پھولوں کی قرینے سے سجی ہوئی خوبصورت
کیاریوں کی جگہ بیرونی چمن میںجھاڑ جھنکاڑ اُگے ہوئے تھے۔ بنگلہ کی منڈیر جگہ جگہ بوسیدہ تھی۔ اس کے
پاس ٹوٹی پھوٹی پان بیڑی کی دُوکانیں اور آلو چھولے کے ڈھابے بن گئے تھے۔ منڈیر کے قریب فٹ پاتھ
پر کئی حجام دیہاتیوں کو گُمّوں پر بٹھا کر ان کی حجامتیں بنا رہے تھے۔
میرے چچا سید مصباح الدین نقوی کی نیم پلیٹ وہاں سے ہٹا دی گئی تھی۔
میں ایک لمحے کے لئے اشوک کے پیڑ کے سایہ میں منڈیر سے پیٹھ لگا کر کھڑا ہو گیا۔ پتّوں سے چھن
چھن کر آنے والی ہواایک عجیب سرور بخش رہی تھی۔ لگتا تھا آنکھیں بند ہو جائیں گی۔ چمن کی کیاریاں پھر سے
سرسبز ہو گئیں۔ رنگ برنگے پھول مسکرانے لگے۔ رات کی رنی کے ننھے ننھے پھول فرش پر بکھر گئے۔ فضا خوشبو
سے معطر ہو گئی۔ پیڑوں پر چہچہاتی ہوئی چڑیوں کے نغمے تیز ہو گئے۔ پھاٹک کے سامنے لگے ہوئے املی کے
پیڑ سے پکی ہوئی املیاں برسنے لگیں۔
’’ بھیّا، کیاریوں کو خراب نہ کیجئے۔ پھولوں کو نہ مسلئے۔‘‘
یہ چودھری تھا ، گھر کا پرانا مالی۔ وہ بڑی احتیاط سے چمن میں نئے نئے پودے لگاتا اور انہیں محبت
سے سینچتا تھا۔ جب وہ بیلوں کو تراشتا تو ایسا لگتا جیسے کوئی نائی کسی بچّے کو کرسی پر بٹھا کر اس کے بال تراش رہا
ہے اور جب وہ کیاریوں میں گھس کر گھاس پھوس ہٹاتا تو لگتا جیسے کوئی ماں اپنے بچّے کے بالوں میں جوئیں
تلاش کر رہی ہے۔ وہ روز گلدستے بنا کر میرے چچا کی میز پر سجاتا اور عید بقرعید کے موقعوں پر خوبصورت
گلدستے میری چچی کو پیش کرتا اور انعام حاصل کرتا۔
چودھری کی جگہ اب رام دین نے لے لی۔ وہ ہمارا پرانا کوچوان تھا۔ دھوتی پہنے، ترچھی ٹوپی لگائے،
میرے چچازاد بھائیوں سلیم اور سلمان کو بگھی پر بٹھا کر لامارٹینئر اسکول لے جاتا تھا۔ وہ اپنے گھوڑے سے بہت
محبت کرتا تھا۔ گھنٹوں اس کی پیٹھ پر پیا ر سے برش پھیراکرتا۔ اور جب میں گرگٹان پکڑنے کے لئے اس کے
گھوڑے کی دُم سے کوئی بال اکھاڑ لیتا تو بہت ناراض ہوتا تھا۔ رام دین کانور کے مرض میں مبتلا ہو کر جوانی میں
ہی فوت ہو گیا۔ اس کی پتنی کو مصباح چچا نے میونسپلٹی کے زنانہ پارک میں مالن کی ملازمت دلوا دی اور اس سے
کوارٹر خالی کرنے کے لئے نہیں کہا۔ اس کا چھوٹا سا گول مٹول سانولے رنگ کا بیٹا بھگوان دین کبھی کبھی ہمارے
پاس آجاتا اور ایک طرف کھڑے ہو کر ہمیں کنچے کھیلے یا لٹّو نچاتے دیکھا کرتا۔
پرانی یادیں تازہ ہونے لگیں۔
میں ان دنوں بہت چھوٹا تھا۔ میرے والد ، جنہیں میں پاپا کہتا تھا، میری والدہ (امّی) کو حیدرآباد سے
لے کر،جہاں وہ ایک فیزیکل ٹریننگ کالج کے پرنسپل تھے، لکھنئو میں عید منانے کے لئے آئے تھے اور مصباح
چچا کے ساتھ بنگلہ نمبر ۱ پر ٹھہرے تھے۔ یہ بنگلہ مصباح چچا کو ، جو میونسپلٹی کے چیف ایکزیکیٹو افسر تھے، سرکار کی
طرف سے دیا گیا تھا۔کئی بھائی اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس بنگلہ میں رہتے تھے۔ پھر بھی اس کا کچھ حصّہ
خالی پڑا رہتا تھا۔گھر کے بیرونی اور اندرونی حصّوں میں برے بڑے چمن تھے، جن کی دیکھ بھال کے لئے کئی
مالی مقرر تھے۔اندرونی چمن کے پیچھے نوکروں کیلئے کوارٹر تھے اور طرح طرح کے پھولوں کی بیلیں ، کیاریاں اور
بیسیوں قسم کے پھلوں کے درختوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ گرمیوں میں شام کو اندرونی چمن میں لاتعداد
پلنگ مچھردانیوں کے ساتھ لگا دئے جاتے تھے اور ہملوگ جگنوئوں کو اُڑتے ہوئے دیکھ کر حیرت کرتے تھے۔
دوپہر کو چلچلاتی ہوئی دھوپ میں جب گھر کے سب لوگ سو جاتے تھے تو بچّے چمن میں ادھر ادھر چلانگیں لگاتے
اور املیاں جمع کرتے یا گھوڑے کے بال سے پھندہ بنا کر گرگٹان پکڑا کرتے تھے۔
اس بار بھی چاہتا تھا کہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ چمن میں اچھلتا پھروں۔ مگر عید کا دن تھا۔ پاپا مجھے
اور امّی کو عید منانے کے لئے لکھنئو لائے تھے اور ہمیں نئے نئے کپڑے سلوا کر پہنائے تھے، اس لئے میں نے
چوں چرا نہ کی۔ شیروانی اور پھُنّے دار ترکی ٹوپی پہن کر سب کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے عید گاہ چلا گیا۔ وہاں
سے لوٹ کر ہملوگوں نے کھانا کھایا اور عید ملنے کے لئے پنجابی ٹولہ چلے گئے، جہاں میری ننہال تھی۔
پنجابی ٹولہ ایک چھوٹا سا محلّہ ہے، جو شہر کے پرانے علاقے میں آباد ہے۔ کسی زمانے میں محلّے کے تین
چوتھائی مکانات میرے نانا حافظ عبدالسلام کی ملکیت تھے، جو ایک زمیندار تھے۔ متقی، پرہیزگار اور حافظ قران تھے۔
ان کی پہلی بیوی سے جو نواب بنگال کے خاندان سے تھیں اور خواجہ ناظم الدین کی رشتے دار تھیں پندرہ اولادیں
ہوئی تھیں، جن میں سے صرف تین ان دنوں بقیدِحیات تھیں۔ میری والدہ قمر جہاں بیگم، خالہ سلطان جہاں بیگم
(منّی) اور ماموں عبدالصمد (ببن)، جو ذہنی کمزوری کا شکار تھے۔ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ بس کرایہ داروں سے
اپنا ٹیکس وصول کرتے اور اگر کوئی نہیں دیتا تو اینٹوں کی شکل میں جنّات اس کے گھر میں بھیجتے تھے۔ میری نانی کے
انتقال کے بعد نانا نے کافی وقفے کے بعد دوسری شادی کی تھی۔ دوسری بیوی سے ان کے تین بیٹے تھے، جن میں
سے دو تو مجھ سے صرف چند سال بڑے اور ایک مجھ سے کچھ چھوٹا تھا۔ محلّے کے آس پاس کوئی انگریزی اسکول نہیں
تھا۔ صرف درسگاہیں اور پاٹھ شالائیں نظر آتی تھیں۔ دن میں لٹّو نچاتے اور کنچے کھیلتے لڑکوں کا شور رہتا اور آسمان پر
ہر طرف رنگ برنگی پتنگیں اڑتی رہتی تھیں۔ چنانچہ اس دن عید ملن کے بعد میرے والد بھی لڑکوں کے ساتھ کوٹھے پر
جا کر پتنگ اڑانے لگے۔ اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ نیچے اتر کر بستر پر لیٹ گئے اور پھر کنگ جارج اسپتال
میں، جسے شاہ مینا اسپتال بھی کہا جاتا تھا، بھرتی کردئے گئے۔ اٹھارہ دن کے بعد انہیں چکبست روڈ کے بنگلہ نمبر۱
میں واپس لایا گیا تو وہ ایک سفید چادر میں ملبوس سورہے تھے اور ان کے جسم سے کافور کی خوشبو آرہی تھی۔ میری
والدہ صدمہ سے بیہوش ہو گئی تھیں اور دادی پچھاڑیں کھارہی تھیں۔
میرے والد کی وفات کے بعد میرے نانا اور والدہ نے بہت چاہا کہ میں ان کے ساتھ پنجابی ٹولے میں
رہوں۔ مگر دادی امّاں مجھے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب میں ہی ان کی آنکھوں کا نور ہوں
اور مصباح چچا کا خیال تھا کہ پنجابی ٹولے کا ماحول میرے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ وہاں میری پڑھائی ٹھیک
سے نہیں ہو پائے گی۔ یہاں انگریزی اسکول گھر کے قریب ہے۔ میں چھٹیوں میں پنجابی ٹولے جا سکتا ہوں۔
دور نہیں ہے۔ چنانچہ میری والدہ رضامند ہو گئیں اور میں مسصباح چچا اور چچازاد بھائی بہنوں کے ساتھ
بنگلہ نمبر ۱ میں رہنے لگا۔
میری دادی نواب منصرم الدولہ کی دختر تھیں، جو جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے، اودھ کے تاجدار واجد علی
شاہ کے وزیر تھے۔ دادا کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ سنتے ہیں وہ خود مولوی تھے اور اپنے بیوی بچّوں کو مٹیا برج
(کلکتّہ)میں چھوڑ کر مکّہ شریف چلے گئے تھے اور پھرکبھی واپس نہیں لوٹے تھے۔ دادی اکثر مجھے اودھ کی
تباہی کے قصّے سنایا کرتی تھیں۔ ان کا بچپن مٹیا برج میں گزرا تھا ، جہاں واجد علی شاہ اور ان کے افسروں کو
انگریزوں نے حراست میں رکھا تھا۔ خاندان کا سارا اثاثہ اودھ میں تباہ ہوگیا تھا۔ بعد میں وہ اپنے بچّوں کو
لے کر کس طرح جے پور گئیں اور وہاں سے لکھنئو آئیں یہ مجھے نہیں معلوم۔ کاش اس وقت میں نے ان سے
پوچھ لیا ہوتا۔بس اتنا معلوم ہے کہ پہلے انہوں نے پنجابی ٹولے میں میرے نانا کے احاطے میں کرایہ دار کی
حیثیت سے رہنا شروع کیا اور بعد میں جب مصباح چچا میونسپلٹی کے چیف ایکزیکیٹو افسر ہو گئے اور انہیں
سرکاری بنگلہ مل گیا تو وہ سب اسی بنگلہ نمبر ۱ میں منتقل ہو گئے۔
میرے دو چچا نورالدین اور نظام الدین بھی اسی بنگلے میں رہتے تھے۔ نظام چچا کی اہلیہ کا انتقال
ہو چکا تھا اور کوئی اولاد نہیں تھی۔ لیکن نورالدین چچا (کتّو )کی ماشہ اللہ آٹھ یا نو اولادیں تھیں۔ دوونوں نے
زیادہ تعلیم نہیں حاصل کی تھی۔ نظام چچا کسی زمانے میں کلکتّہ میں باٹا کمپنی میں کام کر چکے تھے اور بنگالی بہت
اچھی بولتے تھے۔ان کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں ۔ بچّوں میں بچّوں کی طرح اور بزرگوں میں بزرگوں
کی طرح۔ جی چاہتا تھا بس انہیں سنتے رہو۔ کتّو چچا دیکھنے میں روکھے پھیکے مگر کافی محنتی تھے۔ ان کے بیان کے
مطابق ایک زمانے میں وہ کلکتّہ میں محمڈن اسپورٹنگ میں فٹبال کھیلتے تھے۔ کتّو چچا لکھنئو میں نظرباغ کے ایک
سنیما گھرمیں (غالباً اوڈیم نام تھا) فلم کی مشینیں چلایا کرتے تھے اور اکثرت ہملوگوں کو مفت فلمیں دکھاتے
تھے۔ایک بار ان کی ایک انگلی بھی وہاں کی مشین میں پھنس کر کٹ گئی تھی۔ سب سے بڑے چچا ابولخیر کا میری
پیدائش سے قبل ہی انتقال ہو چکا تھا۔ ان کی بیوی جنہیں میں بڑی امّاں کہا کرتا تھا اپنے بیٹے نجم الدین
(حسنو بھائی) اوربیٹی سعدیہ (سعدیہ آپا) کے ساتھ یہیں رہتی تھیں۔ حسنو بھائی اور سعدیہ آپا کو مصباح چچا نے
سگی اولادوں کی طرح پالا تھا۔ ایک پھوپھی جنہیں سب منّی باجی کہتے تھے، چارباغ ریلوے اسٹیشن کے قریب
اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ اے پی سین روڈ پر رہتی تھیں۔وہ اپنے شوہر محمود علی کے انتقال کے بعد سے گوشہ
نشینی کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ ایک دوسرے چچا وہاج الدین، جنہیں میں ننہے چچا کہتا تھا، حیدرآباد دکن میں
عثمانیہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ۱۹۴۶ء میں جب امریکہ میں ہندوستان کا سفارت خانہ کھلا تو وہ آصف علی
کے ساتھ واشنگٹن بھیجے گئے۔ پھرملک کی تقسیم کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ کی ملازمت قبول کرلی اور پھر اس
کے بعد جب غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بنے ، تو ان کی پیشکش قبول کر کے ان کے پریس اٹیچی ہو گئے۔
وہ بنگلہ نمبر ۱ میں کبھی نہیں رہے۔ ہاں ملنے کے لئے ضرور آئے تھے۔ مصباح چچا کے ایک سالے جنہیں میں
چھوٹے ماموں کہتا تھااکثر انائو سے آکر یہاں رہتے تھے۔ وہ شطرنج کے شوقین تھے۔ نظام چچا اور چھوٹے
ماموں کے بیچ روز شطرنج کی بازی لگتی تھی اور مہروں پر لڑائی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی تو بساط الٹ دی جاتی اور
تھوڑی دیر کے بعد پھر لگادی جاتی۔آخر ایک دن میری چچی (چچی امّاں) نے عاجز آکرشطرنج ہی کہیں
پھنکوا دی اور ان دونوں کی لڑائی بند ہو گئی۔
مصباح چچا نہایت ہی دیندار انسان تھے۔ دیکھنے میں روکھے پھیکے، لہجہ سے سخت مگر اندر سے
نہایت ہی موم دل۔ نماز پڑھتے وقت یا تلاوت کرتے وقت اکثر روتے رہتے تھے۔ دور دور سے لوگ
ان کے پاس اپنے کاموں کے لئے آیا کرتے تھے۔ کسی کوملازمت کی ضرورت ہوتی تھی، کوئی اپنے بیٹے کو
اسکول میں بھرتی کروانا چاہتا تھا، کسی کو مالی امداد کی ضرورت تھی اور کسی کا رشتہ دار مرگی کا شکار تھا اور اس کو
تعویذ کی ضرورت تھی۔ مصباح چچا ان کی باتوں کو سن کر اس طرح جواب دیتے جیسے انہوں نے انکار کر دیا ہو۔
مگر دوسرے ہی لمحے میں دیکھتا کہ وہ شخص خوش خوش رخصت ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس کا کام بن گیا تھا۔ انہیں
شہر کے سب سنیما گھروں کے پاس ملا کرتے تھے۔ بس ایک پرچہ منیجر کے نام لکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔
کبھی کبھی میں معصوم سی شکل بنا کر ان کے پاس جاتا اور کہتا کہ پاس کی ضرورت ہے۔ اس وقت ان کا پہلا
جملہ ہوتا: ’’ خوب، پڑھنا نہیں ہے۔ امتحان سر پر ہیں۔‘‘ لگتا جیسے ڈانٹ رہے ہوں۔ مگر دوسرے ہی لمحہ
سنیما گھر کے منیجر کے نام پرچہ لکھ رہے ہوتے تھے: ’’ انہیں دوپاس دے دیجئے گا۔‘‘
میں نے زندگی میں انہیں کبھی جھوٹ بولتے یا دوسروں کی غیبت کرتے نہیں سنا۔ خودداری کا یہ
عالم تھا کہ ایک بار اس وقت کے یو پی کے وزیر اعلیٰ نے ان سے شکایت کی کہ وہ کبھی ان سے ملنے کے لئے
نہیںآئے، تو جواب دیا: جی ہاں کام کے بعد گھر جا کر بیوی بچّوں کے ساتھ وقت گزارتا ہوں۔ ان کے
دوستوںاور ملاقاتیوں میں خلیق الزماں جیسے سیاست داں بھی تھے اور علی میاں جیسے عالم اور جعفر علی خاں اثر
جیسے شاعر ۔ مگرانہوں نے کبھی بھی سیاست میں دلچسپی نہ لی، نا ہی کبھی شاعری کی۔ ان کے چھوٹے بھائی وہاج
الدین (ننھے چچا) اور کئی دوسرے رشتے دار وطن چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، لیکن مصباح چچا نے وطن چھوڑنا
تو درکنار لکھنئو چھوڑنابھی پسند نہیں کیا۔یہاں تک کہ انہوں نے کانپور میونسپل کارپوریشن کے چیف ایکزیکیٹو
افسرکے عہدے کو اور مرکزی سرکار کے اہم عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ وہاں ان کی تنخواہ
کہیں زیادہ ہوتی۔ وہ لکھنئو کی تہذیب اور بوباس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیںتھے۔ کہتے تھے: ’’ میں نے
لکھنئو میونسپلٹی میں لائٹنگ انسپکٹ کی پوسٹ پر کام کرنا شروع کیا تھا، اب اپنے اس عہدے پر پہنچنے کے بعد
اس شہر کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ انہوں نے کبھی اپنی آسائش کی پروا نہیں کی۔ جو کچھ سامنے رکھ دیا جاتا تھا کھا لیتے
تھے۔ البتّہ مٹھائی کے شوقین تھے۔ جے پور کی گزک بڑے شوق سے کھاتے تھے اور اگر کبھی مٹھائی نہ ہوئی تو
خالی گُڑ سے بھی منہ میٹھا کر لیتے تھے۔ گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ شیروانی اور ٹوپی م یں ملبوس ہوتے حالانکہ کبھی
کبھی کرتہ میں پیوند بھی لگا ہوتا۔ جس پر میری والد انہیں مذاق میں کنجوسی کا تعنہ دیتیں۔ حالانکہ اپنے بچّوں کے
لباس اور ان کی خوشیوں کو پورا کرنے نیز ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے میں انہون نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔
میری دادی کے ایک بھانجے ہادی کھیل کے بہت شوقین تھے۔ ہملوگ انہیں ہادی چچا کہتے تھے۔
دماغ میں کچھ خلل آگیا تھا۔ کھیل کے میدانوں میں اچکتے رہتے اور کھلاڑیوں کو گالیاں اور ٹپس دیا کرتے تھے۔
کھلاڑی بھی ان کو چھیڑ چھیڑ کر گالیاں کھانے کے عادی ہوگئے تھے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ وہ انہیں اپنے
ساتھ دوور دور کے شہروں میں لے جاتے تھے۔ میری والدہ اور چچی بتاتی تھیں کہ ہادی چچا کسی زمانے میں
بہت اچھے تیراک تھے۔برسات کے دنوں میں جب گومتی میں تغیانی آتی تھی تو موتی محل کے پُل پر سے دریا
میں چھلانگیں لگاتے تھے۔ مگر اب ان کی پیٹھ میں کوبڑ نکل آیا تھا اور وہ صرف دوسروں کو گالیان اور مشورے ہی
دے سکتے تھے۔لکھنئو کے آرٹس کالج میں ان کا ایک بَسٹ بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ ہادی چچا کو پپیتے کے پودے
لگانے کا بہت شوق تھا۔ پتہ نہیں وہ کہاں کہاں سے لاکر پپیتے کے پودے گھر میں لگاتے تھے۔ لیکن جب گھر
کے بچّے انہیں چھیڑ دیتے تھے اور ان کی گالیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے، تو وہ غصّہ میں پودوں کو پھر سے
اکھاڑ کروہاں سے لے جاتے تھے اور میرے پھوپی زاد بھائی احتشام حسین محمود علی (شمّو بھیا) کے گھر میں
لگادیتے تھے اور وہیں رہنے لگتے تھے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد ہم دیکھتے کہ ہادی چچا وہاں سے کسی بات پر
ناراض ہو کر چلے آئے ہیں اور پپیتے کے پودوں کو کیاریوں میں لگا رہے ہیں۔ انہیں شکایت تھی کہ شمّو بھیا
کے گھر کا ماحول انگریزی تھا اور وہاں ساز سنگیت کی آوازیں گونجتی تھیں۔ ہادی چچا کے بارے میں بتایا جاتا
ہے کہ کسی زمانہ میں ان کے والد کے گھر کے دروازے پر ہاتھی بندھتا تھا۔ مگ اب زمانہ کی ستم ظریفی اور دماغی
خلل نے انہیں محتاج بنا دیا تھا۔ بعد میں جب وہ بیمار پڑے تو ان کا علاج معالجہ بھی ٹھیک سے نہ ہو سکا۔ ان کے
دادا کے نام کا کپتان کا کنواں آج بھی پرانے لکھنئو میں موجود ہے۔ ان کی وفات کے بعد جب روزنامہ قومی
آواز ، پانئیر، نوجیون اور نیشنل ہیرالڈ نے ان کے بارے میں خبریں شائع کیں اور رتن سنگھ نے اپنا افسانہ
ہادی لکھ کر انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسے میں ڈاکٹر احتشام حسین کے گھر پر بارودخانے میں سنایا تو ہمیں
احساس ہوا کہ وہ ہادی چچا جن سے سب تفریح لیا کرتے تھے کتنی اہم شخصیت تھے۔
ہادی چچا سے گھر کی عورتیں بہت گھبراتی تھیں۔اگر خاندان کی کوئی عورت امین آباد یا نظیر آباد کے
بازار میںبرقے کی نقاب اُلٹے ہوئے مل گئی تو پھر بھرے بازار میں اس کی حجو شروع کر دیتے تھے:
’’ گاندھی ، جناح آزادی مانگتے مانگتے تھک گئے انہیں نہ ملی مسلمان عورتوں کو آزادی مل گئی۔ سورجوا
مل گیا۔ برقعہ اوڑھے ہیں۔ نقاب کھلی ہے۔ مٹکتی ہوئی چلی جا رہی ہیں۔‘‘
عورتیں بھی دور سے انہیں پہچان لیتی تھیں:
’’ ہادی بھائی آرہے ہیں۔ہادی بھائی آرہے ہیں۔‘‘
اور نقابیں جلدی جلدی گرنے لگتی تھیں۔ ویسے انہوں نے کبھی بے پردا خاتون پر فقرہ نہیں کسا۔ ان
کا شکار صرف وہ خواتین ہوتی تھیں، جو رشتہ دار تھیں اور برقعہ اوڑھتی تھیں مگر چہرہ کھولے رکھتی تھیں۔
گر کے اندرونی حصہ میں میری دادی اور چچی کی حکمرانی تھی۔ ہر کام ان کی مرضی سے ہوتا تھا۔ مگر باہر
کے حصہ میں مصباح چچا اور نوکروں کا راج تھا۔ ایک کمرے میں انہوں نے اپنا چھوٹا سا دفتر بنا رکھا تھا، جہاں
صبح نو بجے سے لوگ اپنے کاموں کے لئے آتے تھے۔ انہیں پہلے سے وقت لینے کی ضرورت مہیں ہوتی تھی۔
ایک بڑا سا ہال ملاقاتیوں کے لئے مخصوص تھا۔ وہاں کبھی کبھی شعر و شاعری کی نشستیں بھی منعقد ہوتی تھیں۔ جن
میں زیادہ تر سرکاری افسروں کو مدعو کیا جاتا تھا ۔ کبھی کبھی جعفر علی خاں اثر، آنند نرائن مُلّا، سراج لکھنوی، نہال
رضوی، ہزار لکھنوی اور شارب لکھنوی وغیرہ کے اشعار بھی گونجتے تھے۔ یہ نشستیں عام مشاعروں کی طرح رات
رات بھر نہیں چلتی تھیں۔ رات کے نو دس بجے تک شعراء واپس جا چکے ہوتے تھے اور ہمیں کھانے پر مصباح چچا
سے حافظ، خیام، میر، غالب اور اقبال کے لاتعداد اشعار اور رحیم، کبیر اور تلسی داس کے دوہے سننے کو ملتے تھے۔
انہیں اس بات کا ملال تھا کہ حافظہ اچھا ہونے کے باوجوود کبھی کوئی مصرعہ موسزوں نہیں کر پائے تھے۔ حالانکہ
ان کے بیان کے مطابو ان کے چھوٹے بھائی وہاج الدین، جنہیں ہم ننھے چچا کہتے تھے، اچھی شاعری کرتے
تھے۔
مجھے اس قسم کی نشستوں میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ افسرانہ ماحول مجھے کاٹتا تھا۔ میرا زیادہ تر وقت طلباء
کے جلسے جلوس اور نعرہ بازی نیز شہر کے مختلف حصّوں میں ادبی و ثقافتی جلسے کنے اور ریڈیو و اسٹیج پرڈرامے کھیلنے
میں صرف ہوتا تھا۔ نظریاتی طور پر ہم دونوں میں کافی فرق تھا۔ وہ ایک متقی، پرہیزگار، عبادت گذار، نماز
روزے کے پابند اور سیاست سے دور رہنے والے انسان تھے اور میں اشترااکیت و سماجی انصاف کا طلبگار۔
مگر انہوں نے کبھی اپنے خیالات میرے اوپر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ بس اتنا کہتے تھے کہ بیٹا اپنی تعلیم سے
غافل نہ ہونا۔ ان کی اسی ادا نے میرا دل میں ان کے لئے احترام کو اور دوبالا کر دیا تھا۔
سن پچاس کے درمیانی عرصے میں مصباح چچا ریٹائر ہو گئے۔ گھر کا ایک بڑا حصّہ ان سے لے کر کسی نگم
صاحب کو دے دیا گیا۔ چند برس بعد میری دادی بھی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔گھر کا شیرازہ بکھر گیا۔
کتّو چچا اب اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے۔ حسنو بھائی جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
سیلس ٹیکس افسر ہو گئے تھے اپنی والدہ اور بہن کو لے کر لکھنئو سے باہر چلے گئے۔ نظام چچا ہجرت کر کے پاکستان
چلے گئے۔ میں بننے بھائی (سجّاد ظہیر) کے ساتھ مل کر ہفتہ وار عوامی دور نکالنے کے لئے دلّی چلا گیا اور وہاں سے
دوسال بعد جرمنی چلا آیا۔
مصباح چچا کا بڑا بیٹا سلیم ڈاکٹری پڑھنے کے بعد نیو یارک چلا گیا اور وہاں سے کناڈا جا کر ایک بڑے
اسپتال سَنی برُک ہاسپٹل میں دلی امراض کے ماہر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ بڑی لڑکی سلمہ شادی کے بعد اپنے
شوہر اقبال حسن علوی کے ساتھ بغداد چلی گئی، جہاں اس کے شوہرکو یونیورسٹی میں سائنس کے مضامین پڑھانے کی
ملازمت مل گئی تھی۔ کچھ سال بغداد اور سلیمانیہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے بعد سلمہ اور اقبال اپنے دو بیٹوں
سعید اور مسعود کو تعلیم کی غرض سے لکھنئو میں نانا اور نانی کے پاس چھوڑکر نائجیریا چلے گئے اور وہاں پڑھانے لگے۔
چھوٹے بیٹے سلمان کو میں نے جرمنی میں اپنے پاس بلا لیا ۔ وہ لائپزگ میں چھپائی انجینئیر کی تعلیم حاصل کرنے
لگا۔ بعد میں ہندوستان لوٹ کر اس نے ہردوار کے الکٹرانک کارخانے بھیل BHEL میںجرمن زبان میں
ترجمان کی حیثیت سے ملازمت کر لی ۔ مصباح چچا کی چھوٹی بیٹی صبیحہ کی بھی شادی ہو چکی تھی۔ اس کے شوہر شمس
الدین (شمّو) میونسپلٹی ہی میں کام کرتے تھے اور چار چھوٹے چھوٹے مونا، شیخو، سُمنا اور سیف گھر میں پھدکتے
رہتے تھے۔
میں جب بھی لکھنئو جاتا بنگلہ نمبر ۱ یک میں ہی قیام کرتا۔ میرے چچا اور چچی کے اصرار پر میری والدہ کو بھی
وہیں ٹھہرنا پڑتا۔ میری چچی جنہیں میں چچی امّاں کہتا تھا دَمے کی شکار تھیں۔ مصباح چچا کافی پریشان رہتے تھے۔ وہ
دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ میں نے ان دونوں میں کبھی کھٹ پٹ ہوتے نہیں دیکھی تھی۔ ہمیشہ ان کے
چہروں پر مسکراہٹ اور نرمی پائی تھی۔ کبھی کسی نوکر تک پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ مصباح چچا نے اپنی بیوی کی
کبھی دل آزاری نہیں کی۔ میری والدہ کبھی کبھی چچی اماں کو اللہ میاں کی گائے کہا کرتی تھیں۔
ایک دن مجھے تار ملا کہ چچی امّاں اس دنیا میں نہیں رہی ہیں۔ ان کا معصوم بھولا چہرہ نظروں کے سامنے
گھوم گیا۔ ان کی نصیحتیں اور پیار بھری باتیں یاد آنے لگیں۔ بعد میں جب میں اپنی اہلیہ انگرڈ اور بیٹی نرگس کو لیکر
تعزیت کیلئے لکھنئو پہنچا تو مصباح چچا بُجھے ہوئے نظر آئے۔ بات بات پر آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ گھنٹوں
اپنے کمرے میں بیٹھے قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی کرسی پر بیٹھے، قرآن شریف پر جھکے ہوئے سو
جاتے تھے۔ ماتھے پر پڑا ہوا سجدہ کا نشان اور زیادہ اُبھر آیا تھا۔ البتّہ انہیں اس بات کا فخر تھا کہ میں اتنی دور سے
تعزیت کے لئے آیا ہوں۔ اس کا اظہار اکثر وہ دوسرے رشتہ داروں اور ملاقاتیوں کے سامنے کرتے تھے۔
ہملوگ گھنٹوں چچی اماں کی خوبیوں کو یاد کرتے رہتے ۔ میری والدہ (امّی) بتا تیں:
’’ جانتے ہو، ایک دن بھابی نے میرا ہاتھ پکڑ کر کیا کہا۔ بولیں:
’’ قمر جہاں، بتائو میرے کتنے بیٹے ہیں؟‘‘
میں نے کہا، بھابی ماشہ اللہ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اللہ کے فضل سے چاروں خوشحال ہیں۔
کہنے لگیں: ’’غلط، میرا بڑا بیٹا عارف جرمنی میں ہے۔‘‘
امی کہتی تھیں، یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کیونکہ یہ میری چچی کا آخری وقت تھا۔
’’آپ ٹھیک کہتی ہیں بھابی ، عارف آپ ہی کا بیٹا ہے۔‘‘
میری تعطیلات ختم ہو گئی تھیں۔ میں رخصت ہو رہا تھا۔ مصباح چچا نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ ان کی
آنکھوںسے بے تحاشہ آنسو جاری تھے۔
’’ بیٹا، میرا کہا سنا معاف کرنا۔ اگر کبھی دل آزاری ہوئی ہو۔۔۔میں تمہارے لئے کچھ نہ کرسکا۔ میں
شرمندہ ہوں۔ بیٹا، زندگی کا بھروسہ نہیں۔ میرے بعد میرے بچّوں کو نہ چھوڑنا۔ کبھی الگ نہ ہونا۔ ‘‘
’’ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مصباح چچا۔ آپ کا سایہ بہت دن قائم رہے گا۔ آپ فکر نہ کیجئے۔ میں
جلد آئوں گا۔‘‘
’’ بیٹا دسمبر تک ضرور آجانا۔‘‘
میری کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ دسمبر تک آنے کی تاکید کیوں کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے دسمبر کا مہینہ گزر گیا اور میں لکھنئو نہ جا سکا۔ جنوری کا مہینہ شروع ہوا ہی تھا کہ مجھے لکھنئو سے
صبیحہ کا تار ملا: ’’ ابّا نہیں رہے۔‘‘
مصباح چچا کے الفاظ کانوں میں گونج گئے:
’’ بیٹا زندگی کا بھروسہ نہیں، دسمبر تک ضرور آجانا!‘‘
ان کا نورانی چہرہ نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔دُبلا پتلا چھریرا جسم، درمیانی قد، سانولی رنگت، چہرہ
پر نورانی سفید ڈاڑھی، ماتھے پر سجدے کا نشان، کرخت آواز مگر موم سا دل۔ کبھی اچکن اور علیگڑھ کٹ پائجامے
میں ملبوس ٹوپی لگائے ڈرئیو ظہورر بھائی کی امامت میں گھر پر گھنٹوں تراویح پڑھتے ہوئے۔ کبھی گھنٹوں اپنے
کمرے میں قرآن شریف کی تلاوت میںمصروف اور کبھی رات کو کھانے کی میز پر حافظ، سعدی، خیّام، میر اور
غالب کے اشعار اور کبیر، رحیم اورتلسی داس کے دوہے سناتے اور ان کی تشریح کرتے ہوئے۔
مصباح چچا ج اپنے سبھی نوکروں کی قدر کرتے تھے۔ اپنے خاص اردلی رمضان کو تو وہ ہمیشہ
اپنے ساتھ دوسرے شہروں میں کانفرنسوں میں لے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار مصباح چچا ایک سرکاری
کانفرنس میں شرکت کے لئے کلکتّہ گئے تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ کانفرنس کے بعد وہ لکھنئو واپس آرہے تھے۔
وہ ٹرین مین فرسٹ کلاس میں بیٹھے تھے۔ ان کا اردلی رمضان تھرڈ کلاس کے ڈبّے میں تھا۔ (ان دنوں ٹرین میں
فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کلاس ہوا کرتے تھے)۔ مصباح چچا کی ساری رقم رمضان کے پاس تھی۔ اس کی جیب کسی
نے ہوڑا اسٹیشن پر کاٹ لی اور ساری رقم لے اڑا۔ اب مصباح چچا ٹرین میں بیٹھے ہیں۔ آس پاس بیٹھے لوگ
کھانا کھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ شام کو اپنا روزہ کھول رہے ہیں۔ مگر مصباح چچا اور رمضان سادے پانی سے روزہ
کھول رہے تھے۔ دوسرے دن بھی بغیر سحری کھائے روزہ رکھا۔ عام طور سے وہ اپنے واپس آنے کی پہلے سے
اطلاع دے دیا کرتے تھے اور گھر سے کار انہیں لینے کے لئے اسٹیشن پر پہنچ جاتی تھی ۔لیکن اب ان کے پاس فون
کرنے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔ خودداری کا یہ حال تھا کہ کسی دوسرے مسافر سے اپنی حالت کا ذکر نہیں کریں
گے۔
دوپہر کو اچانک گھر پر ایک ٹانگہ آکر رکا ۔ دیکھا اس میں سے مصباح چچا اور رمضان اتر رہے ہیں:
’’ بیگم، ٹانگے والے کو پیسے بھجوا دو۔‘‘ انہوں نے چچی امّاں سے کہا اور پھر ہم سب کو اپنی داستان سنائی۔
یہ اور ایسی ہی نہ جانے کتنی باتیں تھیں جو یاد آرہی تھیں۔
وہ مجھے برابر پابندی سے خط لکھا کرتے تھے۔ ایک بار کئی ہفتوں تک ان کا خط نہیں آیا۔ میں نے نہ
جانے کیوں انہیں لکھ دیا:
’’آپ کا خط بہت دنوں سے نہیں آیا۔ معلوم ہوتا ہے آپ مجھ سے کچھ ناراض ہیں۔‘‘ جواب میں انہوں
نے کئی صفحوں کا خط لکھا:
’’ بیٹا، میں تم سے کیسے ناراض ہو سکتا ہوں۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب میں تمہارے اور نرگس (میری بیٹی)
کے لئے دعا نہ مانگتا ہوں۔‘‘
آج بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔ میں جرمنی آنے کے بعد سے کئی بار خطرات
سے گزر چکا ہوں۔
کافی دنوں کی بات ہے۔ میں ان دنوں برلن میں ہمبولٹ یونیورسٹی کی ٹیچری چھوڑکر ریڈیو پر اڈیٹر کی حیثیت
سے کام کر رہا تھا۔ساتھ ہی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کا یہاں پر نمائندہ تھا۔ سارا دن دوڑبھاگ میں اور
رات رات بھر مضامین لکھنے میں کٹ جاتی تھی۔ میرے سر میں درد رہنے لگا۔ ڈاکٹروں کو شک ہوا کہ میرے دماغ
میں پھوڑا ہے۔ آپریشن کرنا ہو گا۔ چنانچہ مجھے دو مہینے تک اسپتال میں رکھ کر اچھی طرح معائنہ کیا گیا۔ کمپیوٹر ٹومولوجی،
نیوکلیر میڈیکل ٹسٹ، پنکچرنگ وغیرہ، جن کے نام بھی میں نے پہلے نہیں سنے تھے، کے سبھی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
آخر میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے کوئی خاص شکایت نہیں ہے۔ بس خون کے دبائو میں کچھ کمی ہے اور چشمے کی
ضرورت ہے۔ مجھے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ورزش کروں اور کھیلوں میں حصّہ لوں۔ ساتھ ہی خون کا دبائو
ٹھیک کرنے کے لئے فولیڈرین نامی ایک دوا لکھ دی گئی اور ہدایت کی گئی کہ دن میں تین بار اس کا استعمال کروں۔
میری دانست میں اس کے مطلب تھے کہ صبح، دوپہر اور شام کو ایک ایک گولی کھائوں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ راتوں کی
نیند غائب ہو گئی۔ جب میں نے ڈاکٹر سے شکایت کی تو اس نے فائوسٹان نامی ایک دوا مجھے لکھ دی۔ اب
اسے کھانے کے بعد ہر وقت غنودگی سی رہنے لگی۔ سنیچر کا دن تھا میں صبح ریڈیو اسٹیشن پہنچا، جہاں مجھے خبریں
تیار کرکے لائف براڈکاسٹ کرنی تھیں۔ ریڈیو اسٹیشن کافی سنسان لگ رہا تھا۔ تعطیل کی وجہ سے بہت کم لوگ
آئے تھے۔ میں اپنے شعبے میں اکیلا تھا۔ میں نے صبح کی خبریں تیار کرکے دس منٹ کا بلیٹن پڑھا۔ ایک
کمنٹری تیار کرکے پڑھی۔ پھر ساڑھے بارہ بجے، ڈھائی بجے اور چار بجے کی خبریں پڑھیں اور گھر جانے
کے لئے اپنی چیزیں بٹورنے لگا، کہ نیند کا غلبہ حاوی ہو گیا۔ میں نے سوچا یہ لو بلڈ پریشر کا اثر ہے۔ چنانچہ
فولیڈرین کی ایک گولی منہ میں ڈال لی۔ اس کے بعد میں نے ٹکنیشین کو کچھ ہدایتیں دیں۔ ڈیوٹی افسر کو خدا
حافظ کہاجس نے میری خبروں کے بلیٹن پر بغیر انہیں پڑھے دستخط کردئے تھے اور ریڈیو اسٹیشن کے باہر نکل
کر اپنی یٹل کار میں بیٹھ گیا اور اس کا موٹر آن کردیا۔ اچانک میرا سر چکرایا۔ کار ایک کھمبے سے لڑی۔ کھمبا
ٹیڑھا ہو گیا۔ مگر مجھے خراش تک نہ آئی۔ ایسا لگا جیسے کسی غیبی طاقت نے سہارا دیا ہو۔ مجھے اپنی دادی، اپنی امّی،
مصباح چچا، چچی امّاں اور سعدیہ آپا کی دعائیں یاد آگئیں۔
ایک بار برلن کی دیمیتروف نامی سڑک پر میری آئوڈی کار ایک چوراہے پر ٹرام لائن کراس کرنے
کے لئے کھڑی تھی۔ دوسری طرف سے گاڑیوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ میں نہ آگے جا سکتا تھا نہ
پیچھے۔اچانک ایک ٹرام نے میری کار کے پچھلے دروازے پر ٹکر ماری۔ دروازہ ٹوٹ گیا۔ کار میں گہرے
گڑھے پڑ گئے لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی۔
ایک بار میں ایک پریس کانفرنس میں شرکت کے لئے ڈریسڈن گیا تھا اور واپس لوت رہا تھا۔
رات کے دو بج گئے تھے۔ میں دن بھر کی تھکن سے چور تھا۔ میری مرسیڈیس کار ہائی وے پر سوا سو کلومیٹر کی
ٍ رفتار سے ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔آگے پیچھے کوئی دوسری گاڑی نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے سمندر میں کوئی
جہازتنہا چلا جا رہا ہے۔ مجھے غنودگی محسوس ہونے لگی۔ کئی بار میں نے اپنے گالوں پر طمانچے مارے، ہاتھوں
میں چُٹکیاں کاٹیں، بال نوچے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایک لمحے کے لئے میری آنکھیں جھپک گئیں۔
اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے آنکھوں کے سامنے سرچ لائٹ رکھ دی ہے۔ میری آنکھ یں کھل گئیں۔
کار ایک بڑے سے نیلے سائن بورڈ کی طرف بڑھ رہی تھی، جس پر بڑے بڑے حروف چمک رہے تھے اور
ان کی چمک میری آنکھوںپر پڑ رہی تھی۔
ایک واقعہ اور یاد آرہا ہے۔ مغربی جرمنی کے چانسلر (وزیر اعظم) ہلموتھ اشمتھ مشرقی جرمنی کے
صدر ایرش ہو نیکر سے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ برلن سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جھیل
کے قریب ہونیکر کی شکارگاہ کے مہمان خانے میں دونوں کی ملاقات ہو رہی تھی۔ میں جرنلسٹ کی حیثیت
سے وہاں گیا ہوا تھا اور کافی رات گئے واپس لوٹ رہا تھا۔ برف کی ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں۔ میں
چاہتا تھا کہ اس سے قبل کہ نیند کا غلبہ بڑھے گھر پہنچ جائوں۔ اس لئے کار کی رفتا بڑھا دی تھی۔ اچانک میں
نے محسوس کیا کہ سڑک پر پھسلن بڑھ گئی ہے۔ مجھے رفتار کم کر لینی چاہئے۔ غیر ارادی طور پر میرا پیر بریک
کے پیڈل پر پڑا۔ کار لٹّو کی طرح سڑک پر گھوم گئی۔ اتفاق سے آگے پیچھے کوئی دوسری کار نہیں تھی۔ میں نے
رفتار پھر بڑھادی اور گاڑی کا توزن ٹھیک ہو گیا۔ اس بار بھی مجھے ایسا لگا جیسے کسی غیبی طاقت نے سہارا دیا ہے۔
اس بار بھی مجھے اپنی دادی، والدہ، چچا، چچی اور دوسرے بہت سے رشتے دار یاد آگئے۔ جن کی دعائیں مجھے
بچپن سے ملتی رہی ہیں اور آج بھی ساتھ ہیں۔
مصباح چچا کی وفات کے بعد گھر کا ماحول بدل گیا۔ ان کی چھوٹی بیٹی صبیحہ دن کو کشمیری محلہ گرلس کالج
میں پڑھانے کے لئے چلی جاتی ۔ شام کو لوٹ کر بچوںکو ہوم ورک کراتی اور گھرداری میں لگ جاتی۔ اس کے
شوہر شمس الدین (شمّو) دن میں میونسپلٹی میں رہتے اور شام کو مجاز کے اشعار سناتے۔ مصباح چچا کے نواسے
سعید اور مسعود اب سیانے ہو گئے تھے اور سینٹ فرانسیس کالج میں پڑھتے تھے۔ وہ اپنے کالج کے سب سے
ذہین اور محنتی طالبعلم مانے جاتے تھے اور سب سے اچھے نمبر پاتے تھے۔ خصوصاً چھوٹا بھائی مسعود جو اب دیکھنے
میں بہت شاندار لگتا تھا، پڑھائی، کھیل اور ڈرامے میں سب سے آگے رہتا تھا اور کالج کا کپتان بنا دیا گیا تھا۔
میں جب بھی لکھنئو جاتا دونوں لڑکے میرے قریب رہتے اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ مجھے
ایسا لگتا جیسے وہ میرے ہی خون کے حصّے ہوں۔ سعید اور مسعود کے والدین ابھی نائجیریا میں تھے۔ مسعود کی
فرمائش پر انہوں نے اسے ایک بڑی سی موٹر سائکل خرید دی تھی۔ وہ اس پر باہر سے آنے والے ہر رشتہ دارکو
لکھنئو کی سیر کراتا تھا۔
برسات کا موسم تھا۔ ہر طرف ہریالی چھائی ہوئی تھی۔ سعید اور مسعود بھی بہت خوش تھے۔ ان کے
والدین اپنے بچّوں سے ملنے کے لئے نائجیریا سے آرہے تھے اور راستے میں تھے۔ وہ اپنے بچّوں کی فرمائش
پر رنگین ٹی وی، جو ان دنوں لکنئو میں آسانی سے نہیں ملتا تھا، اور بہت سے دوسرے تحفے لا رہے تھے۔
ایک دن بارش بہت ہوئی۔ رکشے والا جو صبیحہ کی بیٹیوں کو اسکول لے جاتا تھا ، نہیں آیا۔ مسعود نے
صبیحہ سے کہا: ’’خالہ میں مونا اور سُمنا کو اسکول میں چھوڑ آتا ہوں۔‘‘ پھر وہ دونوں مسعود کے ساتھ موٹر سائکل
پربیٹھ کر اسکول گئیں۔ لامارٹینئر گرلس کالج کے پھاٹک پر انہیں اتار کر مسعود نے انہیں خدا حافظ کہا اور موٹر
سائکل اسٹارٹ کردی۔ ابھی وہ چند گز ہی بڑھا تھا کہ ایک جیپ نے اس کی موٹر سائکل کو ٹکر ماری اور زخمی
لڑکے کو سڑک پر تڑپتا ہوا چھوڑ کر غائب ہو گئی۔ انیس برس کا خوبرو اور ہر دلعزیز لڑکا فوت ہو گیا۔ چکبست روڈ
کے بنگلہ نمبر ایک میں کہرام مچ گیا۔ لاش کو دو دن برف کی سِلوں میں رکھا گیا، مگر اس کے والدین وقت پر نہ
پہنچ سکے۔
تین دن بعد جب سلمہ اور اقبال چارباغ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین سے اترے توہاں پر انہیں لینے کے
لئے مسعود نہیں تھا۔ شاید کالج میں ہوگا۔ انہوں نے سوچا۔ کسی نے انہیں کچھ بتانے کی ہمت نہیں کی۔ گھر پر بھی
مسعود نہیں تھا۔ اداسی کا منظر چھایا ہوا تھا۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔ صبیحہ بتاتی ہے کہ’’ بھائیجان میں باتھ روم میں
چلی گئی تھی۔ سِٹکنی اندر سے بند کر لی تھی۔ میں آپا کو کیا جواب دیتی۔ وہ میرے پاس ان کی امانت تھا۔ میری
بیٹیوںکو اسکول چھوڑنے گیا تھا۔ میں انہیں منہ نہیں دکھا سکتی تھی۔‘‘
پھر کوئی اپنے آنسوئوں اور چیخوں کو ضبط نہ کر سکا۔ سلمہ بیہوش ہوگئی۔ اب اس کو ہوش میں لانے کی
کوششیں ہو رہی تھیں۔
میں جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ گھر میں ویرانگی بڑھ گئی ہے۔نیولے بہت ہو گئے ہیں۔کمروں میں
گھسنے لگے ہیں۔ خوبصورت پھولوں کی کیاریاں اجڑتی جا رہی ہیں۔ ان میں پانی دینے اور گھاس تراشنے کا
کسی کو ہوش نہیں ہے۔ رات کی رانی کا پیڑ جس کے پھول صبح چادر کی طرح زمیں پر بکھرے رہتے تھے اور
ان کی خوشبو سے سارا گھر معطر رہتا تھا، سوکھ گیا ہے۔ گولر کا پیڑ جس کے لئے بچپن میںسنتا تھا، کہ اس پر
پریاں آتی ہیں اور جن پر بیٹھ کر موٹے موٹے بندر خوں خوں کرتے تھے نیز پپیتے اور کیلے کے پیڑ جن سے
ہادی چچا کی یاد تازہ ہو جاتی تھی، لاوارث پڑے تھے۔ ریڈیو، ٹیپ ریکارڈروں کی آوازیں اب نہیں گونجتیں۔
کھانے کی میزپر دوسرے کا انتظار نہیں ہوتا۔ بات بات پر لوگوں کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔
یہ بنگلہ جس میں میں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ جس سے میری خوبصورت یادیں وابستہ تھیں۔ جس
کے چمن میں دوسرے بچّوں کے ساتھ تتلیاں اور گرگٹان پکڑتا تھا۔ بلبل کے گیت سنتا تھا، چمکتے ہوئے جگنوئوں
کو اڑتے دیکھتا تھا، پھر کچھ بڑا ہونے کے بعد بیڈمنٹن اور ربر کی گیند سے کریکٹ کھیلتا تھا۔ یہ بنگلہ جس میں
اپنے دوست عابدسہیل کے ساتھ کیرم اور شطرنج کھیلتا تھا۔ اثر لکھنوی، آنند نرائن مُلّا، نہال رضوی وغیرہ کی
غزلیں سنی تھیں، جہاں کھانے کی میز پر مصباح چچا کی نصیحتیں اور ان سے سعدی، حافظ، خیام، میر، غالب
کے اشعار اور کبیر، تلسی داس اور رحیم کے دوہے سنے تھے۔ یہ بنگلہ جس کے چمن میں ناری شکھشا نکیتن کی
خوبصورت لڑکیوں کی ادئوں سے لطف اندوز ہوتا تھا، اِملی اور سنگھڑی کے پیڑون پر چڑھکر نیچے پھینکا کرتا تھا،
ڈسٹرکٹ بورڈ کے دفتر سے چکوترے اور نارنگیاں توڑ کر لاتا تھا، اندرونی چمن میں برسات کے موسم میں گلنار
کے پیڑ کی ڈال پر جھولا ڈال کر پینگیں لگاتا تھا، گھر کے پچھواڑے نالے کو پھاند کر سنٹینیل اسکول میں جایا کرتا
تھا، اب وہی بنگلہ سب کو کاٹ رہا تھا۔ اس کو چھوڑنے کی باتیںکی جا رہی تھیں۔
پھر واقعی اس بنگلے کو خیرباد کہہ دیا گیا۔ اس بنگلہ کے عوض میونسپلٹی نے صبیحہ کو ایک اور بلڈنگ الاٹ کردی
اور وہ اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ شہر کے گمنام علاقے علی گنج میں منتقل ہوگئی۔ کچھ عرصہ کے بعد سلمہ نے بھی
اسی علاقے میں عثمان انکلیو میں اپنے بچّون کے لئے ایک فلیٹ لے لیا اور پھر علی گنج ہی میں چندر لوک کالونی
میںایک فلیٹ خرید کر اور نائیجیریا سے واپس آکر رہنے لگی۔ علی گنج کا علاقہ خاص شہر سے کچھ دور تھا۔ اس لئے
پرانے رشتے داروں سے رابطہ بھی کم ہو گیا۔ مجھے اس بات سے روحانی تکلیف تھی کہ ان لوگوں نے چکبست روڈ
کے بنگلہ نمبر ۱ کو چھوڑ دیا ہے۔ میں لکنئو میں کہیں اور قیام کا تصور ہی نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنی والد (امّی)
کو لکھ دیا کہ اس بار آپ کے ساتھ پنجابی ٹولے میں ہی قیام کروں گا۔ مگر جب چار باغ اسٹیشن پر پہنچا تو مجھے لینے
کے لئے میری والدہ کے ساتھ صبیحہ بھی وہاں موجود تھی اور کہہ رہی تھی: ’’ بھائیجان، اب ابّا نہیں رہے تو کیا آپ اپنی
بہن کے ساتھ نہیں ٹھہریں گے۔ شمّے (اس کے شوہر) بھی چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ میں آپ کو
کہیں اور نہیں جانے دوں گی۔ ‘‘ پھر وہ میری والدہ سے مخاطب ہوئی: ’’دولھن چچی، کیا آپ لوگ ہمیں چھوڑ دیں
گی؟ آپ بھائی جان کو ہمارے ساتھ ٹھہرنے نہیں دیں گی؟ آپ بھی ہمارے ساتھ ٹھہریں گی۔ آپ ابّا، امّاں کی
وصیت کو بھول گئیں؟ ہم لوگ کبھی جدا نہ ہوں۔‘‘
میری والدہ کو ایک بار پھر ہتھیار ڈالنا پڑے۔ تب سے جب بھی لکھنئو جاتا ہوں، صبیحہ کے گھر پر ہی علی گنج
میں قیام کرتا ہوں۔ کچھ دن پنجابی ٹولے میں والدہ کے پاس یا سلمہ کے گھر پر بھی قیام کر لیتا تھا۔
وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔خاندان میںچند بزرگ رہ گئے ہیں، جن میں میرا بھی شمار
ہونے لگا ہے۔ چند سال قبل میری والدہ بھی ستاسی برس کی عمر میں اس دنیاسے چل بسیں۔ وہ کینسر کی مریضہ
تھیں اور سخت اذیت میںزندگی گزار رہی تھیں۔ کتّو چچا اور نظام چچا بھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اب
کوئی خاندان کے حالات بتانے والا نظر نہیں آتا۔ صبیحہ کے شوہر شمّو بھی اب نہیں رہے۔ ان کی دونوں
بیٹیوں کی شادیاں ہوگئی ہیں۔ وہ سسرال میں ہیں۔ بڑا بیٹا شیخو کویت میں ایک بنک میں ملازم ہے اور
چھوٹا بیٹا ابھی تعلیم حاصل کر رہاہے۔ مصباح چچا کا بڑا بیٹا سلیم کناڈا میں ہی اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ
رہتا ہے ۔ شاذ ونادر ہی لکھنئو آتا ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی سلمان ، جس نے لائپزگ میں تعلیم حاصل کی تھی
اور ہردوار میں الکٹرانک کارخانے BHEL میں کام کرتا تھا، اسکوٹر کے حادثے کا شکار ہو کر چل بساہے۔
اس کی بیوی اب علیگڑھ کے ایک کالج کی پرنسپل ہے۔بیٹی بھی وہیں پڑھتی ہے اور دوچھوٹے چھوٹے بیٹے
بھی وہیں کے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ سلمہ کے شوہر بھی نائیجیریا اور اس کے بعد سعودی عرب میں کچھ
سال ملازمت کرنے کے بعد لکھنئو واپس آگئے ہیں اور علی گنج میں ہی ایک فلیٹ خرید کر اس میں رہنے
لگے ہیں اور وہیں اسکولی بچّوں کی کوچنگ کرتے ہیں۔ ان کا بڑ ا بیٹا سعید جس کی ذہانت پر سب کو ناز تھا ،
اپنے چھوٹے بھائی مسعود کی وفات کے بعد خود بھی اس دنیا کو چھوڑ گیا ہے۔ وہ کمپیوٹر کی تعلیم کے لئے امریکہ
گیا تھا۔ وہاں وائرس کا شکار ہوکر ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے فوت ہو گیا۔ میں نے اسے آخری بار
اس وقت دیکھا تھا جب میں چھٹیوں میں لکھنئو گیا تھا اور وہ امریکہ جانے کی تیاری کر رہا تھا اور اپنے دانت
دکھانے کے لئے میرے ساتھ ایک ڈنٹسٹ کے پاس گیا تھا۔ اس کے بعد دلّی میں اندراگاندھی انٹرنیشنل
ہوائی اڈّے پر اسے رخصت کرتے ہوئے میں نے اسے اپنے سینے سے لگا کر خدا حافظ کہا تھا۔ سلمہ کی دونوں
بیٹیوں سارہ اور عائشہ کی شادیاں ہو چکی ہیں ۔ وہ اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ دوبائی اور سنگا پور میں رہتی
ہیں۔ سب سے چھوٹا بیٹا اسد بھی اب تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوبائی چلا گیا ہے۔ پرانے دوست احباب
میں جو بچے ہیں وہ بھی چراغ سحری ہورہے ہیں۔ مجھے خود بھی اب اس شہر میں وہ آزادی محسوس نہیں ہوتی
جو بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ اب جب بھی میں گھر سے باہر قدم نکالنے لگتا ہوں تو صبیحہ دعائیں پڑھ کر پھونکتی
ہے اور کہتی ہے:
’’ بھائی جان ، باہر کچھ نہ کھائیے گا۔ پانی کی بوتل ساتھ لیتے جائیے۔ یہاں پانی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
اور میں سوچتا ہوں کہ یہ کونسا شہر ہے؟ بچپن میں میں یہاں سڑکوں پر نل سے منہ لگا کر پانی پیا کرتا تھا۔
بھنے چنے چباتا تھا۔لیّا کے پھنکے لگاتا، بھنے ہوئے بُھٹّے کھاتا ، گنڈیریاں کھاتا اور گنّے کا رس پیتا تھا۔
پیڑوں پر چڑھکر اِملیاں، سنگھڑیاں اور جامن توڑتا تھا۔ امین آباد میں سندر سنگھ کے ریستوراں میں چھولے،
نظیر آ باد کے چاند ریستوراں کی پوریاں، نوری ہوٹل اور عبداللہ ہوٹل کے کباب کھاتا تھا ۔ چوک سے ٹنڈے
کباب اور غلام حسین پُل سے بالائی منگاتا تھا۔ مگر اب آزادی سے سڑک پر پانی بھی نہیں پی سکتا۔
’’ بھائی جان باہر کسی ایسے ویسے ریستوراں میں کھانا مت کھائیے گا۔ باہر کا پانی مت پیجئے گا۔‘‘
اچانک ناری شکھشا نکیتن کی گھنٹی بجی۔ لڑکیاں شور مچاتی ہوئی باہر نکلنے لگیں۔ رکشا والے ان کی
ٍ طرف دوڑنے لگے۔ دو سپاہی عدالت کی طرف سے دو قیدیوں کو رسّی سے باندھے آرہے تھے۔ ان کی
بیڑیوں کی جھنکار گونج رہی تھی۔
میں نے حسرت سے بنگلہ نمبر ۱ پر پھر نظر ڈالی۔ اس کے لاوارث چمن کی اجڑی ہوئی حالت کو دیکھ
دل رو پڑا۔ جی چاہا سلاخوں دار پھاٹک کو جھنجھوڑ دوں، چیخنے لگوں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ میں اب اس جگہ
پر اجنبی ہوں۔ لوگ مجھے پاگل سمجھیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں میں چور ہوں، دہشت پسند ہوں، کسی
سازش کے تحت جرمنی سے آیا ہوں۔ مسلمان ہوں، خطرناک ہوں۔ میرے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھر
آئیں۔
میں وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا، کہ ایک آواز نے میرے قدم پکڑ لئے:
’’ بھیّا، آپ ؟‘‘
یہ بھگوان دین تھا۔ ہمارے پرانے مالی کا بیٹا۔ بنگلہ کی پشت پر اندرونی چمن کے پیچھے نالے کے
پاس میرے چچا کے نوکروں کے جو کوارٹر تھے ، انہیں میں سے ایک میں رہتا تھا۔ جس کی ماں کو مصباح چچا
نے میونسپلٹی کے زنانہ پارک میں مالن کی نوکری دلوا دی تھی۔ بھگون دین بھی اب کچھ پڑھ لکھ کر ایک دفتر
میں ملازمت کر رہا تھا:
’’ بھیّا، آپ ہمارے وہاں نہیں آئیں گے؟ ‘‘
’’ کہاں؟‘‘
’’ یہیں پیچھے، نالے کے پاس ، کوارٹر میں۔۔۔‘‘
کچھ دیر بعد میں بھگوان دین کے کوارٹر میں بیٹھا تھا۔ اس کی پتنی گھونگھٹ ڈالے کھانا پروس رہی
تھی اور پوچھ رہی تھی:
’’ بہوجی اور بٹیا کو ساتھ ناہی لائے؟‘‘
میں اس کے دئے ہوئے پیتل کے گلاس سے پانی پی رہا تھا، یہ بھول کر کہ صبیحہ نے کہا تھا:
’’ بھائی جان، باہر کچھ مت کھائیے پیجئے گا۔ بغیر فلٹر ، بغیر اُبلا پانی مت پیجئے گا۔‘‘
بھگوان دین کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ان سے مجھے ایک عجیب روحانی قوت مل رہی تھی۔
٭
(عارف نقوی کی کتاب یادوں کے چراغ سے)
Arif Naqvi
Rudolf-Seiffert-Str. 58
10369 Berlin
Phone: 0049-30-9725036