سپریم کورٹ کا سہارا لیکر شریعت میں مداخلت کی جارہی ہے: گلزار اعظمی
ممبئی: نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کو غیر قانونی قرار دینے والی مشترکہ عرضداشتوں پر گذشتہ پیر کو سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران مرکزی حکومت سمیت لاء کمیشن آف انڈیا، لاء منسٹری آف انڈیا ودیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے کی سماعت پانچ رکنی آئینی بینچ کے سامنے کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ہیں جس کے بعد سے ہی ہندوستان کے غیور مسلمانوں میں بے چینی پائی جارہی ہے اور مسلمان اسے اسلامی شریعت میں مداخلت کرنے کی کوشش قرارد ے رہے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کی موقر تنظیم جمعیۃ علماء ہند جس نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر طلاق ثلاثہ معاملے میں بھی سپریم کورٹ میں سب سے پہلے مداخلت کار کی عرضداشت داخل کی تھی اور آخری دم تک لڑائی لڑی تھی اسکی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے آج ممبئی میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں جلد ہی مداخلت کار کی درخواست داخل کرکے نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کو غیر قانونی قرار دینے والی مشترکہ عرضداشتوں کی سخت مخالفت کریں گے اور اس تعلق سے عمل شروع کیا جاچکا ہے، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے صلاح ومشورہ کیا جارہا ہے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ سات ماہ قبل طلاق ثلاثہ کے معاملے کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی بینچ نے نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کے معاملات کو کنارے رکھ دیا تھا جس کے بعد سے ہی شر پسند عناصر چند نام نہاد مسلم خواتین کو استعمال کرتے ہوئے انہیں نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کو غیر قانونی قرار دینے کے لیئے سپریم کورٹ سے رجوع کرانے کی کوشش کررہے تھے اور انہوں نے اس تعلق سے ایک مشترکہ عرضداشت داخل کی تھی جس پر سماعت کے بعد گذشتہ کل چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اسے کثیر رکنی (پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ ) کے حوالے کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ہیں۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا سہارا لیکر شریعت میں مداخلت کی جارہی ہے جس کی آخری دم تک مخالفت کی جائے گی اور اس کے لیئے جمعیۃ علماء پوری طرح سے تیار ہے نیز نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج اسلامی شریعت کے اجزاء میں داخل ہیں اور مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب قرآن شریف سے ثابت ہیں لہذا اسے بنیادی حقوق اور یکساں حقوق کے نام پر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
واضح رہے کہ مشترکہ عرضداشتوں میں ایک عرضداشت ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے بھی داخل کی تھی جو نریندر مودی کی سربراہی والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رضاکار ہیں ، اشونی کمار نے اپنی عرضداشت میں کہا ہے کہشریعت ایکٹ 1937 کی دفعہ 2؍ جو نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کو قانونی حیثیت دیتا ہے اس کو ختم کردینا چاہئے کیونکہ یہ خواتین کے بنیادی حقوق(آرٹیکل 14,15,21 ) کے منافی ہے۔
نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کو غیر قانونی قرار دینے والی مشترکہ عرضداشتیں جنہیں اشونی کمار اپادھیا ، نفیسہ خان، معلم حسین بن محسن اور سمینہ بیگم نے سپریم کورٹ میں داخل کی ہیں ان تمام کی مخالفت کرنے کے لیئے جمعیۃ علماء نے بھی علیحدہ علیحدہ جواب داخل کرنے کا عمل شروع کردیا ہے اور اگلے چند ایام میں اس تعلق سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔