متنوع صفات اور شش جہات شخصیت کے مالک تھے امیر خسرو :پروفیسر علیم اشرف
لائف گیٹ ہیومن سوسائٹی کے تحت دوروزہ سیمنار ’’امیر خسرو ایک ہندستانی :ہمہ گیر شخصیت ‘‘ کا آغاز
لکھنؤ۔24فروری۔ہندستان کی تاریخ میں امیر خسرو ایک ایسا نام ہے جس کی طرح عالی دماغ کو ئی نہیں ہوگا ۔ایک ہی وقت میں وہ ہر محاذ پر کامیابی کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔علم و ادب سپاہ گری اور دربار ہر جگہ امیر خسرو میر میر محفل اور میر کارواں نظر آتے ہیں ۔یہ باتیں آج ریجنل سائنس سٹی علی گنج لکھنؤ میںپرو فیسر علیم اشرف خاں ،شعبہ فارسی دہلی یونیورسٹی نے کہیں ۔ انہوں نے لائف گیٹ ہیومن سوسائٹی کے تحت ہونے والے دوروزہ سیمنار بعنوان’’امیر خسرو ایک ہندستانی :ہمہ گیر شخصیت ‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ دے رہے تھے ۔انہوںنے کہا کہ امیر خسرو متنوع صفات اور شش جہات شخصیت کے مالک تھے ۔ان کو اپنے دور کا چلتا پھر تا انسائیکلو پیڈیا کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ان کی تخلیقات میں اس دور کی جھلکیاں صاف طور پر دکھائی دیتی ہیں ،وہ جہاں فن سپاہ گری اور حرب و ضرب کے ماہر تھے وہیں وہ راگ راگنیوں کے بھی موجود ہیں ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امیر خسرو کی شخصیت میں کس قدر تنوع ہے ۔ان کو دہلی سے حد درجہ محبت تھی ،ان کی مثنویوں میں دہلی چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے ۔پروفیسر علم اشرف نے امیر خسرو کی علمی و ادبی فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندستان کی تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہیں جن کے یہاں علم و ادب اور آرٹ کا ار قدر تنوع ہے ۔
مہمان ازازی کے طور پر شرکت کرتے ہوئے پروفیسر عارف ایوبی استاد شعبہ فارسی و چیئر مین فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی نے امیر خسرو کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی دالی ۔انہوںنے کہا امیر خسرو ہمہ جہت شخص تھے وہ نثر نگار بھی تھے ،اور غزل گو بھی ،وہ صوفی بھی تھے اور درباری بھی ،وہ سیاسی شخص بھی تھے اور سپاہی بھی ۔بیک وقت ان میں کئی خصوصیات جمع تھیں ۔انہوںنے امیر خسرو کی حب الوطنی سے متعلق کہا کہ جس طرح سے وطن سے محبت کا اظہار ان کی شاعری خاص کر گیتوں میں موجود ہے وہ زمانہ قدیم کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ہے ۔امیر خسرو نے ملک کے طول و عرض کا سفر کیا تھا اس لئے وہ ملک کے تنوع ،سماجی و ثقافتی رویوں سے واقف تھے جن کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں خوب کیا ہے ۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے انداہ جاتا ہے کہ اس وقت کس طرح کا سماج تھا اور ان کے کیا تہذیبی و ثقافتی رویے تھے۔
مہمان ذی وقار ڈاکٹر راج مہروترا ،پروجیکٹ انچارج ریجنل سائنس سٹی لکھنؤ نے امیر خسرو کے گیتوں میں ارضیت پر سیر ھاصل گفتگو کی ۔انہوںنے کہا کہ ان کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔آج جو موسیقی ہے خاص طور سے فولک موسیقی امیر خسرو کی دین ہے ۔مسٹر مہروترا نے کہا کہ آلات موسیقی کی ایجاد میں امیر خسرو کا بڑا کردار ہے ،جسے ہمیں کسی صورت فراموش نہیں کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے ہمیں خوشی و انبساط کے مواقع فراہم کئے ہیں ۔انہوںنے امیر خسرو کے ہندوی کلام پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے محاسن بھی اجاگر کئے۔
مہمان خصوصی پروفیسر سید اختر حسین (جے این یو)نے امیر خسرو کو پہلا ہندو مسلم اتحادکا علمبردار شاعر قرار دیا ۔انہوںنے کہا کہ امیر خسرو کی شاعری ہندو مسلم اتحاد کے پیغام سے بھری پڑی پڑی ہے ،ااج جب یہاں رہنے والی دونوں قومیں منافرت کی آگ میں جل رہی ہیں ایسے میں ہمیں امیر خسرو کے کلام کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔امیر خسرو کی عملی زندگی خود اسی اتحاد کی عملی تفسیر ہے ۔انہوںنے کہا کہ بسنت کا میلہ کیا ہے اور مسلمانوں میں اس کا رواج کیسے ہوا اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پروفیسر اختر حسین نے کہا کہ امیر خسرو سیکولر ہندستان کی فکر عطا کرنے والے شاعر ہیں اور ان کو اسی طور سے جانا بھی جانا چاہئے ۔اننہوں نے کہا کہ امیر خسرو کی شاعری جذبات اور دل کی شاعری ہے جو سامع کے کانوں میں رس گھول کر دل میں اترتی چلی جاتی ہے ۔ان کی شاعری میں یہ گوشہ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
بیدل شناس کے کے لقب سے معروف ڈاکٹر سید احسن الظفر سابق استاد شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں میں کہا کہ امیر خسرو کی متنوع شخصیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیک وقت صوفی شاعر بھی تھے اور درباری بھی ،وہ روحانی مقام پر بھی فائز ہو کر محبوب اولیا کے لقب سے سرفراز تھے وہیں دربار اور اس وقت کی سیاست میں میں بھی اثر و رسوخ کے مالک تھے ،ان کی شخصیت پر جتنی بھی گفتگو کی جائے کم ہے کیونکہ امیر خسرو نام ہی ایسی شخصیت کا ہے جس کا اھاطہ بڑا مشکل ہے۔انہوںنے کہا کہ امیر خسرو کی پیدائش پٹیالی اتر پردیش کی ہے ،ایسے میں اتر پردیش کی راجدھانی میں ان کی ہمہ گیر شخصیت پر سیمنار ہونا بڑی خوشی کی بات ہے اور ان کو بہترین خراج عقیدت ہے۔ڈاکٹر احسن الظفر نے کہا کہ نئی نسل کو امیر خسرو کی شخصیت اور اس کے سبھی پہلوؤں سے واقف کرانا بہت ضروری ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ سیمنار اس میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔
اس سے قبل سیمنار کا آغاز محمد خبیب ریسرچ اسکالر شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے تلاوت کلام پاک سے کیا جس کے بعد ڈاکٹر ارشد القادری استاد شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ۔انہوں نے آئے ہوئے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے موضوع کا تعارف کرایا اور امید ظاہر کی کہ اس سیمنار سے امیر خسرو کے بہت سے مخفی گوشے سامنے آئیں گے ۔ڈاکٹر ارشد القادری نے مہمانوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امیر خسرو آج بھی اپنے دور کی طرح مقبول و محبوب ہیں ۔جبکہ سیمنار کا انعقاد کرانے والی سوسائٹی ’’لائف کیئر ہیومن سوسائٹی ‘‘ کا تعارف کرن ورما کریٹیو آرٹسٹ ریجنل سائنس سٹی نے پیش کیا ۔انہونے بتایا کہ یہ سوسائٹی غریب بچوں کی مفت تعلیم اور دیگر سماجی خدمات میں مصروف ہے ۔انہوںنے کہا کہ سرکاری کی متعدد اسکیموں کو عوام تک پہنچانے میں تنظیم نمایا کردار ادا کر رہی ہے تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔انہوںنے کہا سوچھ بھارت ابھیان ،بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم میں نمایاں کردار ادا کرکے لوگوں کو اس سے ہم مستفید ہونے میں تعاون کر رہے ہیں ۔اسی طرح سوسائٹی کے تحت ایک انسٹی ٹیو ٹ بھی قائم ہے جس میں بچوں کو انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔انہوں نے تعارفی تقریر میں مستقبل کے منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی ،جس کے مطابق یہ سوسائٹی سماجی خدمات خاص طور سے تعلیمی میدان میں نمایا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔
سیمنار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پر سیمنار کے ڈائریکٹر اور لائف کیئر ہیومن سوسائٹی کے سکریٹری محمد رضوان الحسن نے مہمانوں کی شکریہ ادا کیا ۔
پہلے تکنیکی سیشن کی صدارت پروفیسر علیم اشرف ،دہلی یونیورسٹی اور پروفیسر پردیس منوچہر نے کی ۔جس میںپروفیسر عمر کمال الدین ،شعبہ فاررسی لکھنؤ یونیورسٹی نے ’’قران السعدین کے ایک قلمی نسخہ کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ راج شاہی یونیورسٹی بنگلہ دیش نے اپنا مضمون ’’نظامی گنجوی اور امیر خسرو کے خمسہ کا تقابلی مطالعہ ‘‘ پیش کیا ،جبکہ ڈاکٹر آسیہ ذبیح نیا عمران ،پیام نور یونیورسٹی ،تہران نے ’’ امیر خسرو کے خمسہ کا ایک تحقیقی جائزہ ،پروفیسر ابولکلام سرکار ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش نے ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود امیر خسرو کے دیوان کے ایک خطی نسخہ کا تعارف ‘‘ پیش کیا۔
دوسرے تکنیکی سیشن کی صدارت پروفیسر اختر حسین اور ڈاکٹر آسیہ ذبیح نیا عمران نے کی ،جس میں ڈاکٹر نکہت فاطمہ ،استاد مولانا آزاد اردو یونیورسٹی لکھنؤ سینٹر نے ’’امیر خسرو اور نظام الدین اولیا،ڈاکٹر ماندانہ مانگلی اسلامک آزاد یونیورسٹی جنوبی شاخ تہران نے ’’امیر خسرو کی ہشت بہشت اور ہفت پیکر کا فارسی میں مقام و مرتبہ ‘‘پروفیسر پردیس منوچہر ،جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکہ نے ’’لیلی مجنوں کی دور حاضر میں معنویت ‘‘ڈاکٹر شبیب انور علوی اسسٹنٹ پروفیسر لکھنؤ یونیورسٹی نے’’ امیر خسرو کی عرفانی شاعری‘‘ پر اپنے مقالے پیش کئے۔نظامت محمد خبیب صدیقی ریسرچ اسکالر شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے کی۔