بابری مسجد مقدمہ میں ایڈوکیٹ راجیو دھون ہی کریںگے جمعیۃ علماء کی نمائندگی
بابری مسجدمقدمہ میں جمعیۃ کی نمائندگی کرنے کے لیئے چیف جسٹس سے اجازت طلب کی
نئی دہلی : بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل کی گئی اپیل پر بحث کرنے کے لیئے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے آمادگی کا اظہار کیا ہے اورانہوں نے اس تعلق سے چیف جسٹس آف انڈیا سے اجازت طلب کی ہے کیونکہ ۵؍ دسمبر کی عدالتی کارروائی کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے وکالت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا تھا اورانہوں نے اس تناظر میں چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشراء کے نام ایک تحریر ارسال کرکے ان سے اجازت طلب کی تھی ۔
دفتر جمعیۃ علماء ہند سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر راجیو دھون کے اچانک وکالت سے دستبردار ہوجانے کے بعد سے جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول ڈاکٹر راجیو دھون کے مسلسل رابطہ میں تھے اور اس تعلق سے انہیں درخواست بھی کی گئی تھی کہ وہ معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کریں کیونکہ بابری مسجد مقدمہ کے تعلق سے ڈاکٹر راجیو دھون کا مطالع بہت وسیع اور اور نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک وہ مسلم جماعتوں بالخصوص جمعیۃ علماء کی جانب سے پیش ہوتے رہے ہیں ۔
آج ڈاکٹر راجیو دھون نے جمعیۃ علماء کی درخواست قبول کی اور انہوں نے اس تعلق سے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشراء سے گذارش کی ہے کہ وہ انہیں بابری مسجد مقدمہ کی سماعت میں حسب سابق حصہ لینے کی اجازت دیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ ۵؍ دسمبر کو بابری مسجد مقدمہ کی سماعت کے دوران مسلم جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون، کپل سبل، دشن دوے ودیگر نے عدالت کی جانب سے مقدمہ کی حتمی بحث کا آغاز کیئے جانے کی مخالفت کی تھی اور جب عدالت معاملہ کی سماعت شروع کیئے جانے پر بضد تھی جس کے بعد سینئر وکلاء نے واک آؤٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسی دوران چیف جسٹس اور ڈاکٹر راجیو دھون اور دیگر کے درمیان گرما گرم بحث ہوگئی تھی جس کے بعد عدالت کے رویہ سے دل برداشتہ ڈاکٹر راجیو دھون نے وکالت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا تھا ،خیال رہے کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ ء کی شب میں بابری مسجد میں مبینہ طور پر رام للا کے ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیراحمدفیض آبادی ؒ اور جنرل سکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوریؒ نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا تصفیہ سال ۲۰۱۰ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیا گیاتھا متذکرہ فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر ۵؍ دسمبر کو سماعت عمل میں آئی تھی۔