حضرت عبد القادر جیلانی ؒ کی بزرگی وکمالات
سید جنید اشرف کچھوچھوی
حضرت عبد القادر جیلانی ؓ اللہ کے بہت بڑے ولی ہیں ۔ اگر یوں کہیں کہ آپ سارے ولیوں کے پیر ہیں ۔ تو کہنا غلط نہ ہو گا ۔ اسی لئے آپ کو پیران پیر بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ کی یوم پیدائش 17 مارچ 1078 کو بمطابق 29 شعبان 470 ہجری عراق میں ہو ئی ۔ آپ کا پورا نام سید محی الدین ابو محمد عبد القادر گیلانی الحسنی و حسینی ۔ آپ کا لقب غوث اعظم ۔ آپ کے والد نام ابو صالح جنگی دوست ؒ آپ کی والدہ کا نام سیدہ فاطمہ ؒ ہے ۔ آپ کے والد کا انتقال آپ کے کم عمری میں ہی ہو گیاتھا ۔ آپ کی پرورش آپ کے نانا عبد اللہ سومعی ؒ نے کی ۔ آپ حسنی سید ہیں ۔ آپ سلسلہ قادریہ کے بانی ہیں ۔ آج اس سلسلے کی دنیا بھر میں چالیس شاخائیں ہیں ۔ آپ پیدائشی اٹھارہ پارہ کے حافظ تھے ۔ اس سلسلے میں جب آپ کی والدہ سے پو چھا گیا کہ آپ کا بیٹا اٹھارہ پارہ کا ہی حافظ کیوں ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے اس درمیان اٹھا رہ ہی پارے کی تلاوت کی تھی ۔ آپ کی پیدائش کے وقت چاند کے مسئلہ میں اس وقت کے علماء میں اختلاف ہو گیاتھا ۔ کچھ علماء کا کہنا تھا کہ چاند انتیس کا ہے ۔ اور کچھ نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ سبھی علماء نے آپس میں مشورہ کیا کہ آل رسول ابو صالح جنگی دوست ؒ کے گھر اولاد پیدا ہو ئی ہے ۔ اگر ان کا بچہ ماں کا دودھ پی لے ۔ تو ہم سمجھ لیں گے ۔ چاند نہیں ہوا ۔ اور اگر نہ پئے تو ہم سمجھیں گے کہ چاند ہو گیا ۔ ان کے گھرجانے کے بعد پتہ چلا کہ سحری کے بعد سے بچہ دودھ نہیں پی رہا ہے ۔ علماء نے اسی کو بنیاد مان کر چاند کا اعلان کر دیا ۔ یہ ہے آل رسول کی شان ۔ غوث اعظم کے تعلق سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب ’’کلمات طیبات ‘‘فارسی صفحہ 78 میں مکتوبات مر ز ا مظہر جان جاناں علیہ الرحمہ کے ایک مکتوب میں ہے ۔ کہ حضرت مرزا مظر جان جاناں ؒ فر ماتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا جس میں بہت سارے اولیا ء اللہ مراقب میں بیٹھے ہیں ۔ اور ان کے درمیان خواجہ نقشبند دو زانوں ، اور حضرت جنید بغدادی تکیہ لگا کر بیٹھے تھے ۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ سب حضرات ایک ساتھ کھڑے ہو چل دئے ۔ میں نے ان سے پو چھا کہ یہ کیا معاملہ ہے ۔ تو ان میں سے کسی نے جواب دیا کہ امیر المو منین حضرت علی مر تضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے استقبال کے لئے جارہے ہیں ۔ آپ حضرت علی کے ہمراہ خیر التابعین حضرت اویس قرنی ؒ بھی ہیں ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک حجرہ شریف ظاہر ہوا ۔ جو بڑا ہی خوبصورت اور دلکش تھا ۔ اور اس پر نور کی بارش ہو رہی تھی ۔ اوریہ تمام باکمال بزرگ اس حجرے میں داخل ہو گئے ۔ میں نے ان سے اس کی وجہ پو چھی تو انہوںنے کہا آج غوث الثقلین حضرت عبد القادر جیلانی ؓ کا عرس گیارہویں شریف ہے ۔ اور یہ ساری ہستیاں عرس پاک میں تشریف لائی ہیں ۔
اسی طرح علامہ تادنی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے ہمراہ مزارات کی زیارت کے لئے گئے ۔ آپ کے ساتھ فقہااور قراء کی ایک بڑی جماعت بھی تھی ۔ وہاں آپ شیخ حماد کے مزار پر بہت دیر کھڑے رہے ۔ یہاں تک کہ گرمی نے شدت اختیار کر لی ۔ آپ کو دیکھ کر تمام لوگ بھی پیچھے خاموش کھڑے رہے ۔ جب آپ واپس ہو ئے تو آپ کے چہرے پر بہت ہی بشاشت تھی ۔ لوگوںنے جب آپ سے کھڑے رہنے کی وجہ دریافت کی ۔ تو آپ نے ایک واقعہ بیان کر تے ہوئے فرمایا کہ میں شیخ حماد کے ہمراہ جمعہ کی نماز کے لئے روانہ ہوا ۔ا س وقت ہمارے ساتھ بہت بڑی جماعت تھی ۔ چنانچہ جب ہم لوگ ایک پل کے قریب پہونچے تو شیخ حماد نے شدید سردی کے باوجود مجھے پانی میں دکھا دے دیا ۔ میں نے بسم اللہ کہہ کر غسل جمعہ کی نیت کر لی ۔ اس وقت میرے جسم پر ایک اونی جبہ تھا ۔ اور دوسرا جبہ میری آستین میں تھا ۔ جسے نکال کر میں نے ہاتھ میں اٹھا لیا ۔ تاکہ بھیگنے سے محفوظ رہے ۔شیخ حماد مجھے دھکا دے کر آگے بڑھ گئے ۔ چنانچہ میں نے پانی سے نکل کر اپنا جبہ نچوڑا ۔ اور ان کے پیچھے روانہ ہو گیا ۔ مجھے دیکھ کر لوگوںنے بہت افسوس کیا ۔ تو شیخ حماد نے جھڑک کر فرمایا میں تو محض امتحاناً نہر میں ڈھکیلا تھا ۔ لیکن یہ تو ایسے کیسے گرا ۔ پھر شیخ عبد القادرجیلانی نے فرمایا آج میں نے شیخ حماد کو قبر کے اندر ایسی حالت میںد یکھا کہ ان کے جسم پر جواہرات کا لباس ہے ۔ آپ کے سر پر یعقوط کا تاج ہے ۔ ہاتھ میں سونے کے کنگن اوردونوں پائوں میں خوبصورت جوتے ہیں ۔ لیکن آپ کا داہنا ہاتھ سلا ہے ۔ جب میںنے پو چھا کہ آپ کے داہنے ہاتھ میں کیا ہو گیا ہے ۔ آپ نے فرمایا اس ہاتھ سے میں نے آپ کو پانی میں دھکا دیا تھا ۔ کیا آپ مجھے اس حرکت میں معاف کر سکتے ہیں ۔ میں نے کہا بلا شبہ معاف کیا ۔ پھر آپ سے کہا کہ خدا سے دعاکر یں کہ میرا یہ ہاتھ ٹھیک ہو جائے ۔ جس وقت میں کھڑا ہو کر دعا کر رہا تھا تو پانچ ہزار اولیاء کرام اپنی مزارات میں میری دعا پر امین کہہ رہے رتھے ۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرما لی ۔ اور شیخ حماد کے ہاتھ تکلیف دور ہو گئی ۔ اور آپ نے مجھ سے مصافحہ کیا ۔ اس طرح میری اور ان کی خوشی پوری ہوگئی ۔ (کلائد الجواہر صفحہ 99 )
شیخ ابو العباس خضر موسلی ؒ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا مکان ہے جس میں سمندر اور جنگل کے بڑے بڑے اعلیٰ مر تبہ والے بزرگ جمع ہیں ۔ اور صدر محفل حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی ہیں ۔ ایک بزرگ میں سے کچھ کے سروں پر ایک طرا تھا۔ اور کچھ کے امامہ کے دو طرے تھے ۔ لیکن آپ کے سرے اقدس پر جو امامہ تھا ۔ اس پر تین طرے تھے ۔ میں ابھی آپ کی عظمت و جمال کا مشاہدہ ہی کر رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی ۔ اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خود میرے سرہانے کھڑے ہیں ۔ میرے جاگتے ہی آپ نے فرمایا کہ تم طروں کے بارے میں سوچ رہے ہو ۔ تو سنو ان میں سے ایک طرا شریعت کی شفاعت کا ہے ۔ دوسرا طرا حقیقت کی شفاعت کا ہے ۔ اور تیسرا طرا عظمت وبزرگی کا ہے ۔ جو نہایت ہی بلند ترین ہے ۔ (کلائد الجواہر صفحہ 139 )
اس خوا ب اور اس کی تعبیر سے آپ کی فضیلت کا بھی اندازہ ہو تا ہے کہ دوسرے بڑے بڑے بزرگوں کے سروں پر دو طرے تھے ۔ جبکہ آپ کے سرے اقدس پر تین طرے تھے ۔