علامہ شبلی نعمانی
یوم وفات 18؍نومبر پر خصوصی پیش کش
محمد عارف نگرامی
دارالمصنفین کے بانی علامہ شبلی نعمانیؒ کے علمی کمالات، جامعیت اور ان کی خدمات جلیلہ کا تعارف کراتے ہوئے یادرفتگاں میں سید سلیمان ندویؒ نے لکھا ہے کہ ہندوستان کا دور اصلاح جن افراد پر مشتمل تھا ان میں دو قسم کے لوگ تھے، ایک وہ جنہوں نے زمانے کی ضرورت سے چشم پوشی کر لی اور صرف قدیم کی حفاظت کو ملت کے لئے نجات کا ذریعہ سمجھا اور اس میں جی جان سے لگ گئے، دوسرے گروہ نے قدیم کو چھوڑ کر جدید کے حصول میں اپنی ساری قوت لگانے کا عزم کیا، علامہ شبلی اس بزم میں سب سے پیچھے آئے، لیکن پیچھے نہیں بیٹھے بلکہ دونوں گروہوں کے مجمع البحرین کی حیثیت اختیار کی، وہ قدیم علوم سے بحرور بھی تھے اور جدید سے اپنے ہمعصروں کی طرح آشنا، مولانا کا دماغ جن دینی و ملی کارناموں کا تماشہ دیکھتا تھا اور دکھانا چاہتا تھا، بہت سی آنکھیں اس کے دیکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی تھیں۔ قومی، ملی، تعلیمی، اجتماعی، سیاسی، ادبی، مذہبی تاریخی غرض عمل کا کوئی گوشہ نہ تھا جس کی طرف اس کا ہاتھ نہ بڑھا، اس تمہید سے مولانا شبلی کی جامعیت، ان کا کمال اور آئندہ زمانوں میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر جب کبھی گھنابادل چھائے گا، تو اس کے چھاٹنے یا اس کے ازالہ کے لیے مولانا شبلی نے جو مواد فراہم کیا ہے اس سے استفادہ کی نوعیت اور اس کی ضرورت یقینا با آسانی سمجھی جا سکتی ہے۔ ذیل میں اس عظیم ہستی کے حالات دیئے جاتے ہیں، تاکہ دارالمصنفین کے قیام، مقاصد اور مولانا کے عظائم کا علم ہو جائے۔ مولانا شبلی ہندوستان کے مشہور صوبہ اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے گائوں بندول میں 4جون 1857 میں پیدا ہوئے، ان کے والد شیخ حبیب اللہ اعظم گڑھ کے کامیاب وکیل اور نیل کے تاجر تھے، ابتدائی تعلیم گھر کی ، اس زمانے میں فارسی زبان شرفاء کی تعلیم کی زبان تھی۔ مولانا نے تمام فارسی نصاب اس اثنا میں مکمل کر لیا۔ پھر عربی تعلیم شروع کی، مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں داخلہ لیا، ان دونوں اس کے صدر مدرس مولانا عنایت رسول چریاکوٹی کے بھائی مولانا فاروق چریاکوٹی تھے، جو معکولات کے زبردست عالم اور فارسی زبان کے بلند پایہ ادیب تھے۔ مولانا نے ان سے نصاب عربی کی شروع سے آخر تک تعلیم حاصل کی، استاد و شاگرد میں باہم بڑی محبت تھی اور دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے، مولانا کی تعلیم کے آخری زمانے میں مولانا فاروق صاحب غازی پور چھوڑ کر اعظم گڑھ آگئے تھے، ان کے علاوہ مولانا شبلی نے ہندوستان کے جن علماء سے تعلیم حاصل کی ان میں مولانا ارشاد حسین رام پوری، مولانا احمد علی سہارنپوری، مولانا فیض الحسن سہارنپوری وغیرہ بطور خاص ہیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی علمی زندگی کی ابتدااور درس تدریس ، شعر شاعری اور فقہی بحث و مناظرہ سے کی، تصنیف و تالیف وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ 19 سال کی عمر میں خاندان کے بعض رشتہ دار کے ساتھ سعادت حج سے سرفراز ہوئے اور موقع نکال کر مدینہ کے کتب خانوں سے خوب استفادہ بھی کیا۔ اس سفر سے واپس آکر ظاہری طلب علم کا سفر ختم کر دیا لیکن اب حقیقی طلب علم کا دور شروع ہوتا ہے، گھر کے لوگ وکالت کے پیشہ سے وابستہ کرنا چاہتے تھے اور کچھ دن وکالت بھی کی لیکن علم دانس کا یہ رئیس مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے اس سے عہدہ برآنہ ہو سکا۔ وکالت چھوڑ کر کچھ دن امانت کے شعبہ میں ملازم ہوئے، لیکن یہ فضابھی راس نہ آئی، اور ناچاربیٹھ کر درس و تدریس میں مشغول ہوئے اور قصائد و رسائل لکھنے شروع کئے۔ اس زمانے میں سر سید کا غلغلہ پورے ہندوستان میں مچا ہوا تھا، 1882 میں اپنے نوجوان بھائی مہدی سے علی گڑھ ملنے گئے، وہاں سر سید سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مدرسۃ العلوم میں تدریس کا پروانہ پیش کیا اور 1883 میں بحیثیت اسٹیٹ عربک پروفیسر ایم او کالج میں تقرر ہوگیا۔ اسی سال یہاں ایک نئی دنیا سے علامہ شبلی متعارف ہوئے چار مہینے قیام کے بعد واپس ہوئے تو شہر اعظم گڑھ میں 20جون 1883 کو شبلی نیشنل اسکول کی بنیاد رکھی۔ سر سید احمد خاں کی قربت اور پروفیسر آرنالڈ کی صحبت نے ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ انگریزی کے ساتھ ہندی اور سنسکرت بھی نصاب ندوہ میں شامل کیا اور اچھے اور لائق طلباء
تیار کئے۔ جنہوں نے علم و تحریک کے میدان میں لا زوال نقوش چھوڑے، مولانا سید سلیمان ندوی،مولانا عبدالسلام ندوی اور مولوی مسعود علی ندوی وغیرہ اسی زمانے کے شاگرد ہیں جنہوں نے مولانا شبلی کے خواب کی تعبیر ’’دارالمصنفین کی نشونما اور اس کے عروج کے لیے پوری زندگی وقف کر دی۔ الندوہ کے نام سے نہایت بلند پایہ تحقیقی ماہانہ رسالہ نکالا۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی شرعی مرتب تھے۔ 1905 سے 1912 تک بڑے آب و تاب سے اس کی ادارت کی۔ 1906 میں بمبئی سفر پر گئے تو وہاں کے حسین منظر سے متاثر ہو کر اپنی فارسی غزلوں کا مجموعہ ’’دست گل‘‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کیا، 1907 میں اعظم گڑھ آئے اور پائوں کا حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں مولانا کا ایک پائوں کاٹ دیا گیااور مصنوی پائوں کے سہارے بقیہ زندگی کے سفر طے کیئے۔ اس حادثہ کے وقت شعرا العزم کی تصنیف میں مشغلول تھے۔ اس کی پہلی جلد 1908 دوسری 1909 تیسری 1910 چوتھی1912 اور پانچویں جلد ان کی وفات کے بعد 1918 میں شائع ہوئی۔ 1909 میں مولانا محمد علی جوہر کے اسرار پر ’’اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے۔ 1911 میں اٹلی نے ترابلس پر حملہ کیا تو مولاتڑپ اٹھے، 1912 میں مشہور عیسائی مئورخ جرجی جیڈان کی کتاب ’’تاریخ التمدن الاسلامی‘‘ کارد ’’الانتقاد علی تاریخ التمدن الاسلامی‘‘ کے نام سے لکھا۔ اس کا اردو خلاصہ اکتوبر 1911 کے الندوہ میں چھپ چکا تھا۔ 1912 میں پھر جب یورپ کی شہ پا کر بلکانی ریاستوں نے ترقی کے خلاف اعلان جنگ کیا تو مولانا نے شہر آشوب اسلام کے نام سے نظم لکھی جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحریک حریت پیدا کی دی۔ 1912 میں پھر سیرۃ النبی کا موقوف شدہ کام شروع کیا اور اس کی پہلی جلد مکمل ہوئی جس کا مقدمہ مولانا آزاد نے الہلال کلکتہ میں شائع کیا، مولانا کی آخری زندگی کا یہ کارنامہ ان کی وفات کے بعد دنیا کے سامنے آیا، جس کی تکیمل مولانا سید سلیمان ندوی اور طباعت کا ذمہ بیگم بھوپال نے اپنے سر لیا۔ اول دوم مولنا شبلی اور سوم تاہفتم علامہ سید سلیمان ندوی کے ہاتھوں سے ہے۔ مولانا خالص علمی آدمی تھے۔ مگر زندگی کی سیاست سے بے گانہ بھی نہ تھے، وہ ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ مانتے تھے۔ سیاسی حالات سے متاثر ہوتے تو اس کا اظہار بڑی جرأت سے اپنی نظموں میں کرتے جب ندوہ ترقی پر گامزن ہوا تو وہاں اختلافات شروع ہو گئے، ان ہنگاموں کے دوران شیخ العزم اور سیرۃ النبی بھی لکھتے جاتے تھے۔ مولانا کا خیال برابر یہ رہا کہ تصنیفی کاموں کے لیے ایک ایسا کتب خانہ قائم کیا جائے جس میں زیادہ سے زیادہ کتابیں ہوں اور مصنفین و مولفین کی ایک خاص نہج کے مطابق تربیت کے جائے، تاکہ وہ اسلام کی خدمت کر سکیں اور حیات رسول ﷺ مذہب اسلام اور مسلمانوں پر مستشرقین یورپ کی طرف سے جو اعتراضات و شکوک ظاہر کئے جاتے ہیں یہاں سے ان کا پرزور اور مدلل جواب دیا جائے۔ دارالمصنفین مولانا کے انہیں خیالات کا عکس جمیل ہے۔ ندوہ سے الگ ہونے کے بعد مولانا نے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں دل چسپی لی اور دارالمصنفین اور مدرسۃ الاصلاح کو ملا کر ایک اچھے خاصے جامعہ اسلامیہ کا تصور ان کے ذہن میں تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے اخبار الہلال کلکتہ میں 1914 میں دارالمصنفین کی تجویز پیش کی اور اس کے مرکز کے لیے اعظم گڑھ میں اپنے اور رشتہ داروں کا ایک باغ وقف کرایا اور اس کے لیے خاکہ و دستور مرتب کیا، اس کے علمی کاموںکے لیے مولانا کی نظر انتخاب مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا سید سلیمان ندوی پر پڑی اور انتظامی امور کے لیے مولانا مسعود علی ندوی کا نام لیا۔ یہ ارادہ عملی شکل میں ظاہر ہوتا کہ مولانا کے لیے پیام اجل آ گیا اور 18 نومبر1914میں علم و تحقیق شعر و ادب اور ملک و ملت کا یہ مایہ ناز فرزندمالک حقیقی سے جا ملا۔