’’دو گز زمیں بھی نہ ملی گوئے یار میں‘‘
ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے یوم وفات ۷؍نومبر پر خصوصی مضمون
محمد عارف نگرامی
ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میسکزی نام کے بحری جہاز میں سوار کر دیا گیا۔ یہ بحری جہاز ۱۷؍اکتوبر ۱۸۵۸ کو رنگون پہونچ گیا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کے خاندان کے ۳۵ مرد اور خواتین بھی تھیں۔ اس وقت رنگون کا انچارج کیپٹن نیلسن ڈیوس تھا جو تاجدار ہند کو لینے کے لیے بندرگاہ پہنچا اس نے بہادر شاہ ظفر اور شاہی خاندان کے افراد کو اپنی تحویل میں لے کر رسید لکھ کر جہاز کے کیپٹن کو تھما دی۔ اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرماں روا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آگیا۔ کیپٹن نیلسن پریشان اور مضطرب تھا کیونکہ بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود شہنشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا کہ بیمار اور بوڑھے شہنشاہ کو جیل کی تنگ و تاریک کمرہ میں قید کر دے۔ مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا۔ بہادر شاہ ظفر رنگون میں پہلا جلا وطن شہنشاہ تھا۔ نیلسن نے کافی غور و خوص کے بعد اس مسئلہ کا دلچسپ حل نکال لیا۔اس نے اپنے نوکروں سے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور پھر شہنشاہ ہندوستان تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔
بہادر شاہ ظفر ۱۷؍اکتوبر ۱۸۵۸ء کو اس گیراج میں پہونچے اور ۷؍نومبر ۱۸۶۲ء تک چار سالوں تک وہاں رہے بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل اسی گیراج میں لکھی۔
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائداری میں
کتنا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
سن ۱۸۶۷ء کی ۷؍نومبر کا ایک خنک دن تھا بد نصیب شہنشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی کی حالت میں کیپٹن نیلسن کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے اردلی نے برمی زبان میں اس بدتمیزی کی وجہ دریافت کی تو ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی برمی زبان میں جواب دیا کہ شہنشاہ ہندوستان کا آخری وقت آن پہنچا ہے اور ان کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔ اردلی نے جواب دیا کہ میرے صاحب کتے کو کنگھی کر رہے ہیں میں اس وقت ان کو ڈسٹرب نہیں کر سکتا ہوں۔خادمہ نے اردلی کا جواب سن کر بے بسی کے عالم میں اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا اردلی نے خادمہ کو خاموش کرانے کی بے انتہا کوشش کی اور برے نتائج کی دھمکیاں بھی دیں مگر خادمہ کے رونے کی آواز کسی نہ کسی طرح نیلسن تک پہنچ گئی وہ غصہ میں باہر نکلا۔ شہنشاہ ہندوستان کی وفادار خادمہ نے جب نیلسن کو اپنے سامنے دیکھا تو وہ اسکے قدموں پر گر گئی خادمہ دم توڑتے ہوئے شہنشاہ ہند کے لیے گیراج کی کھڑکی کھلوانا چاہتی تھی۔ نیلسن نے غصہ کی حالت میں اپنا پسٹل اٹھایا گارڈ کو ساتھ لیا اور گیراج میں داخل ہو گیا بہادر شاہ ظفر کی آخری آرام گاہ کے اندر موت کا سکوت اور تاریکی کا راج تھا۔ اردلی لیمپ لے کر شہنشاہ کے سرہانے کھڑا ہوا۔ نیلسن آگے بڑھا بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر اسکاسر تکیہ پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی آنکھوں کے پپوٹے باہر نکل رہے تھے گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں نیلسن نے اپنی پوری زندگی میں ہزاروںچہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی اور اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی وہ کسی شہنشاہ کا چہرہ نہیں لگ رہا تھا بلکہ کسی فقیر یا بھکاری کا چہرہ لگ رہا تھا۔اس چہرے پر ایک آزاد سانس کی درخواست تحریر تھی۔ کیپٹن نیلسن نے بہادر شاہ ظفر کی گردن پر ہاتھ رکھا زندگی کے قافلے کو رگوں سے گزرے ہوئے مدت ہو چکی تھی ہندوستان کا آخری شہنشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا۔ نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا۔ لواحقین تھے کتنے ایک شہزادہ جواں بخت اور دوسرا اسکے استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی۔ دونوں آئے اور شہنشاہ کو غسل دیا۔ کفن پہنایااور جیسے تیسے نماز جنازہ پڑھائی۔ قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دو گز زمین بھی دستیاب نہ ہو سکی ۔ نیلسن نے سرکاری رہائیش کے احاطے میں قبر کھدوائی اور لاش کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا۔
قبر پر پانی کا چھڑکائو ہو رہا تھا گلاب کی پتیاں قبر پر ڈالی جارہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دھلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں ۳۰؍ستمبر ۱۸۳۷ء کے وہ مناظر دوڑنے لگے جب دہلی کے لال قلعہ میں ۶۲ سال کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنا کر ہندوستان کا شہنشاہ بنایا گیا تھااور ہندوستان کے نئے تاجدار کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لوگ دہلی آئے تھے۔ اور شہنشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر تاج سر پر سجا کر اور نادر شاہی اور جہانگیری تلوار لٹکا کر دربار عام میں آئے تو پورا دہلی تحسین کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا۔ نقار نقارے بجانے لگے ۔گوئیے ہوائوں میں تانیں اُڑانے لگے اور فوجی تلواریں بجانے لگے۔ رقاصائیں رقص کرنے لگیں۔ استاد ابراہیم دھلوی کو یاد تھا کہ بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن سات دنوں تک جاری رہا تھا اور ان سات دنوں میں دھلی کے عوام ور خواص دونوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا تھا۔ مگر ۷؍نومبر۱۸۶۲ء کی اس ٹھنڈی صبح کو ہندوستان کے جلاوطن قیدی شہنشاہ کو ایک فرد بھی نصیب نہیں تھا۔
سوچتے سوچتے استاد حافظ ابراہیم دھلوی کے آنکھوں میں آنسو آگئے انہوں نے سورہ توبہ کی تلاوت شروع کر دی حافظ جی کے گلے سے سوز کے دریا بہنے لگے یہ منظر دیکھا کیپٹن نیلسن کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریب الوطن فقیر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور کیپٹن نیلسن کے اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
اگر آپ کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹائون شپ کی کچی گلیوں میں آج بھی بہادر شاہ طفر کی نسل کے لوگ مل جائیں گے۔ یہ ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی اصل اولاد ہیں مگر ہندوستان کے آخری تاجدار کی یہ گمنام اولادیں آج بھی سرکاری وظیفہ پر اپنی زندگی کے ایام گزار رہے ہیں ۔ شہنشاہ بہادر شاہ طفر کی یہ اولادیں آج کچی زمینوں پر سوتے ہیں ننگے پائوں پھرتے ہیں مانگ کر کھاتے ہیں اور سرکاری نلوں سے پانی پیتے ہیں مگر یہ لوگ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی خود کو ہندوستان کے آخری شہنشاہ کی اولادیں کہتے ہیں یہ رنگون کے لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور رنگون کے لوگ ہنس کر قہقہے لگا کر حقارت کی نگاہوں سے آخری مغل شہنشاہ کی اولادوں کو دیکھ کر اپنا منھ پھیر لیتے ہیں۔
ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ نے اپنے اگرد گرد نااہل چاپلوس ، خوشامدی، اور بدعنوان افراد کا پورا ایک لشکر جمع کر لیا تھا۔ یہی بدعنوان اور چاپلوس افراد شہنشاہ کی آنکھیںبھی تھے ، کان بھی تھے، انکا دماغ بھی تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں نے ہندوستان کی سلطنت کو آپس میں تقسیم کر لیا تھا ایک شہزادہ داخلی امور کا نگراں اور مالک تھا تو دوسرا بیٹا خارجی امور کا مختار تھا۔ دونوں کے درمیان لڑائی چلتی رہتی تھی اور ہندوستان کا شہنشاہ اپنے دونوں بیٹوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دیکھتے ہوئے بھی آنکھ بند کئے ہوئے تھا ۔ ہندوستان کے عوام بے حد پریشان تھے مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی۔ دکاندار من مانی قیمتوں پر سامنا فروخت کرتے تھے ۔ ایک ہنگامہ تھا ایک پریشانی اور افراتفری کا ماحول تھا۔ بادشاہ وقت کا کسی بھی مسئلہ پر کنٹرول نہیں رہ گیا تھا۔ ٹیکس لگائے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ دھلی شہر میں کبوتروں کے کھانے والے دانوں پر ٹیکس لگا دیا گیا تھا۔ شاہی خاندان کے لوگوں نے بے خوف ہو کر قتل و غارت گری کا بازار دہلی میں گرم کر دیا تھا کوئی ان سے باز پرس کرنے والا نہیں تھا ریاستیں دہلی دربار کے ہاتھوں سے نکل چکی تھیں ۔ نواب صوبیدار ، امیر اور سلطان سب نے اپنی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔فوج کا یہ عالم تھا کہ وہ تلوار کی نوک پر بادشاہ سے جو چاہتی منوا لیتی تھی۔ دہلی کے عوام شہنشاہ ہندوستان اور اسکے خاندان سے بیزار ہو چکے تھے وہ سرعام بادشاہ سلامت کو لعن طعن کرتے تھے اور کوتوال چپ چاپ ان کے قریب سے نکل جاتے تھے۔
دوسری طرف انگریز مضبوط ہوتے جا رہے تھے اور انکے قدم ہندوستان پر حکمرانی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ انگریز ہر روز معاہدہ توڑتے تھیا ور شہنشاہ ہندوستان ملک کے وسیع تر مفادی انگریزوں سے نیا معاہدہ کر لیتے تھے ۔
ایک دور ایسا بھی آیا جب انگریز شہزادگان کے وفاداروں کو قتل کر دیتے تھے اور شاہی خاندان جب احتجاج کرتا تھا تو انگریز انہیں یہ کہہ کر مطمین کر دیتے تھے کہ قتل ہونے والا شخص شاہی خاندان کا وفادار نہیں تھا اور بادشاہ سلامت انگریزوں کی وضاحت پر مطمئن ہو جاتے تھے۔ بادشاہ وقت کی فوجیں بیروکوں میں آرام کرتے کرتے بیکار ہو چکی تھیں اس لئے جب لڑانے کا وقت آیا تو ان ناکارہ عیاش فوجیوں سے تلواریں بھی نہیں اٹھائی جا سکیں ان حالات میں جب انگریزوں سے جنگ کا وقت آیا تو ہندوستان کا شہنشاہ گرتا پڑتا سرکاری ہاتھی پر چڑھا تو عوام نے اسکا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ دہلی کے عوام کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے بہادر شاہ ظفر البگڑیٹد وکٹوریہ دونوںبرابر ہیں۔انگریزوں سے جنگ میں حکمراں خاندان کو قتل کر دیا گیا اور شہنشاہ ہندوستان بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا گیا۔ وہ رنگوں میں نیلسن ڈیوس کے گیراج میں قید رہے گھر کے احاطے میں دفن ہونے اور ان کی اولاد آج تک اپنی عظمت رفتہ کا ’’بوجھ‘‘ اٹھائے رنگون کی گلیوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔