محمد عارف نگرامی

اردو کی ترویج و ترقی اور بنائو سنگار میں مشاعروں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ دو تین صدیوں میں اردو نے جو قابل رشک مقام عالمی اور ادبی زبانوں میں حاصل کیا ہے اس میں شاعروں نے بڑا ہم حصہ لیا ہے۔ مشاعروں کی ضرورت اور اہمیت آج کے دور میں اتنی ہی مستحکم ہے جتنی اردو کے ابتدائی دور میں تھی کیونکہ مشاعروں کے ذریعہ فن کار اور عوام میں براہ راست جو رابطہ قائم ہو جاتا ہے اس سے فن کا مظاہرہ اور زبان کی تشہیر ہوتی ہے۔

ہندوستان کی معاشی اور سماجی بتدیلیوں کی وجہ سے موجودہ مشاعروں میں بھی بہت تبدیلیاں آتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مشاعرہ آج کے دور میں جس قدر محبوب اور مقبول ہے اتنا کسی بھی دور میں نہیں رہا۔

مشاعروں میں پڑھے جانے والے اشعار بھی خوشبو کی طرح صفر کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ پسند کیا جانے والا شعر اپنے ساتھ شاعر کا نام بھی لے جائے۔اردو شاعری میں سیکڑوں اشعارایسے موجود ہیں جو زبان زد عام ہوتے اور اپنے خالق سے کہیں آگے نکل گئے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور بہت سے اشعار ایسے ہیں کہ جن کا لکھنے والا تو کوئی اور ہے لیکن وہ کسی اور کے نام سے مشہور ہیں۔اسی طرح بہت سے فلمی نغموں پر ہم جھومتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے دل کی آواز کو اتنے خوبصورت اور دل نشیں الفاظ کا جامہ کس نے پہنایا۔

فیض احمد فیض کی ایک غزل’’گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘ پاکستانی گلو کار مہدی حسن صاحب مرحوم نے گائی اور انہیں کی پہچان بن کر رہ گئی۔ کہتے ہیں کہ ایک بار فیض صاحب ایک مشاعرہ میں شرکت کے لیے ہندوستان تشریف لائے اور مشاعرے میں یہی غزل سنائی شروع کی تو سامعین میں سے کسی نے آواز لگائی کہ حضور یہ تو مہدی حسن کی غزل ہے کچھ اپنا کلام سنائیں۔

ایک اور مشہور غزل’’ائے جذبۂ دل گیر میں چاہوں تو ہر چیز مقابل آجائے‘‘ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ پاکستانی گلوکارہ نیرہ نور نے گائی اور خوب خوب پسند کی گئی لیکن اس غزل کے خالق بیزاد لکھنوی کا نام کم ہی سننے کو ملتا ہے۔بیزاد لکھنوی لکھنؤ میں پیدا ہوئے اورتقسیم پاکستان کے بعدوہاں ہجرت کر گئے اور وہیں انکا انتقال ہوا۔

اسی طرح چراغ حسین حسرتؔ کو آج کتنے لوگ جانتے ہیںجن کا یہ شعر ہر دوسرے شخص کو یاد ہے۔

’’امید تو بندھ جاتی ہے تسکین تو ہو جاتی ہے – وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

چراغ حسین حسرت کشمیری نے حصول تعلیم کے بعد لکھنؤ میں شعبہ صحافت سے منسلک ہوئے اس کے بعد ہجرت کر کے لاہور چلئے گئے اور اس زمانے کے موخر روزناموں ’’زمیندار‘‘ اور امروز میں سند باد جہازی کے نام سے کالم لکھتے رہے ۔ فوج میں بھی ملازمت کی۔

بہت سے اشعار ایسے بھی ہیں جو شاعر مشرق علامہ اقبال کے نہیں ہیں لیکن ان کے نام سے منسوب ہیں انہیں اشعار میں ایک شعر ایسا بھی ہے جو ہر سیاسی جلسہ میں سننے کو ضرور ملتا ہے۔

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے– وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

یہ شعر دراصل شبیر مچھلی شہری کا ہے جو 1856 جون پور میں پیدا ہوئے ان کے آباء و اجداد ایران سے مچھلی شہر کے محلہ سید واڑہ میں آکر آباد ہو گئے تھے۔1929 میں شبیر کا انتقال ہوا۔ اسی طرح ظفر علی خان کا یہ شعر بھی بہت سے لوگ اقبال اور بہت سے لوگ حالی سے منسوب کرتے ہیں۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی– نہ ہو جس کو خود خیال اپنی حالت بدلنے کا

ظفر علی خاں کا ایک اور شعر بھی بہت زیادہ مشہور ہے اور اکثر تقریبوں اور تحریروں میں فراوانی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

نور خدا نے کفر کی حرکت پہ خندہ زن– پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ایک اور شعر بھی اقبال کے نام سے مشہور ہے اور اخبارات و رسائل میں ان ہی کے نام سے نقل کیا جاتا ہے لیکن دراصل یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں بلکہ شکر گڑھ کے ایک وکیل سید صادق حسین کا ہے۔

تندی باد مخالف سے نہ گھبرااے عقاب– یہ تو چلتی ہے تجھے اُنچا اُڑانے کے لیے

صادق حسین ایڈوکیٹ کی ایک مختصر کتاب ’’برگ صبر‘‘ کے نام سے 1976 میں شائع ہوئی جس میں یہ شعر موجود ہے۔ اسی طرح ایک شاعر برقؔ لکھنوی ہوا کرتے تھے ان کا نام بھی کسی نے نہیں سنا مگر انکا یہ شعر سبکو یاد ہے۔

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے — وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

برقؔ لکھنوی کا پورا نام مرزامحمد رضا خاں تھا، وہ برق تخلص کیا کرتے تھے اور استاد ناسخ کے شاگردوں میں سے تھے ایک دیوان ان کی حیات میں 1853 میں شائع ہوا۔ 1857 میں کلکتہ میں انکا انتقال ہوا۔

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے — جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

مندرجہ بالا شعر شاید ہی کوئی ہو جس نے کسی خاص صورت حال کی ترجمانی کے لیے اپنی زبان سے ادا نہ کیا ہو۔ اس لافانی شعر کے خالق ثاقب لکھنوی کو بھی کوئی نہیںجانتا ۔ ثاقب لکھنوی کی شاعری میں پائے جانے والے گداز اور سلاست کی وجہ سے ان کی کئی اشعار ان کے نام سے بہت آگے نکل گئے اور آج ضرب المثل کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں۔ ثاقب لکھنوی کے درج ذیل دو اشعار ہر دوسرے شخص سے سننے کو ملتے ہیں۔لیکن کسی کی زبان پر اس شاعر بے مثال کا نام نہیںآتا۔

بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ — ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے وقت دفن — زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

شکست اور فتح کی صورت میں تسلی کے دو لفظ ادا کرنے ہو تو اکثر کہا جاتا ہے کہ :’’مقابلہ تو دل ناداں نے خوب کیا‘‘ اس مصرع کو لوگ بہت سے لوگ میرؔ تقی میرؔ کا سمجھتے ہیں ۔یا امیر مینائی کے نام نواب محمد یار خاں کا ہے۔ میرؔ سے منسوب کرنے والے اس شعر کو اس طرح لکھتے اور پڑھتے ہیں۔

شکست و فتح نصیبوں سے ملے اے میرؔ — مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

لیکن اصل شعر کچھ اس طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن — مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

اردو شاعری میں ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو شاعر سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شاعر پنڈت مہتاب رائے تاباں ہوا کرتے تھے ان کا نام کسی کو یاد نہیں لیکن اس پہ بن آئے کچھ ایسی تو کوئی شعر دھرانا نہیں بھولتا۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے– اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اسی طرح ایک شعر آپ کو ہر لوح مزار پر لکھا ہوا نظر آئے گا۔

پھول تو دو دن بہار جاںفضا دکھلا گئے– حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے منسوب یہ اشعار بھی ان کے نہیں بلکہ جاوید اختر کے دادا مضطر خیر آبادی کے ہیں۔

نہ کسی کے آنکھوں کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں– کسی کے کام میں جو نہ آسکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

مضطر کا مجموعہ کلام ’’خرمن‘‘ کے نام سے گزشتہ سال منظر عام پر آیا اور اسے جاوید اختر نے ترتیب دیا مضطر خیر آبادی کے بیٹے اور جاوید اختر کے والد جاں نثار اختر بھی اپنے دور کے عمدہ شاعر تھے ان کی ایک غزل جو بہت مشہور ہوئی آج بھی سننے والوں کو ایک رومانوی فضاء میں لے جاتی ہے۔

اشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں– کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں

ٍ
دیکھوں تیرے ہاتھوں کو تو لگتا ہے تیرے ہاتھ — مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں

یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں– ایک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں