فطری، موروثی اور روحانی اوصاف کے حامل شاعر:نور الحسن نورؔ
رضوان احمد فاروقی
علم و حکمت و دانائی کے ساتھ منصب و کلاہ ہر کسی کے حصہ میں کہاں۔؟ یہ نوادرات اُنھیں کے حصہ میں آتے ہیں جنھیں خاص مقصد و منشاء کے تحت معزز خانودوں اور افراد میں پیدا کیا جاتا ہے اورجنھیں اوّل دن سے ایسی گود، شفقتیں اور محبتیں مرحمت یا ودیعت کی جاتی ہیں جو اللہ کے خاص بندوں کے لئے ہی مخصوص ہیں۔
نور الحسن نورؔ صاحب کا نامِ نامی اسم گرامی ایسی ہی محترم و معتبر شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا ،حال، ان کے کردار کی روشنی سے چمکدار رہے تو ماضی قریب و بعید ان کے آباء و اجداد کے کا رہائے نمایاں سے جگمگا رہا ہے۔
نورؔ صاحب اسم بامسمّیٰ ہیں۔ ان کا بچپن علم و ادب کے ساتھ روحانی فضا اور تصوف و سلوک کے سائے میں گذرا، تو شعور کی منزل کو پہونچ کر فطری شاعری نے سر اُٹھایا۔’’ نتیجہ بایں جا رسید‘‘ کہ آج وہ شاعر ہیں۔ اعمالِ صالحہ کا نور اور اسلاف کے اوصاف کارنگ ان کی شاعری کے حرف حرف سے چھلک رہا ہے۔ نورؔ صاحب فقط روایتی شاعری کے علمبردار نہیں ہیں کہ روایت کے بستہ سے چند بندھے ٹکے موضوعات نکال کر اپنی شعری کائنات سجائیں اور فخر سے گردن ٹیڑھی کرکے خود کو عقلِ کل سمجھ لیں۔ بلکہ روایت کے ہر قابل ذکر موضوع کے احترام کے ساتھ عصری موضوعات پر اُن کی گہری نظر ہے۔ ان کے یہاں نظر بھی ہے اور نظریہ بھی۔منظر ہے اورپس منظر بھی۔
کمالِ شاعری یہ ہے کہ نورؔ صاحب ایک مقرر، ایک خطیب، ایک واعظ و ناضح یا ذاکر کے انداز میں گفتگو نہیں کرتے بلکہ جن موضوعات سے غزل کے دامن کے جھلسنے کا بھرپور امکان ہوتا ہے اُن موضوعات کو بھی وہ اس ہنر مندی اور خوش اسلوبی سے غزل کے دھاگے میں تسبیح کے دانوں کی طرح پروتے ہیں کہ نہ صرف ہر موتی کی چمک اور اہمیت برقرار رہتی ہے بلکہ غزل کا روایتی حسن، اُس کی نازکی اور وقار پوری طرح سلامت رہتا ہے۔ جیسے:
تیرے قدموں کی چاپ سن کے لگا
تجھ سے اچھی نہیں کوئی آواز
…٭…
ایسے لفظوں کا انتخاب نہ ہو
ہاتھ سے دامنِ غزل جائے
کسے اپنا کہیں ہم، غیر کس کو
کہ ہر چہرے پہ اب چہرے بہت ہیں
موجودہ غزل ان ہی خوبیوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم اخبارات کی شاہ سر خیوں کی طرح چیخ پکار کی شاعری میں مشغول و منہمک ہوکر راہِ غزل سے بھٹک گئے ہیں۔ ہم سپاٹ اور بے روح گفتگو کو شاعری سمجھنے لگے ہیں۔ کرختگی اور تلخی ہمارا شعاربنتی جا رہی ہے۔ ہم اظہارِ کائنات سے زیادہ اظہار ذات کو ضڑوری سمجھنے لگے ہیں۔ اسی لئے بڑی شاعری مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ اکہری شاعری کا دور دورہ ہے۔ شاعر تشبیہ و استعارے اور گہرائی و گیرائی کی سوچ رہا ہے نہ ہی قاری و سامع فکر و فہم کے دروازے کھول کر تجسس اور تفکر کی منزلیںطے کرنا چاہتا ہے۔
سہل پسندی اور تن آسانی کے اس دور میں نور الحسن نورؔ جیسے فطری، موروثی اور روحانی اوصاف کے حامل شاعر کی ضرورت و اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
مقامِ مسرت ہے کہ شاعر کو فکر و آگہی کا زعم ہے۔ نہ دید ہ وری اور دانشوری کا، بلکہ اُسے روح کی پاکیزگی اور طہارتِ قلب و جگر کے لئے ولی کامل کا آستانہ ، اُس کی چوکھٹ درکار ہے کسی امیر و کبیر کا محل نہیں۔ وہ بہر طور اور بہر حال صابر و شاکر ہے۔ حالات کا رونا روکر ناشکری کا الزام وہ اپنے سر نہیں چاہتا۔ شکر گذاری اور خدا شناسی کے اسی موسم میں احساس کروٹ بدلتا ہے تو ا س طرح کے بامقصد اشعار سینۂ قرطاس پہ آکراہلِ دل کو متوجہ کرتے ہیں:
خلاصہ ہے کتابِ زندگی کا
کہ دشمن آدمی ہے آدمی کا
وہ کوئی اور ہوں گے ہم نہیں ہیں
جو نوحہ پڑھ رہے ہیں بیکسی کا
سنائی دے رہی ہے اُن کی آہٹ
فسانہ ختم پر ہے بے بسی کا
نقوشِ پائے جاناں کے علاوہ
نہیں احسان میں لیتا کسی کا
حدودِ خاک تک محدود نکلی
بڑا شہرہ تھا جس دیدوری کا
نظر اٹھتی نہیں سجدے سے میری
سفر میں کر رہا ہوں کس گلی کا
کہاں ان کار کی مجھ میں تھی جرأت
مِرے لب ہیں اشارہ ہے کسی کا
ترے کوچے میں سب کچھ بھول بیٹھا
بہت تھا زعم جس کو آگہی کا
یہ لمبی رات یہ گریہ کا عالم
پڑوسی نورؔ ہوں میں اِک ولی کا
غزل کی پرورش میں خانقاہوں کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ صوفیائے کرام نے غزل کی زلفیں سنوار کر اُسے وہ رنگ و آہنگ عطا کیا جو باقی رہنے والاہے۔ حسن و عشق نازو نیاز اور لب ورخسار کے روایتی موضوعات کے ساتھ تصوف و سلوک، اذکار و عبادات اور اصلاحِ معاشرہ کے مضامین کا اضافہ خانقاہوں سے ہوا اور اب تو ماں کی شفقتیں، باپ کی قربانیاں، بہن کا پیار، کمیوٹر اور انٹر نیٹ کی ترقیات، اکیسویں صدی کی ایجادات نے غزل کے دامن کو بے پناہ وسعت بخش دی ہے۔ آج غزل ایک لا محدود دائرے کا نام ہے۔۔۔۔ پھر بھی جو خانقاہوں سے وابستہ ہیں اور جنھیں غزل کی شفافیت ، اُس کا جمال، نازکی اور لطافت و شیرینی عزیز ہے وہ تلخ سے تلخ بات کو بھی اس انداز سے کرتے ہیں کہ غزل کا دامن میلا نہ ہو۔ ایسی ہی غزل کے محافظ و امین ہیں محترم نور الحسن نورؔ۔۔۔۔ خانقاہی نظام سے وابستگی نے ان کے دل کی دنیا بدل دی ہے۔
آپ کا مکمل نام سیّد محمد نور ہے۔ آپ کے والد گرامی صوفی سیّد نواب علی شاہ صاحب کی شخصیت قطعاً محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ آپ کے خانوادہ میں علم و عمل کے چراغ ہمیشہ سے روشن ہیں۔ عِلم ظاہر کے ساتھ علم باطن کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ مخلوقِ خدا کی خدمت اور بھٹکے ہوؤں کو راہِ حق پہ لانا آپ کے خانوادے کا محبوب مشغلہ ہے۔
مجھے امید ہی نہیں یقین ہے کہ اس اسم با مسمیٰ شاعر کا کلام خواص کے درباروں اور عوام کی عدالت میں پہونچ کر دلوں کو موہ لے گا۔ بہتوں کی دنیا بدلے گی اور بہتوں کو توفیق عمل ہوگی۔ میری نظر میں یہی بڑی اور اچھی شاعری ہے۔