میانمار پر اقتصادی پابندی عائد کرے یو این او:محمود مدنی
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ
نئی دہلی: میانمار میں روہنگیا اقلیت کے خلاف جاری نسل کشی اور قتل عام کے خلاف آج یہاں جنتر منتر نئی دہلی میں منعقد ایک مظاہرے میں تقریبا دس ہزار افراد نے شرکت کی جنھوں نے مظلوموں کی حمایت میں مختلف قسم کے بینر اٹھا رکھے تھے۔ جمعیۃ علماء ہند صوبہ دہلی کے زیر اہتمام اس مظاہرے میں مختلف ملی تنظیموں کے نمائند ے نے وہاں کے حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے یواین سکریٹری جنرل،وزیر داخلہ حکومت ہند اورمیانمار کے سفیر نئی دہلی کو ایک میمورنڈم بھی سونپا گیا۔
جنتر منتر پر اپنے خطاب میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے عالمی طاقتوں بالخصوص یو این سے مطالبہ کیا کہ وہ تجاویز منظورکرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں اور شمالی کوریا کی طرح میانمار پر بھی اقتصادی پابندی عائد کی جائے۔مولانا مدنی نے اس موقع پر روہنگیا پناہ گزیں سے متعلق حکومت ہند کے موقف پر سخت تنقید کی۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے ملک کی یہ پہچان ہے کہ مظلوم چاہے دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتے ہوں، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر آج ہم ظالموں کے ساتھ کھڑے ہیں، اس سے ز یادہ شرمناک اور افسوس ناک اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا کہ شاید سرکار یہ سوچ رکھتی ہے کہ بر صغیر میں جاری اس قتل عام سے اگر وہ آنکھ موند لے تو اس کی آنچ بھار ت میں نہیں آئے گی۔مولانا مدنی نے کہا کہ اس معاملے میں مرکزی سرکار اپنی منفی سوچ اور نامناسب سیاست کی وجہ سے ملک کو رسوا کرنے پر تلی ہوئی ہے،مگر بھارت کے لوگ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے سرکار کو متنبہ کیا کہ اس ملک کے مسلمانوںنے وطن کی آزادی میں قائدانہ کردار ادیا کیا تھا، آج وہ اس کی عزت و وقار بچانے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ روہنگیا معاملے میں ملک کی شناخت متاثر ہو رہی ہے، آپ ایک طرف ہم سیکوریٹی کائونسل کا مستقل ممبر بننے کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف ناک کے نیچے انسانیت کا خون ہو رہا ہے ا ور آپ مظلوموں کے بجائے ظالموں کے ساتھ ہیں، توبھلا ایک ایسا ملک جو ظالمو ںکے ساتھ کھڑا ہو وہ سیکوریٹی کونسل کا ممبر کیسے بن سکے گا؟ میں سرکار سے کہتاہوں کہ ابھی بھی موقع ہے، ہوش کے ناخن لے اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے کام کرے۔
مولانا مدنی نے مجمع سے کہا کہ آپ یہاں تکالیف برداشت کرکے آئے ہیں، اللہ جزائے خیر دے، جس طرح آپ یہاں آئے ہیں، اسی طرح ان مظلومین کے لیے دعاء بھی کریں۔ ہم کسی قیمت پر جوش و جذبات میں آکر کوئی غلط کام نہیں کریں گے، لیکن کسی اور کو بھی غلط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں برادران وطن کو بھی ساتھ لیں گے، کیوں کہ یہ ملک کی عزت اور انسانیت سے وابستہ مسئلہ ہے۔انھوں نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ حسن اخلاق، شرافت اور خیر خواہی کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریںاوراپنے اندر تبدیلی پیدا کریں۔یاد رکھیں کہ سرکار کے بدلنے سے نہیںبلکہ خود کو بدلنے سے حالات بدلیں گے۔انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے اندرتبدیلی پیدا نہیں کی تو زمانہ ہمیں روند کر گزر جائے گا۔
اس موقع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاںچئیرمین اقلیتی کمیشن حکومت دہلی، مولانا نیاز احمد فاروقی رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند، مولانا عابد قاسمی صدر جمعیۃ علماء صوبہ دہلی،نوید حامد صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، شیعہ عالم دین مولانا حسن علی گجراتی،مولانا رئیس خان نوری صدر غازی فائونڈیشن، حازق خاں دیوبند، فیروز احمد بخت وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ برما کے پناہ گزینوں کو بھارت سے نکالا جانا ملک کے لیے ایسا دھبہ ہوگا جسے صدیوں تک مٹایا نہیں جاسکے گا۔نوید حامد نے برما میں جاری ظلم وتشدد کو جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بڑی نسل کشی قراردیا۔مولانا عابد قاسمی نے کہا کہ روہنگیا اقلیت تاریخ انسانی کے بھیانک ترین ظلم کے شکار ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے انسانیت کا دامن نہیں چھوڑا، جب کہ ان کے دشمنوں نے ان کی لاشوں کو چیل کواکے حوالے کرکے انسانیت کی بدترین توہین کی ہے۔اس پروگرا م کی نظامت کے فرائض قاری ہارون اسعد ی نے انجام دیے تو قاری محمد فاروق کی تلاوت سے مجلس کا آغاز ہو ا۔
یواین، میانمار سفیر اور وزارت داخلہ کو دیے گئے میمورنڈم میں جمعیۃ علماء ہند نے مطالبہ کیا ہے کہ
۱۔روہنگیا مسلمانوں پر حملہ روکا جائے اور بے یارومددگار اقلیتوں کے جان ومال کے تحفظ کے لیے ضروری اور مثبت قدم اٹھایا جائے۔۲۔ رواں انسانی المیہ کی بین الاقوامی انکوائری کرائی جائے اور متاثرین تک عالمی میڈیا اور رفاہی اداروں کی رسائی کی اجازت دی جائے۔۳۔ انتہائی افسوس ناک حالات میں کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے متاثرین کی بازآبادکاری کی جائے۔۴۔ روہنگیا مسلمانوں کو حق شہریت دیا جائے، ان کو ۱۹۸۲ء کے قانون کے ذریعہ شہریت کے حق سے محروم کرنا بین الاقوامی حقوق انسانی چارٹرس کی سنگین خلاف ورزی ہے، لہذا ان کو پہلے کی طرح وہاں کا آئینی شہری تسلیم کیا جائے۔جولوگ حالات سے متاثر ہو کر دوسرے ممالک میں پناہ گزیں ہیں انھیں میانمار کا شہری تسلیم کیا جائے تاکہ وہ یو این کے ذریعے ریفیوجی کا درجہ حاصل کرکے مراعات کے حق دار بن سکیں۔۵۔ بنگلہ دیش،ہندستان ودیگر پڑوسی ممالک پر دبائو بنایا جائے کہ وہ روہنگیا پناہ گزیں کے سلسلے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔اس بات کی ضرورت ہے کہ تکنیکی امور کو صرف نظر کرتے ہوئے ان مظلوموں کے مسائل کو انسانی اقدار و ضروریات کی بنیاد پر حل کیا جائے۔ ۶۔ اقوام متحدہ میانما ر حکومت کو پابند کرے کہ وہ میعاد بندمدت کے اندر نسل کشی پر روک لگائے اور امن قائم کرے، بصور ت دیگر بین الاقومی اصول وضوابط کے مطابق ان کے خلاف فوجی اور اقتصادی پابندی عائد کی جائے۔