امیر شریعت حکیم الملّت حضرت مفتی محمد اشرف علی ؒ باقوی
سید احمد ومیض ندوی
(استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد)
۲۰۱۷ ء اس حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ اس میں برصغیر ہند و پاک کی عظیم علمی شخصیات دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اسے بجا طورپر وفات العلماء کا سال قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھر رخصت ہونے والے علماء میں بڑی تعداد ان علماء کی تھی جنہوں نے اپنی پوری زندگی علمِ حدیث کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی۔ برصغیر کا علاقہ خدمتِ حدیث کے حوالے سے شروع سے زر خیز رہا ہے۔ یہاں چوٹی کے محدثین پیدا ہوئے جن کی خدمتِ حدیث کا اعتراف عرب علماء نے بھی کیا ہے۔ شیخ محمد عبدہ کے شاگردِ رشید مصر کی معروف علمی شخصیت علامہ رشید رضا نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس دور میں علماء ہند نے علوم حدیث پر توجہ نہ دی ہوتی تو مشرقی علاقوں سے یہ علم ختم ہوچکا ہوتا۔ ( لولاعنایۃ اخواننا علماء الہند بعلوم الحدیث فی ھٰذا لعصر لقضی علیھا بالزوال من امصارالشرق) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس دیار میں علمِ حدیث کا جو شجر لگایا تھا وہ تاحال سر سبز و شاداب ہے اور اس کی گھنی چھاؤں اور برگ و بار سے پوری امت مستفید ہورہی ہے۔ بر صغیر کے مختلف مرکزی اداروں میں علماء کی بڑی تعداد مسند درسِ حدیث کو زینت بخش رہی ہے۔ ۲۰۱۷ ء اس حیثیت سے یادگار سال کے طورپر جانا جائے گا کہ اس میں فنِ حدیث کے مخلص خدمت گاروں کی ایک بڑی تعداد دنیا سے کوچ کر گئی ۔ حضرت مولانا عبدالحقؒ اعظمی شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند ، حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ صاحب شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی، حضرت مولانا نسیم احمد غازی ؒ شیخ الحدیث مراد آباد، حضرت مولانا ریاست علیؒ بجنوری استاذ حدیث دارالعلوم دیو بند اور حضرت شیخ یونسؒ صاحب جونپوری شیخ الحدیث مظاہرعلوم ۔ یہ سب علمِ حدیث کے وہ مخلص خادم تھے جنہوں نے علم حدیث کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا اور جو زندگی کی آخری سانس تک اس میں مشغول رہے۔ اس سلسلہ کی آخری کڑی وہ سانحہ ہے جو گذشتہ ۹؍ستمبر ۲۰۱۷ ء کو امیر شریعت کرناٹک اور شیخ الحدیث دارالعلوم سبیل الرشاد حضرت مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی علیہ الرحمۃ کی رحلت کی شکل میں پیش آیا۔ علم و عمل ورع و تقویٰ ، خلوص و للہیت کا یہ آفتاب نصف صدی سے زائد عرصے تک روشنی بکھیرکر ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
امیر شریعت‘ مفکر ملت‘ میر کارواں‘ فقیہ دوراں‘ خطیب خوش بیاں‘ شاعر شیر یں زباں حضرت العلامہ مفتی محمد اشرف علی صاحب باقوی کا سانحہ ارتحال صرف ایک عالم دین کا حادثہ وفات ہی نہیں بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ان کی دلآویز شخصیت میں وہ سب کچھ تھا جو میر کارواں کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ نگاہ میں بلندی‘ سخن میں دلنوازی‘ جاں میں سوزو گداز جیسی وہ تمام خوبیاں جو میر کارواں کے لئے رختِ سفر کا درجہ رکھتی ہیں حضرت امیر شریعت کی شخصیت میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ ان کے لب کھلتے تو لگتا تھا جیسے موتیوں کا سیل رواں ہے۔وہ بولتے نہیں تھے بلکہ موتی رولتے تھے۔ ان کی شیریں سخنی مخاطب کے غموں کو کافور کردیتی تھی۔ اپنے ہوں کہ پرائے سب کو گلے سے لگانا اور ملاقات کے وقت ان کی ادائے دلنوازی ان کے انداز تخاطب کی دلکشی کچھ ایسی جاذبیت رکھتی تھی کہ ہر کوئی گرویدہ ہوجاتا تھا۔ وہ جس موضوع پر بھی خامہ فرسائی فرماتے لگتا تھا زبان وادب کی حلاوت از خود نوکِ قلم سے ٹپک رہی ہے ۔ خوبصورت الفاظ اور دلآویز تعبیرات ایک کنیز وفا شعار کی طرح ان کے سامنے دست بستہ کھڑی رہتی تھیں۔ وہ اپنے فضل و کمال کے سبب نا بغۂ عصر اور یگانہ روزگار شخصیتوں میں تھے۔ وہ ایک وسیع النظرعالم دین نامور فقیہ اور بلند پایہ محدث تھے۔
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی سیرت کے ان گنت پہلو شمار کئے جاسکتے ہیں لیکن ان سب میں نمایاں پہلو ان کی جامعیت اور ہمہ گیری ہے۔ جتنی جامعیت اور ہمہ گیری ان کے اندر نظر آتی ہے اس کی نظیر ان کے معاصرین میں آسانی کے ساتھ نہیں ملتی۔ ان کی سیرت میں جلال و جمال کا حسین امتزاج نظر آتا ہے ۔ ان میں اعتدال بھی تھا اور کمال بھی۔ علم و ادب کا سکوت بھی تھا اور تحریک و اجتماعیت کی سرگرمی بھی ۔ فکر کی تابانی بھی تھی اور ادب و انشاء کی درخشانی بھی، حسن اخلاق کی دلبری بھی تھی اور رعب و جلال کا دبدبہ بھی۔ وہ ایک شاعر دلنواز بھی تھے اور بلند پایہ نثر نگار بھی۔ وہ ایک شفیق استاذ اور مربی بھی تھے اور صاحب بصیرت قائد بھی ۔ وہ مسند درس پر علم و تحقیق کی موتیاں بھی بکھیرتے تھے اور عوامی جلسوں میں اصلاحی خطابات بھی فرماتے تھے۔
حضرت امیر شریعت کی دوسری خصوصیت خدمات کا تنوع اور دائرہ کار کی وسعت ہے۔ تدریس حدیث ان کا محبوب مشغلہ ضرور تھا۔ لیکن دیگر محدثین کی طرح انہوں نے خود کو درس حدیث تک محدود نہیں رکھا ۔ وہ دارالعلوم سبیل الرشاد جیسے با فیض ادارہ کے مہتمم تھے جس کا انتظام و انصرام اس شان سے فرماتے کہ کسی قسم کا جھول نظر نہیں آتا تھا۔ وہ بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ تعمیری کاموں سے لیکر تقسیم اسباق تک سارے امور حسن و سلیقہ کے ساتھ خود انجام دیتے تھے۔ طلبہ پر کڑی نظر رکھنے کے ساتھ حضراتِ اساتذہ کی بھر پور رہنمائی فرماتے تھے۔ مادرِ علمی دارالعلوم سبیل الرشاد کا نظم و ضبط پورے ملک میں انفرادی شان رکھتا ہے ۔ وہاں کے تربیتی نظام ،تعلیمی خصوصیات، اساتذہ کا احترام اور قوانین و ضوابط کی پاسداری کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت امیر شریعت کے دور اہتمام میں اس نے ترقی کی وہ منزلیں طئے کیں کہ نہ صرف جنوبی ہند بلکہ پورے ملک کا ایک ممتاز ادارہ بن گیا۔ سبیل الرشاد کے انتظام کے علاوہ ملک کے مختلف اداروں تنظیموں اور دینی تحریکات کی سرپرستی فرماتے تھے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، اسلامی فقہ اکیڈیمی آف انڈیا اور آل انڈیا ملی کونسل کے رکن تاسیسی اور نائب صدر اور رابطہ ادب اسلامی شاخ کرناٹک کے صدر تھے۔ دارالعلوم وقف دیو بند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن شوریٰ تھے۔ ان کے علاوہ کرناٹک ، تامل ناڈو ، کیرالا ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے درجنوں دینی مدارس کے نگران و سرپرست تھے۔ ان اداروں سے وابستگی کے نتیجہ میں سال کا ایک بڑا حصہ اسفار میں گزرتا تھا۔ طویل اسفار کی صعوبتوں کے ساتھ درسِ بخاری کا اس قدر اہتمام تھا کہ رات بھر سفر کے باوجود صبح درس بخاری کے لئے دارالحدیث پہنچ جاتے۔ حضرت مفتی صاحب کی زیر نگرانی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، فقہ اکیڈیمی اور ملی کونسل کے کامیاب ملک گیر اجلاس ہوئے۔ مذکورہ اداروں میں حضرت مفتی صاحب کے مشوروں اور آپ کی آراء کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ فقہ اکیڈیمی میں ایک کہنہ مشق فقیہ کی حیثیت سے آپ کی آراء کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کا شمار ملی کونسل کے بانیوں میں ہوتا ہے ۔ روز اول سے اس میں سرپرستانہ رول ادا کرتے رہے۔ اس کی مختلف ملی سرگرمیوں کو وسعت دینے کے لئے ملک کی مختلف ریاستوں کا دورہ فرمایا۔
مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی تیسری امتیازی خصوصیت ان کا فکری اعتدال مسلکی رواداری اور امت کے تمام طبقات میں اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے کی دلی آرزو ہے۔ وہ ہمیشہ مسلکی ہم آہنگی کے داعی اور مسلمانوں کے آپسی اتحاد کے نقیب رہے۔ مفتی صاحب کی یہی وہ امتیازی شان تھی جس نے انہیں ایک ایسا شجر سایہ دار بنادیا تھا جس کے سایہ تلے پہنچ کر بلا تفریق مسلک ہر شخص راحت وسکون پاتا تھا۔ وہ تمام مکاتبِ فکر میں نہ صرف قابل قبول تھے بلکہ سب کے ہر دلعزیز تھے۔ وہ ایسی دلنواز حیات افروز اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے کہ ان کی قیادت سب کے لئے باعثِ رحمت تھی۔ وہ اکثر اپنے خطابات میں مسلکی تشدد سے بچنے اور آپسی اتحاد کو برقرار رکھنے پر زور دیتے تھے۔ ان کا ایک ملفوظ علماء کے حلقہ میں کافی مشہور ہیکہ مسلمان آپس میں مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوسکتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مکتب فکر مکتب ذکر نہ بنائیں۔ وہ فروعی مسائل میں شدت کو ناپسند فرماتے تھے۔ اپنے ادارہ کے فضلاء کو تاکید فرماتے تھے کہ وہ امت کو جوڑنے کی فکر کریں اور ایسی کسی بھی کوشش سے گریز کریں جس سے ملت کا شیرازہ بکھر سکتا ہو۔ ان کی اسی دلنوازی کا نتیجہ تھا کہ سیکولر سیاسی قائدین اور مختلف شعبوں سے وابستہ عمائدین ان پر وانوں کی طرح نچھاور رہتے تھے۔
حضرت مفتی صاحب ایک متبحرعالم دین تھے۔ علوم اسلامیہ میں غیر معمولی درک رکھتے تھے ۔ حدیث و فقہ تو آپ کے اختصاصی موضوعات تھے ۔ اس سے ہٹ کر دیگر علوم شرعیہ پر بے پناہ رسوخ حاصل تھا۔ آپ جامعہ باقیات الصالحات ویلور اور دارالعلوم دیوبند دونوں میخانۂ علم کے بادہ خواروں میں تھے۔ جامعہ باقیات الصالحات کو جنوبی ہند میں وہی مقام حاصل ہے جو شمال میں دارالعلوم دیوبند کو حاصل ہے۔ اسے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا عبدالوہاب ویلوری نے قائم کیا تھا۔ حضرت مفتی صاحب کے والد گرامی حضرت مولانا شاہ ابوالسعود احمد صاحب امیر شریعت کرناٹک اول نے بھی اسی کو دانشگاہ سے اکتساب فیض کیا تھا۔ مولانا ابوالسعود علیہ الرحمۃ کو باقیات میں مفتی اعظم حضرت مولانا شیخ آدم صاحب شیخ الحدیث مولانا حسن پاشاہ صاحب ، حضرت مولانا سید محمد سعید صاحب،مولانا سید عبدالجبار صاحب، علامہ ضیاء الدین امانی اور مولانا عبدالصمد علمی جیسے اساطین علم کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل رہا۔ امیرِ شریعت اول نے روزِ اول سے حضرت مفتی صاحب کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی ۔ کم سنی کی عمر میں روز مرہ کی مسنون دعائیں یاد کروائیں۔ میل وشارم میں انجمن تبلیغ الاسلام کے تحت قائم مدرسہ مدینۃ العلم کا آغاز آپ ہی کی بسم اللہ خوانی سے ہوا تھا اور یہ بسم اللہ خوانی مفتی اعظم شیخ آدم کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی۔ ۱۹۵۳ ء میں آپ نے باقیات الصالحات میں داخلہ لیا ۔ جہاں مفتی شیخ آدم، شیخ الحدیث مولانا حسن پاشاہ شیخ التفسیر مولانا سید عبدالجبار مولانا رئیس الاسلام اور مولانا جعفر حسین صاحب جیسے چوٹی کے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ باقیات میں اساتذہ سخن مولانا نثار احمد فدوی باقوی اور مولانا کمالی ویلوری کی تربیت نے آپ کے ادبی ذوق کو خوب جلا بخشا۔ اس طرح دورانِ طالب علمی ہی سے آپ کو شعر و سخن سے شوق پیدا ہوا۔ ۱۹۶۰ ء میں باقیات سے آپ نے فضیلت مکمل کی۔ فراغت کے بعد کچھ عرصہ منبع العلوم لال پیٹ کے بانی اور اپنے دور کی عظیم علمی شخصیت حضرت ضیاء الدین امانی کی خدمت میں رہ کر علم منطق علم فلکیات علم اوقات الصلوٰۃ کے خصوصی اسباق لیتے رہے۔ اس دوران اوقات الصلوٰت پر علامہ امانی کی معروف کتاب عمدۃ الادلہ اور زجر لأمم فی ترجمۃ القرآن فی لغۃ العجم کی ترتیب و تسوید میں حصہ لیا۔ پھر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں دورۂ حدیث اور افتاء کے سالوں میں اس دور کے مشہور اساتذہ علامہ ابراہیم بلیاوی ، مولانا فخر الحسن اور شیخ الحدیث مولانا فخر الدین مراد آباد ی سے کسبِ فیض کیا۔ بخاری شریف کے درس میں اپنے استاذ مولانا فخر الدین علیہ الرحمۃ سے خصوصی استفادہ کیا۔ افتاء کے سال دیوبندکے صدر مفتی حضرت مہدی حسن علیہ الرحمہ سے تربیت افتاء پائی۔ دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے والد محترم کے قائم کئے ہوئے ادارہ دارالعلوم سبیل الرشاد میں تدریسی خدمات کا سلسلہ شروع فرمایا اور تادم آخری درسِ بخاری شریف سے منسلک رہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک بخاری شریف کی تدریس کوئی معمولی اعزاز نہیں۔ درسِ حدیث سے طویل اشتغال نے آپ کے اندر احادیثِ رسول اور ذاتِ رسول ا سے والہانہ شغف پیدا کردیا تھا۔ آپ کا درسِ بخاری بے پناہ مقبول تھا جس میں استاذ محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا فخر الدین کی جھلک محسوس ہوتی تھی۔ آپ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ اپنے خطابات کے دوران اجتماعی و سیاسی معاملات میں حدیث و سیرت سے رہنمائی لینے کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مسجد نبوی میں درس حدیث دینے کے لئے خاص اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب بھی درس بخاری کے لئے خاص اہتمام فرماتے تھے بالخصوص ادب و توقیر کا بھرپور لحاظ رکھتے تھے۔ درس کے دوران ہمیشہ قعدہ کی نشست ہوتی تھی۔ بسا اوقات پورا گھنٹہ گزر جاتا تھا مگر نشست تبدیل نہ فرماتے ۔ طلبہ حدیث پر پورا گھنٹہ سکوت اور سکینہ کی کیفیت طاری رہتی ۔
جہاں تک آپ کے اندازِ بیان اور اسلوبِ خطاب کا تعلق ہے تو یہ بات بجا ہے کہ آپ اپنے خطاب میں کوثر و تسنیم سے دھلی زباں استعمال فرماتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں سنا تھا کہ ان کو سننے والے کی نظر میں کوئی دوسرا جچتا نہیں تھا ۔ حضرت مفتی صاحب کے سحر الخطاب کا بھی کچھ یہی عالم تھاکہ ان کو سننے والا گرویدہ ہوکر رہ جاتا تھا اور طبیعت چاہتی تھی کہ سنتے ہی رہیں۔ آپ کا خطاب ’’از دل خیز دبر دل ریزد‘‘ کا مصداق ہوتاتھا۔ الفاظ کا حسن انتخاب تسلسل و روانی علمی نکات کی گرہ کشائی ، مخاطب کی رعایت، مقتضائے حال کا لحاظ ،الغرض ان تمام خوبیوں سے مرصع ہوتا تھا جو کسی کا میاب خطیب کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ خطاب کی طرح آپ کی تحریر بھی نہایت شستہ اور انتہائی خوبصورت ہوتی تھی۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر، عظیم انشاء پرداز اور وسیع المطالعہ صاحبِ قلم تھے ۔ جس زمانے میں انہوں نے سہ ماہی سلسبیل نکالا تھا اس دور کی ان کی تحریریں بالخصوص سہ ماہی سلسبیل کے ادارئیے ادبی شاہ کار کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ کی نثر میں پُر شوکت الفاظ ، تشبیہات و استعارات اور محاورں کا استعمال اور جملوں کی تک بندی کچھ ایسی ہوتی تھی کہ نثر پر نظم کا شبہ ہونے لگتا تھا۔ حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ کے انتقال پر آپ نے جو تعزیتی مقالہ تحریر فرمایا تھا وہ بلا مبالغہ ادبی شہ پارہ کہلانے کا مستحق ہے۔ جس نے بھی اسے پڑھا اشکبار ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ مقام مسرت ہے کہ حضرت کے تمام مضامین کا مجموعہ ’’ اوجِ شرف‘‘ کے نام سے منظر عام پر آرہا ہے جس کی رسم اجراء کے لئے حضرت مفتی صاحب نے ۱۶ ؍ستمبر کی تاریخ بھی دے دی تھی۔ لیکن اس سے قبل ہی وقت موعود آپہنچا ۔ آپ کی نعتوں اور خوبصورت غزلوں اور آزاد نظموں کی بھی بڑی تعداد ہے جو وقتاً فوقتاً سہ ماہی سلسبیل میں شائع ہوتی تھیں۔ آپ نے سلسبیل میں اعدادِ قرآنی کے نام سے قسط وار سلسلہ شروع فرمایا تھاجس میں ان تمام آیات قرآنیہ کی سلیس اور دلنشیں تشریح فرمائی جن میں کسی نہ کسی عدد کا تذکرہ ہے۔ آپ کی نعتیں انتہائی مؤثراور عشقِ رسول ﷺ سے سرشار کرنے والی ہوتی تھیں۔ آپ نے ہر نعت عشقِ رسول ﷺ میں ڈوب کر لکھی ۔ نبی رحمت ﷺ سے بے پناہ عشق کا یہ عالم تھا کہ ذکرِ رسول ﷺ سن کر اشکبار ہوتے تھے۔ آپ کی ایک نعت جس کا پہلا مصرع ’’آتشِ عشق نبی میں جل کے سکھ پانے کا نام ‘‘ہے ، زبانِ زد و خاص و عام ہوگئی۔ آپ کی علمی خدمات کا ایک رخ آپ کے وہ علمی فتاویٰ ہیں جو آپ نے گزشتہ نصف صدی کے دوران صادر کئے۔والد ماجد حضرت امیر شریعت اول کے انتقال کے بعد بالاتفاق آپ کو امیر شریعت منتخب کیاگیا۔ دارالقضاء کے فیصلوں اور دار الافتاء سبیل الرشاد کے فتاویٰ کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ یہ ایک عظیم علمی و فقہی ذخیرہ ہے جو اگر زیور طباعت سے آراستہ ہوجائے تو علماء کے لئے استفادہ عام ہوگا۔ فتاویٰ میں حضرت مفتی صاحب کا منہج اپنے اسلاف کے طریق سے پوری طرح ہم آہنگ تھا۔ مفتی کو زمانہ شناس ہونا چاہئے ۔احوال و ظروف کا صحیح ادراک ہونا چاہئے ۔ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے راہِ اعتدال پر قائم رہنا چاہئے ۔ حضرت مفتی صاحب بحیثیت امیر شریعت ان اوصاف میں کمال رکھتے تھے۔
حضرت مفتی صاحب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے دور کے تمام اکابر علماء اور علمی شخصیات کے محبوب و مقبول تھے۔ انہیں اپنے اکابر علماء سے بے پناہ محبت تھی اور اکابر شخصیات کو بھی حضرت مفتی صاحب سے بڑی محبت تھی۔ حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ صاحب ، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ ، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ، حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی اور حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقلؒ کے علاوہ درجنوں اکابرتھے جو حضرت امیر شریعت ؒ سے بے انتہاء محبت فرماتے تھے اور یہ چیز عنداللہ مقبولیت کی دلیل ہے۔
رہی اوصاف و عادات کی بات تو حضرت مفتی صاحب اخلاق فاضلہ اور اوصاف حمیدہ کے پیکر تھے۔ آپ کی سب سے نمایاں خوبی جسے ہر شخص محسوس کرتا تھا وہ آپ کی منکسرالمزاجی اور تواضع تھا۔ جلسوں میں منصب صدارت پر فائز ہوتے ۔ خطاب کے آغاز میں اس کا اظہار کرتے کہ میرے حق میں اونچے کلمات کہے گئے ہیں۔ میں بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ علماء اور طلبہ سے انتہائی متواضعانہ انداز سے ملتے۔اسی طرح آپ کی ایک ممتاز خوبی احسان شناسی تھی۔ آپ اپنے اساتذہ اور محسن شخصیات کے ہمیشہ احسان مند رہتے ۔ ان کے احسانات کا تذکرہ فرماتے تھے اور اپنے ادارہ کے فضلاء کو بھی احسان شناسی کی تاکید فرماتے۔ دارالعلوم حیدرآباد کو ختم بخاری شریف کے لئے ایک سے زائد مرتبہ آپ کی آمد ہوئی۔ جب بھی آپ نے خطاب فرمایا حضرت امیر ملتِ اسلامیہ کے احسانات کا تذکرہ فرمایااور بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیتے ہوئے طلبہ کو بڑے قیمتی نصائح فرمائے۔ فرمایا: اساتذہ کی دعائیں لیجئے یہی اصل سرمایہ ہے۔ خدمتِ دین کے مختلف شعبے ہیں جس شعبے میں خدمت کا موقع ملے انشراح و اطمینان سے کیجئے کسی شعبے کو معمولی مت سمجھئے۔ ساری کتابیں سارے اساتذہ عزت و احترام کے حوالہ سے برابر ہیں۔ امامت کی خدمت بہت اہم ہے۔ ساری چیزوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ہوچکی ہیں لیکن امامت آج بھی علیٰ منہاج النبوۃ باقی ہے۔ عصری علوم و فنون کبھی بیکار ہوسکتے ہیں لیکن دینی علوم کبھی بیکار نہیں ہوتے۔ ولایت کا ملہ کے بغیر اجتہاد تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ علماء دین کی سرحد کے محافظ ہیں۔ انہیں معاش کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔
آج جبکہ حضرت مفتی صاحب ہم سے جدا ہوچکے ہیں ۔ علم کی بزم سونی سونی نظر آتی ہے۔ جلسوں کی رونق ختم ہوچکی ہے۔ عالمانہ وقار رکھنے والی شخصیت کے انتقال سے دینی و علمی حلقے سو گوار ہیں۔ مفتی صاحب جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ شاعر نے سچ کہا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں