جو مری پشت میں پیوست ہے اُس تیر کو دیکھ — کتنی خوش رنگ نظر آتی ہے تصویر کو دیکھ

رقص کرتا ہوا مقتل میں چلا آیا ہوں — پاؤں مت دیکھ مرے پاؤں کی زنجیر کو دیکھ

کوئی نیزہ مرے سینے میں علم ہوتا ہے — مری شہ رگ پہ چمکتی ہوئی شمشیر کو دیکھ

خود کو ایجاد میں کرتا ہوں نئے طرز پہ روز — اے مری جان کبھی تو مری تعمیر کو دیکھ

میری آنکھوں میں کسی خواب نے دم توڑ دیا — میری پلکوں سے الجھتی ہوئی تعبیر کو دیکھ

کیا ہے دنیا کے خرابات میں وحشت کے سوا — مجھ میں آباد مرے شہرِ اساطیر کو دیکھ

اتنی عجلت تھی کہ میں خود کو وہیں چھوڑ آیا — کون دیتا ہے صدا کوچۂ تاخیر کو دیکھ

مرے الفاظ کی دنیا کی کبھی سیر تو کر — مجھ سے کچھ خاک نشینوں کی بھی جاگیر کو دیکھ

دیکھ شاہدؔ کو سمجھنا کوئی آسان نہیں — اتنا دشوار نہیں ہوں مری تحریر کو دیکھ

شاہدؔ کمال انڈیا