عادل فراز

شہید مولوی محمد باقر رحمتہ اللہ علیہ کا نام آتے ہی ایک مرد مجاہد ،جانباز ،اور بیباک صحافی کی تصویر ذہن کے کینوس پر ابھرتی ہے ۔جس عہد میں طباعت و اشاعت کی سہولیات نا کے برابر تھیں اس عہد میں بھی ،ادب ،سماج اور قوم و ملت کی خدمت کرنا اور سامراجی نظام وکمپنی کی بربریت کے خلاف ببانگ دہل لکھنا اور اپنی ملت کی آواز بننا آسان کام نہیں تھا ۔ مولوی محمد باقر کی جرآت مندانہ صحافت اور آزادانہ فکر کو ہم آج کے عہد کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھیں گے تو اندازہ ہوگاکہ وہ کتنی جسمانی و ذہنی اذیتوں کا شکار رہے ہونگے۔آ ج اکثر قلمکاروں کے قلم میں چاندی کی سیاہی انڈیل دی گئ ہے اور قلم سونے کے ہوگئے ہیں۔فکر خوف و دہشت کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہے یا پھر پروان چرھنے والی فکروں کی نیلامی ہوجاتی ہے ۔ذرا محسوس کریں کہ آخر مولوی محمد باقر کس عہد میں سانس لے رہے تھے ۔جہاں سامرجی نظام اور اسکی آمریت کے خلاف آواز اٹھانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا ۔جس عہد میںانگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کے دلوں میں نفرت کا لاوا ابل رہا تھا اور ۱۸۵۷ کی بغاوت قریب تھی اس عہد میںانقلابیوں اور مجاہدوں کی آواز بن کر گلی کوچوں تک پہونچنا کتنا مشکل کام رہا ہوگا ۔

مولوی محمد باقر ایک متدین اور ذی علم گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔انکا خاندان ایران کے معروف شہر ہمدان سے ہجرت کرکے شاہ عالم کے دور حکومت میں ہندوستان آکر بسا تھا ۔انکے جد امجد حضرت محمد شکوہ ۱۱۲ ہجری میں جب دہلی آئے شاہ عالم نے انکی شایان شان پذیرائی کی اور ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا ۔چونکہ مغل بادشاہ سادات کرام کی بڑی تکریم و تعظیم کرتے تھے لہذاحضرت محمد شکوہ کو انکےعلمی معیارکے مطابق تبلیغ کی آزادی دی گئی ۔مولوی محمد باقر دہلوی کے بقول انکے جد امجد حضرت محمد شکوہ مسلم الثبوت مجتہد تھے لہذا انکی عظمت شاہی دربار میں اور عوام کے دلوں پر غالب رہی ۔اسی عظمت کی بنیاد پر مغل اقتدار میں بھی انہیں اپنے عقیدہ و مسلک کی تبلیغ کی آزادی دی گئی اور خزانۂ شاہی سے ماھانہ اعانت بھی معین کی گئی۔

مولوی محمد باقر رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان میں سبھی حضرات مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے ۔علم حدیث،علم تفسیر ،علم فقہ اور علم تاریخ کے بہترین عالم موجود تھے ۔انکے والد مولوی محمد اکبر ایک برجستہ عالم دین اور بہترین مدرس تھے ۔درگاہ پنجہ شریف دہلی کے قریب ہی انکی تعمیر کردہ امام بارگاہ تھی جسے آزاد منزل کے نام سے جانا جاتاتھا ۔آج اس عمارت میں موٹر پارٹس کی دوکان کھلی ہوئی ہے ۔درگاہ پنجہ شریف کے قریب ہی انکا معروف حوزہ علمیہ تھا جو اہل تشیع کی علمی و فکری تربیت میں کوشاں تھا۔انکے حوزہ علمیہ میں مکتب تشیع کے مطابق تعلیم و تدریس کا انتظام تھا ۔سیکڑوں طلباء تحصیل علم کرتے تھے۔(دلّی میں اردو صحافت کے ابتدائ نقوش از محمد یوسف ص ۱۰۲) اس سے واضح ہوتاہے کہ مغل بادشاہوں کی اکثریت مائل بہ تشیع تھی یا مکتب تشیع کے نظریات و عقائد سے متاثر تھی ورنہ شیعہ عقائد و نظریات کی تبلیغ کی اس قدر چھوٹ نہیں دی جاتی ۔ ان کے شاگردوں میں مولانا رجب علی شاہ، ارسطو جاہ اور مولانا سید قاری جعفر علی صاحب جارچوی کے اسماء بہت مشہور ہیں۔چونکہ اس زمانہ کے ریکارڈ تقریبا معدوم ہیں اس لئے مولوی محمد باقر کے آباء اجداد کے علمی خدمات اور رشحات قلم بھی ناپید ہوچکے ہیں۔مولوی محمد باقر کی خدمات بھی اس لئے منظر عام پر ہیں کیونکہ وہ جدید فنون سے وابستہ تھے اور تحریک آزادی کے علم برداروں میں شامل تھے ۔انکی اہم تصانیف میں ہادی التواریخ،سیف صارم المعروف بہ شمشیر تیز،ہادی المخارج،سفینۂ نجات،تفسیر آیہ ولایت،رسالہ عید غدیر،کتاب التقلیب،مفیدالعلوم ،رسالہ نکاح اور دیگر کتابیں شامل ہیں۔(تاریخ صحافت از امداد صابری ،جلد اول،ص ۲۲۰،مطبوعہ ۱۹۵۳)

انیسویں صدی کے آغاز سے پہلے ۱۸۳۰ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومتی سطح پر فارسی زبان کی عدالتی حیثیت ختم کرکے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیدیا ۔یہ وہ عہد تھا کہ جب انگریزی نظام کے خلاف انقلابی افراد علم بغاوت بلند کررہے تھے ۔۱۸۵۷ کی بغاوت سے پہلے مولوی محمد باقر نے محسوس کیا کہ انقلابی ہندوستانیوں کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے جو ایوان حکومت کی پتھریلی دیواروں سے چھن کر آمروں اور جابروں کے کانوں تک پہونچ سکے ۔لہذا انہوں نے وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہفت روزہ اخبار کی بنیاد رکھی ۔۱۸۲۵ میں لیتھو گرافی کی ایجاد ہوچکی تھی اور ۱۸۳۶میں نئے اخبار نکالنے کی اجازت بھی مل چکی تھی(دلّی میں اردو صحافت کے ابتدائی نقوش از محمد یوسف ص ۴۸) ۔یعنی ۱۸۵۷ کی بغاوت شروع ہونے سے قبل اخبار نکالنے کی اجازت کا ملنا ہندوستانیوں کے لئے بڑی خبر تھی اور انقلابی باغیوں کے لئے ذرائع ابلاغ کی افادیت کا سمجھنا بہت اہم تھا ۔ایسے ماحول میں مولوی محمد باقر نے ہفت روزہ ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ نکالنے کا عزم لیا اور ہندوستانیوں کی کمزور آواز کو تقویت بخشنے میں مصروف ہوگئے ۔۱۸۳۶ کے آس پاس انہوں نے اپنا پریس خریدا تاکہ اپنی تصنیف و تالیفات کی اشاعت کو آسان بناسکیں ،پریس کی خریداری کے بعد ۱۹۳۷ ’’اردو اخبار دہلی‘‘ کا آغاز کیا۔ آگے چل کراخبار کے نام میں ذرا سی تبدیلی کرتے ہوئے ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کردیا گیا۔

شہید مولوی محمد باقر خوش فکر عالم دین ہونے کے ساتھ ایک مدبر اور دوراندیش شخص بھی تھے۔ اسکا اندازہ اس وقت ہوتاہےجب انہوں نے اپنے ’’ جعفریہ پریس‘‘ کا نام بدل کر ’’ اردو اخبار پریس کردیا۔گویا انہیں یہ احساس ہوگیا تھا کہ ایسے پرآشوب حالات میں مسلکی سطح سے اوپر اٹھ کر کام کرنےکی ضرورت ہے ورنہ جو کام ’’اردو اخبار پریس ‘‘ میں ہوتا تھا وہی کام ’’جعفریہ پریس‘ میں بھی ممکن تھا ۔یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مولویت کو مسلکی حد بندیوں اور فرقہ وارانہ عصبیت سے بچانے کی کوشش کی ۔آگے چل کر انکا اخبار بھی بلا قید مذہب و مسلک ہر ہندوستانی کی آواز بن کر منظر عام پر آیا اور مقبولیت حاصل کی

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ذرائع ابلاغ کے نام پر فقط’’ مغلیہ خبررساں سسٹم ‘‘موجود تھا ۔یہ سسٹم دربار شاہی اور اس سے متعلق خبروں تک ہی محدو دتھا ۔وقائع نگاری کا عروج تھا ۔ایسے عہد میں اخبار کے لئے مستند خبروں کو جمع کرنا اور ایک ہفتہ میں انکی بررسی کے بعد اشاعت کے مرحلے تک پہونچنا آسان کام نہیں تھا ۔انہوں نے دربار شاہی کی خبروں سے الگ علاقائ ،شہری و ریاستی خبروں کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا ۔ذرائع ابلاغ کی توسیع کا غالبا یہ پہلا قدم تھا ۔آج نیوز ایجنسیوںکے زمانہ میں خبر نگاری کے نام پر فقط ’’کٹ پیسٹ ‘‘عام بات ہے مگر پوری خبر کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ لکھنا اور ان خبروں کی تحقیق کرنا کتنا مشکل رہا ہوگا یہ آج کے ترقی یافتہ زمانہ میں سمجھنا آسان ہے ۔

اورنگزیب کے انتقال کےبعد وقائع نگاروں کی پوری ٹیم کو انگریزوں نے جا لیا ۔کچھ وقائع نگار انکے ہاتھوں بک گئے اور کچھ وقائع نگاروں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر لکھنے میں ہی عافیت جانی ۔یہ وہ عہد تھا کہ جب کئ اخبارات منظر عام پر تھے اور انگریزی نظام کے خلاف بغاوت کی آوازیںاٹھنے لگی تھیں۔اس وقت جتنے بھی اخبارات منظرعام پر تھے انکا ہدف فقط اصلاح تک محدود تھا ۔کسی بھی اخبار میں انگریزی آمریت اور کمپنی کے تسلط کے خلاف نہیں لکھا گیا ۔اردو اخبار پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جو دربار شاہی سے لیکر کمپنی کی خبروں تک اور قومی و بین الاقوامی خبریں بھی شائع کررہا تھا ۔’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے پہلے صفحہ پر ’’ حضوروالا‘‘ عنوان کے تحت مغل بادشاہ وشہزادوں کی خبروں کے ساتھ قلعۂ معلی کی نقل و حرکات اور ’’ صاحب کلاں‘‘ عنوان کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں چھپتی تھیں۔اخبار میں مذہبی مضامین کے ساتھ ادبی گوشہ بھی ہوتا تھا ۔مومن ،ذوق اور غالب کا کلام خصوصیت کے ساتھ شامل اشاعت ہوتا۔بہادرشاہ ظفر اور زینت محل کا کلام بھی زیب ورق ہوتاتھا۔اداریے باقاعدگی سے نہیں چھپتے تھے مگر خبروں کے نیچے تبصرے شامل ہوتے ۔اداریوں کے باقاعدگی سے نہ چھپنے کی اہم وجہ خبروں کی حصولیابی ،انکی تصدیق اور اشاعتی ذمہ داریاں رہی ہونگی۔
مولوی محمد باقر نے اکتوبر ۱۸۴۳ء میں ’’مظہر الحق ‘‘کے نام سے بھی ایک اردو اخبار نکالاتھا۔ جس میں شیعہ فرقے کے نقطہ نگاہ کی ترجمانی ہوتی تھی۔ اس کے مدیر امداد حسین تھے۔اس اخبار کے مطالعہ کے بعد مولوی محمد باقرکی فکری اور نظریاتی بنیادوں کا صحیح علم ہوتاہے ۔یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ غلامی کے خلاف کس طرح شیعہ نظریہ کی وضاحت کی جاتی تھی تاکہ سامراجی نظام کے خلاف شیعہ قوم میںبھی بیداری پیدا ہو ۔یہ کام جزوی طور پر ہوتا تھا مگر کلی طور پر یہ اخبار شیعہ عقائد و نظریات کی ترجمانی کرتا تھا۔

’’دہلی اردو اخبار ‘‘ پہلا ایسا اخبار تھا جو وقت اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر رفتہ رفتہ پوری طرح سیاسی ہوگیا تھا ۔اگر اخبار کے سیاسی موقف اور اسکے عوامی اثرات سے انگریز خوف زدہ نہ ہوتے تو مولوی محمد باقر کو پرنسپل ٹیلر کے قتل کا فرضی مجرم بتاکر کبھی موت کے گھاٹ نہ اتارا جاتا۔انکے سیاسی نظریات اور عوام میں انکی بڑھتی مقبولیت اور تاثر پزیری کے نتیجہ میں ہی انہیں سزا دی گئی ۔۱۸۵۷ سے ٹھیک پہلے انہوں نے اخبار کے ذریعہ انقلابیوں کی بھر پور حمایت کی اور انکے جوش و ولولہ میں اضافہ کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔گویا انہوں نے اپنے اخبار کو آزادی ہند کے لئے وقف کردیاتھا اور اخبارکو تحریک جد و جہد آزادی کا اہم ستون بنانے کی کوشش کی ۔مئی ۱۸۵۷ کا پورا شمارہ انہوں نے انقلاب اور جدو جہد آزادی پر مشتمل رکھا ۔اخبار میں دہلی،میرٹھ ،سہارنپور ،انبالہ اور دیگر علاقوں کی سیاسی و ثقافتی خبریں شایع ہونے لگیں ۔بعد کے تمام شمارے اسی روش پر نکالے گئے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت انہوں نے کس طرح سہارنپور،انبالہ ،جھجر ،کٹک ،لاہور، ملتان ، کلکتہ ، بھوپال ،میسور ،جھانسی ،اورمیرٹھ و روڈکی جیسے علاقوں کی خبریں اور حالات معلوم کئے ۔اس وقت ٹیلی فون اور کوئی بھی الکٹرانک سہولت میسر نہیں تھی جسکے ذریعہ فورا خبریںمعلوم کی جاسکیں۔ایک ہفتہ بھی ایسی خبروں اور حالات کے علم کے لئے ناکافی تھا کیونکہ سہارنپور، میرٹھ اور انبالہ جیسے شہر دہلی سے اتنے نزدیک بھی نہیں ہیں کہ گھر بیٹھے خبریں معلوم ہوجاتیں۔یعنی اس وقت بھی مولوی محمد باقر کا تعلقاتی و اخباری نیٹ ورک اتنا وسیع تھاکہ دوردراز کے شہروں کی خبریں انہیںبروقت مل جاتی تھیں۔ہوسکتاہے وہ ان خبروں کے حصول کے لئے فوجی دستوںاورانقلابی نیٹ ورک کا سہارا لیتے ہوں۔کیونکہ اسکے بغیر دور دراز کے علاقوں سے صحیح حالات کا علم ہونا ممکن نہیں تھا۔۱۸۵۷ کی بغاوت کی ناکامی کے بعد ۱۳ دسمبر ۱۸۵۷ کو اس اخبار کا آخری شمارہ منظر عام پر آیا اور تقریبا بیس سالوں کی مسلسل اشاعت کے بعد یہ اخبار بند کردیا گیا۔بغاوت کو کچلنے کے بعد لارڈ کیننگ نے تمام اخبارات پر ایک بار پھر پابندی عائد کردی تھی جو بچے وہ کمپنی کا گن گان کرنے میں لگ گئے ۔لارڈ کیننگ کا سارےاخبارات پر پابندی عائد کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ۱۸۵۷ کی بغاوت کو اہم رخ دینے میں اخبارات کا اہم کردار تھا ۔اگر یہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو اردو اخبارات کا کردار عالمی سطح پر اپنا لوہا منوالیتامگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔

دہلی اردو اخبار کی سیاسی و سماجی اہمیت مسلّم مگر اسکی ادبی حیثیت بھی کم نہ تھی۔خواجہ احمد فارقی ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے مقدمہ میں’’دہلی اردو اخبار‘‘ کی ادبی اہمیت کوواضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’دہلی اردو اخبار شاہ جہان آباد دہلی کا پہلا اردو اخبار تھا جس کے مطالعے سے مومن، غالب، شیفتہ، آزردہ، ذوق اور ظفر کاسارا ماحول اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ ہی آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے اور ہم اس جام جم میں دو دنیاؤں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں جس میں ایک ابھرتی ہوئی اور دوسری ڈوبتی ہوئی ‘‘۔(دہلی اردو اخبار ص۱ مقدمہ )’’دہلی اردو اخبار‘‘ کی اہمت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ مرزا غالب نے اپنے خطوط میں،بہادر شاہ ظفر کے مقدمے اور گارساں دتاسی کے لیکچرز میں اسکا ذکر کیا گیاہے ۔دہلی اردو اخبار کے نسخوں کی لسانی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے ۔کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب اردو نئ نئ زبان تھی اور نئے لسانی کینڈے ترتیب پارہے تھے ۔زبان پر فارسیت کا غلبہ تھا اور اردو ایک الگ ہی رنگ و روپ میں موجود تھی ۔دہلی اردو اخبار کی ۱۸۴۰ کی جلد ۳ کے اس اقتباس کو ملاحظہ کریں جو بیک وقت دہلی کے حالات کی عکاسی اور لسانی اہمیت کا حامل ہے ۔’’بسبب الغیاث اور فریاد،تنخواہ داروں کے مرزا شاہ رخ بہاد ر کو تاکید ہوئی کہ تنخواہ تقسیم کی جاوے ۔سو کچھ لوگوں کو تقسیم ہوئی اور بعض بیچارےپھر باقی رہے ۔مختار کو لوگ بہت دعائے خیر سے یاد کرتے ہیں۔نواب تاج الدین حسین خان کو از راہ مرحمت سلطانی ایک جریب عنایت ہوئ۔قرضخواہوں نے جو رستے میں گھیرا تھا سو مرزا شاہ رخ بہادر نےحکم دیاکہ قلعہ کے دروازہ کے اندر گھسنے نہ پاویںاور بلکہ نیاز علی کے واسطے بھی ۔لیکن حضور سے ارشاد ہوا کہ قرضخواہوں کو ممانعت قلعہ کی نہ کرنی چاہئے اور دوستی انکی کرنی چاہئے‘‘۔

ماہ محرم الحرم میں شیعہ و سنی تنازع کی روایت بھی قدیم ہے ۔مغلوں کے عہد میں بھی ایسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہے ۔ایسے تنازعات پر ’’دہلی اردو اخبار ‘‘۲۲ مارچ ۱۸۴۰ جلد ۳ کی رپورٹ ملاحظہ کریں ۔’’سنا گیاکہ عشرۂ محرم میںباوجود اسکے کہ ہولی کے دن بھی تھےاسپر بھی بسبب حسن انتظام صاحب جنٹ مجسٹریٹ اور ضلع مجسٹریٹ کے بہت امن رہا ۔کچہہ دنگا فساد نہیں ہوا صرف ایک جگہ مسمات امیر بہو بیگم بیوہ شمس الدین خان کے گھر میں جو شیعہ مذہب ہے اور وہاں تعزیہ داری ہوتی ہے کچھ ایک سنی مذہبوں نے ارادہ فساد کیاتھا لیکن کچھ زبانی تنازع ہوئی تھی کہ صاحب جنٹ مجسٹریٹ کے کان تک یہ خبر پہونچی ،کہتے ہیں کہ صاحب ممدوح جو رات کو گشت کو اوٹھےتو خود وہاں کے تہانہ میں جاکے داروغہ کو بہت تاکید کی اور کچھ اہالیان پولس تعین کئے کہ کوئ خلاف اوسکے گھرمیں نہ جانے پاوےسو خوب انتظام ہوگیا اور پہر کہیں کچہہ لفظ بھی نزاع کا نہ سنا گیا۔۔۔‘‘۔

۱۸۵۷ کی بغاوت شروع ہونے سے پہلے ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کا نام بدل کر ’’اخبار الظفر‘‘ کردیا گیا تاکہ تمام انقلابی اور علم بغاوت بلند کرنے والے افراد بادشاہ کی ذات والا صفات کو محور تصوررکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔اخبار کے سارے آخری شمارے اسی نام سے شایع ہوئے ۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اردو اخبار کی عوام و خواص میں مقبولیت کا عالم کیا رہا ہوگا ۔بہادر شاہ ظفر سے اخبار کی اتنی نزدیکیوں اور انکی اخبار کو حاصل تائید پر کمپنی کی نگاہیں تھیں ۔کیونکہ یہ وہ عہد تھا کہ جب بہادر شاہ ظفر فقط لال قلعہ کے درودیوار کے بادشاہ تھے۔اردو اخبار کو قلعہ معلیٰ کی بھر پور تائید اور حمایت حاصل تھی۔اسی بناپر’’ اردو اخبار‘‘ میں قلعہ شاہی کی معتبر و مستند خبریں ہی شایع ہوتی تھیں ۔اس طرح وہ پروپیگنڈہ جو بہادر شاہ ظفر کے خلاف انگریز کررہے تھے اردو اخبار اس پروپیگنڈہ کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کررہا تھا ۔جس وقت بغاوت نے زورپکڑا اور میرٹھ کے نوجوانوں نے بہادر شاہ ظفر کی ذات کو محور تصور کرتے ہوئے دلی کا رخ کیا اس وقت ان کے ذہنوں میں جو بادشاہ کی انقلابی و مخلصانہ تصو یر تھی اس تصور میں اردو اخبار نے ہی رنگ بھر ے تھے ۔ورنہ میرٹھ کے نوجوانوں کو لال قلعہ کے اندر کی حقیقت کا علم کیسے ہوپاتا اور نہ وہ بہادر شاہ ظفر کی نیت کے اخلاص اور انگریزی نظام سے انکی نفرت کی حقیقت کو سمجھتے تھے۔کسی بھی نظام کے خلاف بغاوتی تحریک کو منظر عام پر لانے کے کئ طریقے ہوتے ہیں۔دہلی اردو اخبار نے اس تحریک کوخبروں میں ضرورت کی حد تک شامل کیا ۔حد سے تجاوز کی صورت میں اخبار پر انگریزی نظام کا نزلہ گرتا یا پھر انقلابی تحریک متاثر ہوتی ۔قلعہ معلیٰ کی خبریں بھی مغل پرستی یاحب بادشاہ پر دلالت نہیں کرتی ہیں ۔بعض خبریں قرض خواہوں کے اصرار ،شہزادوں کی زبوں حالی اور قلعہ معلیٰ میں بادشاہ کی موجودگی کے باوجود کمپنی کے افسران کے حکم نامہ کے نفاذ کی خبریں جوں کی توں شایع کی گئیں۔اس طرح کمپنی سے براہ راست دشمنی نہیں کئ گئی بلکہ ایک منصوبہ بند پالیسی کے تحت اخبار نے کام کیا اور خبروں میں توازن کو برقرار رکھا۔

مولوی محمد باقر رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت کے متعلق بھی کئ قول پائے جاتے ہیں۔کسی مؤرخ نے لکھا ہے کہ انہیں انگریزوں نے گولی ماردی تھی اور کسی تاریخ نویس نے لکھاہے کہ انہیں توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا تھا ۔دوسرا قول زیادہ معروف ہے ۔اس سلسلے میںڈاکٹر عبدالحق لکھتے ہیں’’ ۱۸۵۷ کے ہنگامہ و آشوب میںبہ ہزار دقت ٹیلر صاحب کالج کے احاطہ میں آئے اور اپنے بڈھے خانساماں کی کوٹھری میں گھس گئے ۔اس نے انہیں مولوی محمد حسین آزاد کے والد کے گھر پہونچادیا۔مولوی محمد باقر سے انکی بڑی گاڑھی چھنتی تھی ۔انہوں نے ایک رات تو ٹیلر صاحب کو اپنے امام باڑے کے تہہ خانے میں رکھا لیکن دوسرے دن جب انکے امام باڑے میںچھپنے کی خبر محلے میں عام ہوگئی تو مولوی صاحب نے ٹیلر صاحب کو ہندوستانی لباس پہناکر چلتا کیا مگر انکا بڑا افوسناک حشر ہوا۔غریب بیرام خان کی کھڑکی کے قریب جب اس سج دھج سے پہونچے تو لوگوں نے پہچان لیا اور اتنے لٹھ برسائے کہ بیچارے نے وہیں دم دے دیا۔بعد میں مولوی محمد باقر اس جرم کی پاداش میں سولی چڑھادیے گئے اور انکا کوئ عذر نہ چلا‘‘۔ (مرحوم دہلی کالج دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۵ ص ۶۱ از ڈاکٹر عبدالحق )خواجہ احمد فاروقی نے لکھاہے کہ مولوی ذکاء اللہ ،جہان بانو نقوی اور آغا محمد باقر کے بیانات اس سے قدرے مختلف ہیں لیکن سب اس پر متفق ہیں کہ مولوی محمد باقر کو پرنسپل ٹیلر کے قتل کے جرم میںموت کی سزا دی گئی ۔(مقدمہ دہلی اردو اخبار از خواجہ احمد فارقی ) انکے قتل کے سلسلے میں امداد صابری کی بیان کردہ روایت کسی حدتک حقیقت سے قریب معلوم ہوتی ہے(مطالعہ کریں: تاریخ صحافت جلد اول ص۲۱۹) مگر ڈاکٹر عبدالحق کی بیان کردہ روایت اس لئے بھی مستند نہیں ہوسکتی کیونکہ ٹیلر کو بھی یہ علم تھا کہ اگر وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ گلی کوچوں میں گھومیں گے تو انکا کیا حشر ہوگا۔اس علم کے باوجود مولوی صاحب کے پہنائے ہوئے ہندوستانی لباس میں انکا سج دھج کر نکلنا انکی شناخت اور رنگ کو نہیں چھپا سکتا تھا لہذا یہ بعید ہے کہ ٹیلر صاحب سج دھج کر نکلے ہوں بلکہ ٹیلر صاحب اپنی شناخت چھپانے کے لئے ہندوستانی لباس پہن کر چھپتے چھپاتے نکلے ہوں گے اور انکی شناخت ہونے پر عوام نے انہیں پیٹ پیٹ کر مارڈالا ہوگا یہ قرین قیاس ہے۔

مختصر یہ کہ آج بھی شہید مولوی محمد باقر دہلوی کی خدمات کوانکے شایان شان یاد نہیں کیا جاتا ہے۔انکی قربانیاں اور ادبی و صحافتی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔دہلی اردو اخبار کو بیس سالوں تک کامیابی کے ساتھ نکالنا ہی انکا کارنامہ نہیں ہے بلکہ جد و جہد آزادی میں انکا بے مثال کردار اور تحریک آزادی میں ’’دہلی اردواخبار‘‘ کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔مگر شہید مولوی محمد باقر کو آج بھی مسلکی عصبیت کی بنیاد پر نظر انداز کیا جاتاہے ۔تذکروں اور تاریخ کی کتابوں میں بھی انکی شخصیت اور خدمات پر سیر حاصل گفتگو نہیں ملتی یہ افسوسناک صورتحال ہے۔