مجاہدِ ملت حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ
از:(مولانا) محمد عارف عمری
ماہ اگست میں جمعیۃ علماء ہند کا ایک نیر تاباں یعنی مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ؒ نے وفات پائی۔
اس مناسبت سے آپ کی زندگی کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔
آپ ۱۹۰۰ء میں سیو ہارہ ضلع بجنور کے ایک تعلیم یافتہ معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم مدرسہ فیض عام سیوہارہ میں حاصل کی اور دورۂ حدیث کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے ۔ ۱۹۲۲ء میں سندِ فراغت حاصل کی پھر دار العلوم دیوبند، ڈابھیل اورکلکتہ وغیرہ کے مدرسوں میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔نو عمری ہی سے آپ کے اندرخدمت خلق کا جذبہ موجزن تھا ،چنانچہ جلد ہی سیاست کی خاردار وادی میں کود پڑے ۔۱۹۳۰ء میں گاندھی جی کی نمک سازی کی تحریک میں عملی طور پر حصہ لیا، جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس امروہہ میں جنگ آزادی میں کانگریس کے ساتھ اشتراک کا ریزیولیوشن پیش کیا جس کو منظور کیا گیا ۔ آپ تا عمر بیک وقت جمعیۃ علماء ہند کے ایک سر گرم کارکن اور کانگریس کے ممبر رہے ۔بارہا جیل گئے مگر اپنی مذہبی شناخت کو ہمیشہ بر قرار رکھا ،مدتوں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے اہم ترین رکن رہے ۔تقریر و خطابت کا خدا داد ملکہ تھا ۔نیز تصنیف و تالیف کے بھی عظیم شہ سوار تھے ۔ ۱۹۳۸ء میں ’’ ندوۃ المصنفین‘‘ کی بنیاد ڈالی ‘‘بلاغ مبین،اسلام کااقتصادی نظام، فلسفۂ اخلاق اور قصص القرآن (چار جلد) آپ کی بلند پایہ علمی کتابیں ہیں ۔ ۱۹۴۷ء کی ہیبت ناک فضا میں سر سے کفن باندھ کر اٹھے اور اصلاح حال کی مؤثر تدبیر کی ۔کانگریس کے ٹکٹ پر جنوری ۱۹۵۲ء میں حلقہ بلاری ضلع مراد آباد سے اور ۱۹۵۷ء اور ۱۹۶۲ء میں امروہہ سے پارلیمنٹ کا الیکشن لڑے اور بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئے ۔۲؍اگست ۱۹۶۲ء کو دہلی میں انتقال ہوا ،اور قبرستان منہدیان میں حضرت شاہ ولی اللہؒ اور ان کے خانوادے کے لوگوں کی قبروں کے قریب تدفین عمل میں آئی
اہم خدمات
۱۹۴۲ء میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری نامزد کئے گئے ،اور تقریباً بیس(20) برس تک اس عہدہ پر فائز رہے جمعیۃ علماء ہند کے اجلاسِ امروہہ میں نو عمری کے باوجود کانگریس کی جنگ آزادی میں شرکت کے متعلق تجویز پیش کی اور اسی وقت سے مجلس عاملہ کے رکن بنائے گئے جمعیۃ علماء ہند کا ترجمان رسالہ ’’الجمعیۃ‘‘ جو چند برسوں نکل کر بند ہوچکا تھااس کا دوبارہ اجراء کیا ’’الجمعیۃ بکڈپو‘‘کا قیام نیز ایک لائبریری اور الجمعیۃ برقی پریس بھی آپ کا عظیم الشان کارنامہ ہے ۹؍ جون ۱۹۴۷ء کو کانسٹی ٹیوشن کلب نئی دہلی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے تقریباً چھ سو (600)ارکان تقسیم ہند کے فارمولے پر اپنی منظوری صادر کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے تو اس بھرے اجلاس میں حضرت مجاہد ملت ؒ نے تقسیم ہند کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کی تھی۱۹۴۷ء کے بعد دہلی میں فرقہ وارانہ ہولناک فسادات کے موقع پر آپ نے مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے اپنے جان کی بازی لگادی تھی۔جواہر لعل نہرو حضرت مولانا کو بغیر کسی تحفظ کے متاثرہ علاقوں میں جانے سے روکا کرتے تھے،اور اسی ہنگامہ خیز حالات میں آپ کی خدمات کے پیش نظر آپ کے پیر طریقت مولانا عبد القادر رائے پوری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ حفظ الرحمٰن میری عمر کی تمام نیکیاں لے لے اور دہلی کے ہولناک فساد میں جو مسلمانوں کی خدمت کی ہے مجھے دے دے تب بھی میں کامیاب رہوں گاآزادی کے بعد ملتِ اسلامیہ کے دینی تشخص کو بر قرار رکھنے کے لئے دینی تعلیم کی ملک گیر تحریک چلائی اور آل انڈیا تعلیمی بورڈ بنایا ،نیز دہلی کے مشہور دینی مدارس جو وہاں کی مسلم آبادی کے نقل مکانی کی وجہ سے ویران ہو کر رہ گئے تھے ان کو نئے سرے سے زندہ کیا ،خواجہ اجمیری ؒ کی درگاہ اور مدرسہ عالیہ کلکتہ کی از سر نو زندگی کے سامان مہیا کئے اسلامی اوقاف کے متعلق ایک مسودہ قانون تیار کروایا جس کو ۱۲؍ اپریل ۱۹۵۱ء کو جمعیۃ علماء کی طرف سے ممبر پارلیمنٹ محمد احمد کاظمی ایڈوکیٹ نے پارلیمنٹ میں پیش کیا اور آپ نے اس کی ضرورت پر وضاحتی تقریر فرمائی آزاد ہندوستان میں دستور ساز اسمبلی کے ممبر بنائے گئے ،آئین میں اقلیتوں کو جو حقوق دیئے گئے ہیں ان کی ترتیب و تدوین میں آپ کا بہت بڑا ہاتھ ہے تقسیمِ ہند کے بعد تارکین وطن کی چھوڑی ہوئی املاک وجائیداد کے متعلق محکمہ کسٹوڈین بنایا گیا تھا،اور اس محکمہ نے مسلمانوں کو غیر معمولی نقصان پہونچایا تھا ،اس محاذ پر بھی حضرت مجاہد ملت ؒ نے نمایاں خدمات انجام دیں *ستمبر ۱۹۴۵ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس بلائی جس کی بنیاد پر مسلم پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی تھی نیز جب مجاہد ملت ؒ کو اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہونے لگا کہ مسلمانوں میں مایوسی اور بد دلی کی فضا پنپتی جارہی ہے تو آپ نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے کل ہند’’ مسلم کنونشن ‘‘ بلانے کا فیصلہ کیا باوجود یکہ کانگریس کے اہم لیڈران اور خود وزیر اعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کی مخالفت کی مگر مولانا مرحوم اپنی جگہ اٹل رہے او ر۱۰ ۔۱۱؍ جون ۱۹۶۱ء کو یہ تاریخ ساز کنونشن دہلی میں منعقد ہوا ،جس میں جواہر لال نہرو نے لال بہادر شاستری جو وزیر بے قلم دان تھے اپنے نمائندے کی حیثیت سے کنونشن میں بھیجا، پنڈت جواہرلال نہرو باوجودیکہ شروع میں مسلم کنونشن کے مخالف تھے،مگر بعد میں انہوں نے بھی مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ کے اصابت رائے کو تسلیم کیا ۔
مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ؒ نے 1942 سے لیکر 1962تک بیس برس کا عرصہ جمعیۃ علماء ہند کی ہنگامہ خیذ سر گرمیوں میں گزارا۔اور اسی کے ساتھ تصنیف و تالیف کی مشغولیت بھی برقرار رکھی۔سرطان کے عارضہ میں مبتلا ہوئے پھر بھی کام کی لگن نہیں چھوڑی۔اور اسی بیماری میں کام کرتے کرتے ہی اس عالم فانی کو الوداع کہا ۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آپ کے لوح مزار پر کنداں ہے
جب کوئی فتنہ زمانے میں نیا اٹھتا ہے وہ اشارے