افسانہ

گاؤں کے باہر ایک بڑا پرا نا پیپل کا درخت تھا جس پر ایک گدھ کا جو ڑا برسوں سے رہتا تھا ادھر کچھ دنوںسے گدھ کے بچے اپنے گھو سلے سے نکل کر پیڑ کی شا خوں پر نظر آرہے تھے۔ اکثر دیکھا جاتا تھا کہ گدھ گوشت کے ٹکڑے لاتا اور بچوں کے منھ میں رکھ کر چلا جا تا یہ سلسلہ کئی روز سے یوں ہی چلتا رہا۔

گدھ کے بچے مرے ہوئے مختلف جانوروں کا گوشت کھا تے کھا تے اوب چکے تھے۔ ایک روز بچوں نے اپنے باپ سے فرمائش کی کہ جانوروں کا گوشت کھا تے کھا تے انکی طبیعت سیراب ہو چکی ہے۔ آج ہم لوگوں کو انسان کا گوشت چاہئے اس پر ما دہ گدھ نے بچوں کی ہاں میں ہاں ملا تے ہوئے کہا کہ انسان کا گوشت کھائے ہوئے ہمیں بھی کا فی دن ہو گیا کیا دن تھے جب گجرات میں انسان کا گوشت کھا تے کھا تے تھک گئے مگر گوشت تھا کی کمبخت ختم ہو نے کا نام نہیں لیتاتھا، کتنا لذیز تھا معصوموں اور بے گنا ہ انسانوں کا گوشت۔
بچے ماں کی بات سن کر مچل پڑے اور باپ سے ضد کر نے لگے کہ آج تو ہم لوگ صرف انسان کا ہی گوشت کھائیں گے ہمیں بھی انسان کے گوشت کی لذت لینی ہے ورنہ ہم لو گ آج کھا نا نہیں کھائیں گے۔

گدھ انسان کے گوشت کی تلا ش میں نکل پڑا۔ پو را دن و ہ آسمان میں گر دش کر تا رہا مگر اسے کہیں انسان کی لا ش نہیں ملی ما یوس ہو کر گدھ اپنے آشیا نے کی طرف لو ٹ پڑا تبھی اسے راستے میں ایک مری ہوئی گائے نظر آئی جس کو بہت سے گدھ نو ش فر ما رہے تھے۔ وہ بھی اپنے بچوں کے لیے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا لیکر تیزی سے آشیا نے کی طرف پر واز کر گیا مگر بچوں نے گوشت کھا نے سے انکا ر کر دیا وہ صرف انسان کا گوشت کھا نے کی ضدکر تے رہے۔ گدھ پس و پیش میں پڑ گیا کہ کہاں سے انسان کا گوشت لائے مجبو راً دوسرے دن بھی وہ بچوں کی فرمائش پو ری کر نے کے لیے چاروں طرف گھومتا رہا مگر انسان کی لا ش کہیں بھی نہیں ملی۔ سورج بھی دن کا سفر پو را کر غرو ب ہو نے لگا مگر بچوں کے کھا نے کی فر مائش ابھی تک پو ری نہیں ہو سکی تھی کہ ایک جگہ ایک سور مرا ہوا ملا جس کا دم ابھی جلد ہی نکلا تھا اس نے اس میں سے ایک ٹکڑا لیا، آشیانے پہنچا، بچوں کو پیا ر سے کھلا نے لگا مگر بچے اب بھی پوری طرح ضد پر قایم تھے۔ ان سبھی نے سور کا گوشت کھا نے سے انکا ر کر دیا ما دہ گدھ کی ممتا جا گ اٹھی اس سے اپنے بچوں کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی جو دو روز سے بھو کے تھے۔

کیوں! بڑے مر د بنتے ہو۔۔۔۔۔بچوں نے ایک چھو ٹی سی کھا نے کی فرمائش کی تھی جسے دو دن سے پورا نہیں کر سکے،بڑے مر دبنے پھر رہے ہو اتنی بڑی دنیا ہے تلا ش کر تے تو کہیں نہ کہیں کا میابی مل ہی جا تی۔ ارے لعنت ہے ایسے مر د کہلا نے پر۔۔۔۔ ما دہ گدھ مسلسل بولے جا رہی تھی۔

ارے میں کہاںسے لا ؤں؟کیا عراق چلا جائوں،لیبیاچلا جائو ںیا پھریمن یا شام چلا جائوں۔اپنے ملک میں جب کوئی انسان مرا ہی نہیں تو میں کیا کرو ں، کہاں سے لاؤں انسانی گوشت ؟ نر گدھ نے کہا۔

نہیں۔ نہیں! سیریا، فلسطین اور مصر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا پڑوس میں پاکستان اور افغانستان نہیں ہے؟کہ سات سمندر پار جائو گے۔ارے وہاں بھی تو آسانی سے انسانی گوشت مل جاتے ہیں اوریہ بھی تو ممکن ہے کہ اپنے ملک میں ہی مل جائے۔مادہ گدھ نے کہا۔

اپنے ملک میں؟

ہاں۔۔۔۔ہاں اپنے ملک میں۔

پر کہاں؟

کرئہ ارض پرجنت نشاں میں۔

جنت نشاں سے تمھاری مراد کہیں کشمیرتو نہیں۔نر گدھ نے کہا۔

ہاں۔ہاں میں کشمیر کی ہی بات کر رہی ہوں۔

تلاش کرو تو کیا نہیں ملتا۔ جب خدا مل سکتا ہے تو یہ تو انسانی گوشت ہے لیکن تم ہو کہ گھوم پھر کر یہیں رہوگے بھلے بچے بھوکے مر جائیں۔۔۔۔۔مادہ گدھ نے کہا

اس میںغلطی تمہاری ہی ہے تم نے جب سے مظفر نگر میں نسل کشی کے دوران میرے بچوں کوانسانی گوشت کا مزا چکھایا ہے تب سے یہ بچے انسانی گوشت کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔ارے میں تو کہتی ہوں کہ اب یہاں سے کشمیر ہی کیوں نہ ہجرت کر لیا جائے۔کم سے کم بچوں کوروزانسانی گوشت تو مل جائے گا اور ہم لوگوں کی بھی خوراک پوری ہوتی رہے گی۔ ما دہ گدھ نے کہا۔

نہیںَ۔ بالکل نہیں۔ اس میںمیری غلطی نہیں،بلکہ یہ تو میرے خون میں ہے۔میرے باپ ہاشم پورہ اور ملیانا میں انسانی گوشت سے لطف اندوز ہوئے تو میرے دادا جان نے مرادآباد میں خوب انسانی گوشت۔۔۔۔۔۔وہ اپنی بات پوری کیئے بغیر تیزی سے آسمان میں ایک جانب پر واز کر گیا۔

صبح کا وقت تھا کوئی نماز تو کوئی پوجا کی تھال لئے مندر کو جا رہا تھا۔گدھ نے شہر سے باہر کھیت میں ایک مرے ہوئے جانور کے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا مندر کو جانے والے راستے پر گرا دیا اور دور ایک پیڑ پر بیٹھ کر تازہ انسانی گوشت کا انتظار کرنے لگا۔

مندر کو جانے والے لوگ راستے میں پڑے گوشت کو دیکھ کر آپس میں کانا پوسی کرہی رہے تھے کہ تبھی کسی کی آواز آئی ارے ہو نہ ہو یہ تو گئو ماتا کا مانس ہے اور پھر…………دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں گائے کو ماتا کہنے والوں کا مجمع لگ گیا،افواہ تیزی سے پھیلنے لگی اور شر پسند عناصر سر گرم ہوگئے۔
گدھ کو پورا یقین تھا کہ آج اس کے بچے بھوکے نہیں سوئیں گے بلکہ قرب و جوار کے تمام گدھوں کے لئے بھی کئی روز کی خوراک کا انتظام ہو جائے گا۔

تمام طرح کی افواہوں میں اقلیتوں نے گو ماتا کی ہتیہ کر دی،نے زور پکڑ لیا۔یہ ایک ایسی افواہ تھی جو پر سکون ماحول کو پراگندہ کرنے کے لئے کافی تھی۔

ابھی علاقے کے مدبر اور موقر افراد اس افواہ پر لوگوں سے توجہ نہ دینے کی اپیل کر ہی رہے تھے کہ زعفرانی شر پسندوں کا ایک ہجوم ہر ہر مہادیو،جے شری رام کے نعرے لگاتا ہوا مظلوموں کے محلوں میں داخل ہو گیا۔گوشت گو ماتا کا ہے، بھینس کا ہے،بکرے کا ہے یا کسی دیگر جانور کا اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں تھا۔سروکار تھا تو بس گوشت کا ملنا اور اس پر گائے کے نام کا ٹھپہ لگ جانا ہی کافی تھا۔

لمحہ بھر کے اندر شعلوں کی لپٹوں،عورتوں اور بچوں کی آہ و بکا،ہر ہر مہا دیو کے ساتھ اللہ اکبر کے ملے جلے نعرے،نالیوں کے لال ہوتے پانی اور دھماکوں کی آواز،کسی کے ہاتھ میں تلوار تو کسی کے ہاتھ میں ترشول لئے انسانی گدھوںنے گدھوں کے کئی دنوںکی خوراک کا انتظام پل بھرمیں کر دیا تھا۔

شام ہو تے ہو تے سیکڑوں کی تعداد میںانسانوں کی لا شیں جگہ جگہ بکھری پڑی تھیں۔ گدھ خوشی سے جھو م اٹھا اس نے ما دہ گدھ اور بچوں کو انسانی گوشت کی ضیافت سے شکم سیر کر دیا۔

نر گدھ نے اپنے بچوں کو نصیحت دیتے ہوئے کہا کہ بچو! آج میں ایک سبق آموز نصیحت دے رہا ہوں۔ یہ تمہارے کام آئے گی۔

دیکھو ! ہماری نسل تیزی سے معدوم ہورہی ہے اوراب ہماری جگہ انسانی گدھوں نے لے لی ہے۔ ہمیں انسانی گدھوں سے اقتدار واپس لینا ہوگا اور اپنی نسل کو بچانا ہوگا تبھیــ’اچھے دن‘ آئیں گے۔

lll

ڈاکٹر سلیم احمد

544C/168، الماس باغ، ہردوئی روڈ، لکھنؤ
موبائل: 9415693119