’’نیا دور‘‘ کو تب سے جانتا ہوں جب اس کی تعدادِ اشاعت آج سے کہیں زیادہ تھی۔ ہردوئی ہی کیا اطراف و اکناف یعنی قصبات ودیہات کے پردھانوں اور مخصوص ادبی شخصیات کو پہونچتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ’’نیا دور‘‘ وقت ہی سے شائع ہوتا تھا۔مشترکہ شماروں کی بہت کم نوبت آتی تھی۔

خوب یاد ہے ۱۹۸۳ء میں راقم الحروف بسلسلۂ تعلیم لکھنؤ آگیا اور چند برس تک لکھنؤ میں رہ کر بھی ’’نیا دور‘‘ کی زیارت سے محروم رہا۔ پھر ۱۹۸۸ء میں ’’نیادور‘‘ کے مطالعے کے ساتھ ’’نیادور‘‘ سے وابستگی کا بھی موقع ہاتھ آیا۔ تب امیر احمد صدیقی (اب مرحوم) مدیر اور شاہنواز قریشی صاحب معاون مدیر کے منصب پر متمکن تھے اور ر سالہ کی قیمت بہ مشکل ایک روپیہ تھی۔ ڈاک کا نظام بھی چست اور درست تھا اس لئے رسالہ دور دراز علاقوں میں بھی ہر ماہ کے اوّل ہفتہ یا عشرہ میں پہونچ جایا کرتا تھا مگر پھر نہ جانے ’’نیا دور‘‘ کو کس کی نظر لگی کہ ہر آنے والا مدیر ’’نیادور‘‘ کی مسلسل اشاعت اور روز افزوں ترقی کے لئے اردو والوں سے ہی فریاد کرنے لگا اور ایسا لگا جیسے یہ رسالہ اور اس کی اشاعت حکومت پر بوجھ ہے جسے وہ اتارنا چاہتی ہے۔ نتیجہ ’’بایں جارسید‘‘ رسالہ کی قیمت ۱؍روپئے سے بڑھ کر ۱۰؍روپئے تک پہونچی۔ مدیرانِ مکرم نے نمبر بڑھانے کے لئے خوب نمبر نکالے۔ چلتے ہوئے ادیبوں کو مواد فراہم کیا گیا۔ وقت اور پیسہ برباد کیا گیا مگر جو سنجیدگی سے لکھتے اور پڑھتے ہیںاور لکھنا پڑھنا ہی جن کا مقصد ہے، اُن سے بہت کم رابطہ کیا گیا۔ نتیجتاً نمبر تو خوب نکلے مگر معیاری ادب کم تخلیق ہوا۔ گھوم پھر کر وہی جملے، وہی معلومات اور عبارت ہر چھوٹے بڑے قلمکار کے یہاں موجود ملی تو دلچسپی کے بجائے اکتاہٹ سی ہونے لگی۔ سید امجد حسین کا دور اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس دور میں بڑے دقیع نمبر نکلے اور قلمکار کو اعزاز یہ کے طور پر وہ رقم ملی جو کہ ملنی چاہئے۔ ورنہ امجد صاحب سے قبل غزل اور کتابوں پر تبصرے کا معاوضہ ہر چھوٹے بڑے کو مبلغ ۱۰۰؍روپئے ہی ملتاتھا۔ امجد حسین صاحب نے ادیب اور شاعر کی توقیر بڑھائی اور خصوصی نمبروں میں شمولیت کے بعد ۲۰۰۰؍روپئے کی خطیر رقم تک ادیبوں، شاعروں کے حصہ میں آئی مگر اُن کے بعد شاہنواز قریشی ہوں یا نجیب انصاری کوئی اس معیار کو برقرار نہ رکھ سکا۔

ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی صاحب نے عام شماروں کی ترتیب و تدوین سے خصوصی شماروں تک بھرپور محنت کی۔ تقریباً ہر نمبر کے لئے دعوتِ تحریر دی مگر میں اُن کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر رہا۔ تحریر کی اشاعت کے سلسلہ میں عجلت پسند رہا ہوں۔ اس لئے جو کچھ لکھا اُسے پہلی فرصت میں کسی روزنامے کو سونپ دیا۔ دو ایک روز میں مضمون شائع ہو گیا تو لگا محنت وصول ہو گئی۔ سرکاری پرچوں کے مدیر ان کے ٹھسکے، بیجا اصول، مصاحبی اور تعریفی خطوط لکھنے سے روزناموں میں شائع ہونا مجھے آج بھی بہتر لگتا ہے۔وضاحت رضوی صاحب کی کرم فرمائی کہ جاتے جاتے انھوں نے میرا ایک مضمون شائع ہی کر دیا۔ جبکہ یہ مضمون جو کہ نداؔ فاضلی کی شخصیت اور شاعری پر ہے۔ کئی ماہ قبل ’’اترپردیش‘‘(ہندی) میںنمایاں طور پر شائع ہو چکا ہے۔ وہ بھی یوں کہ کُم کُم شرما صاحبہ کے مکرّر اصرار، بار بار یاد دہانی اور سنجے مصرا شوق کے تعلق کا پاس رہا۔ واضح رہے مذکورہ ہندی میگزین میں اشاعت کے بعد معقول معاوضہ ملتا ہے مگر ضروری معلومات کی فراہمی کے باوجود اب تک کسی طرح کی کوئی رقم میرے ذاتی اکاؤنٹ میں نہیں پہونچی ہے۔ کچھ یہی حال ’’نیا دور‘‘ کا بھی ہے۔ ہر خصوصی شمارے میں احمد ابراہیم علوی صاحب کا کوئی نہ کوئی مضمون ضرور نظر آجاتا ہے مگر جب جب اُن کی تحریر کے متعلق ذکر ہوتا ہے سدا ُن کے لبوں پر ایک ہی شکایت رہتی ہے کہ ہر نمبر میں اشاعت کے باوجود کوئی رقم میرے اکاؤنٹ تک نہیں پہونچی ہے۔ آخر یہ کیا ہے اور کب تک رہے گا۔؟

مقام مسرت ہے کہ اب ’’نیا دور‘‘ کی باگ ڈور ایک ایسے قلم کار کے ہاتھوں میں ہے جو ابھی تازہ دم ہے اور دشوار یوں سے گذر کر کچھ نیا کچھ اچھوتا کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

دعوے کی دلیل میں ’’نیا دور‘‘ کے ۲؍تازہ شمارے سامنے ہیں۔ مئی کے شمارہ میں جس طرح کے عزائم اور منصوبے ظاہر  کئے گئے تھے۔ جون کے شمارہ میں اُن کا عملی ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے۔

موجودہ مدیر سہیل وحید صاحب سے قریب دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں استاد شاعر اقبال محشر رائے بریلوی اپنی حیات میں ان کی خاصی تعریف کیا کرتے تھے۔ پھر اُن ہی کی تحویل سے موصوف کی ایک تصنیف ’’صحافتی زبان‘‘ میسر آئی۔ گتھیاں سلجھیں اور ان کی صلاحیتوں کے جوہر کھلے۔ سہیل وحید اپنے رفیق خاص مرحوم عامرؔ ریاض کی طرح دوسرے قلمکاروں سے کافی مختلف ہیں مگر اتنے مختلف اور جدید بھی نہیں کہ اجنبیت کا احساس ہو۔ جدید فکر اور جدید خیالات کے ساتھ وہ ماضی کے ادب اور قلمکاروں سے ہمرشتہ ہیں۔ اسی لئے ’’نیا دور‘‘ کے لئے ان کا وجود بہتر ہے۔

یہ کارنامہ بھی کچھ کم نہیں ہے کہ ’’نیا دور‘‘ کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ’’نیادور‘‘ کے ۲؍شمارے وقت سے آگئے ہیں جس سے تاخیر کا سلسلہ تھما ہے۔ کسی نئے مدیر کے لئے یہ بڑی کامیابی ہے۔ مقام ذکر ہے کہ جس طرح نئے اور پرانے چراغوں سے دونوں شماروں کو سجایا گیا ہے۔وہیں کچھ فراموش کردہ اور کچھ اُجلے ناموں کا اضافہ کیا گیا ہے جو واقعی خوشگوار ہے اور ایک نئی تاریخ رقم ہونے کا اشاریہ ہے۔

اداریہ کے صفحہ پر خطوط کی اشاعت کو ممکن ہے جدت وندرت کا نام دیا جائے مگر ایک صفحہ کے مختصر اداریہ میں ۳؍باکس بناکر ۳؍لوگوں کی آراء کی شمولیت قطعاً مناسب نہیں۔ یہ صفحہ تو مدیر کے لئے مخصوص رہنا چاہئے۔

سہیل وحید صاحب سے بہتر توقعات ہیں۔ بشر طیکہ وہ دائروں سے نکل کرکھلی فضا میں کام کرنے کے عمل کو بتدریج جاری و ساری رکھیں۔ دوستی یا اقرباء پروری میں ایک ہی علاقے، گھر، افراد یا گروپ کے لوگ مسلسل شائع نہ ہوں۔ بات کتابوں پر تبصروں کی ہو، غزلوں کی اشاعت کی یا مضامین کی۔ ایک شمارے میں ایک سے زائد تخلیق کی اشاعت معقول رویہ نہیں ہے۔نہ ہی بار بار ایک نام کی اشاعت مناسب ہے۔

امید ہے ماضی کی ان بڑی بڑی غلطیوں سے سہیل وحید صاحب سبق لے کر ’’حال‘‘ کو سنوارنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ ایسا ہوگا تو انھیں ’’نیا دور‘‘ کے حوالہ سے زیادہ دنوں یاد رکھا جائے گا۔ اور اِن کی ادارت میں ’’نیا دور‘‘ اپنی شاندار تاریخ دہرا سکے گا۔

صریح حق تلفی ہوگی اگر ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کی ادارت میں آنے والے ’’نوائے رفتگان نمبر‘‘کا ذکر نہ ہو۔ یہ نمبر واقعی اہم اور مفید ہوتا اگر بروقت آجاتا۔ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ۲۲؍اپریل ۲۰۱۶ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ کئی دیگر قد آور شخصیات نے آس پاس کے چند ماہ میں قدر نا شناسوں کی دنیا سے منھ موڑا۔ تابڑ توڑ اموات نے آسمان کو بھی آنسو بہا نے پر مجبور کیا۔ اخبار و رسائل نے شاہ سرخیاں لگائیں، وفیات کے کالم پُر ہوئے اور مضامین کا طویل سلسلہ رہا۔ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد واقعی خوش نصیب ہیں کہ اُن کی وفات سے برسی تک کئی درجن مضامین نئے لکھے گئے۔ رسائل کے نمبر اور کتابیں شائع ہوئیں۔ لکھنؤ سے پہلی کتاب ’’آخری شجر‘‘ احساس فاؤنڈیشن نے شائع کی۔جس میں ۵۰؍سے زائد نثری مضامین اور کچھ منظوم تاثرات ہیں۔ اس کے فوراً بعد اعظم گڑھ سے ایک وقیع کتاب سامنے آئی۔ اسی اثنا لکھنؤ سے ’’کسک‘‘ نامی کتاب منظر عام پر آئی۔ اردو اکادمی نے ایک ضخیم کتاب شائع کی جس کے مرتب معروف شاعر و ادیب انور جلال پوری ہیں۔ نیز ’’امکان‘‘ نے سلمیٰ حجاب صاحبہ کی ادارت میں ۸۰؍صفحات پر مشتمل دیدہ زیب نمبر نکالا لیکن پروفیسر مجاور حسین صاحب سے مضمون کوئی نہ حاصل کر سکا۔ یہ بڑا کام وضاحت حسین صاحب کے حصہ میں آیا مگر باقی مضامین جو جملہ شخصیات پر رقم کئے گئے ہیں اُن سے باسی پن کی بو آتی ہے۔ بیشتر مضامین چھپے چھپائے ہیں یا چہرا بدل کے کام چلایا گیا ہے۔ اگست، ستمبر ۲۰۱۶ء کا شمارہ کتنا ہی ضخیم یا اہم ہو اگر مئی ۲۰۱۷ء میں آئے تو تازگی اور توانائی کے بجائے باسی پن کا احساس فطری ہے۔

ایک ہی شخصیت کا مختلف شخصیات پر ایک ہی رسالہ میں مضمون لکھنا اور مدیر کا شائع کرنا بھی مضحکہ خیز ہے۔ ایک صفحہ کے اداریہ میں بھی اگر زبان و بیان کی فاش غلطیاں ہوں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ایک ماہ میں اگر الفاظ لغت سے بھی تلاش کئے جائیں تو اداریہ مکمل ہو جائے اور ’’نوائے رفتگاں نمبر‘‘ نے تو پورا سال لے لیا۔

امید ہے سہل پسندی کی اس روش سے سہیل وحید صاحب بچیں گے۔ مئی کے حالیہ شمارے میں مست حفیظ رحمانی صاحب کی غزل پسند آئی۔ دیگر تخالیق معیاری ہیں۔ شاہد کمال کا قلم خوب چل رہا ہے۔ دیگر نوجوانوں کو بھی موقع دیجئے۔ دیگر زبانوں کے ادب سے اردو والوں کو واقف کرانے کا عمل لائق تحسین ہے مگر جو شاعر و ادیب اپنی بات اردو میں آج بھی لکھنے سے قاصر ہیں اور سہولت کے باوجود اردو پڑھنا لکھنا نہیں چاہتے، ایسوں کی تخالیق کی اشاعت سے رسالہ کو بچائیے۔

باقی پھر کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رضوان احمد فاروقی

موبائل:9307359793