طلاق ثلاثہ کے خلاف داخل عرضداشت مسترد کرنے کامطالبہ
جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا
ممبئی: جمعیۃ علماء ہند نے آج یہاں سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے تعلق سے دائر کی گئی عرض داشت کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے حوالے سے ۲۷؍ صفحات پر مشتمل ایک حلف نامہ داخل کیا۔اور عدالت سے مطالبہ کیا کہ طلاق ثلاثہ ،حلالہ اور تعدد ازدواج کے تعلق سے جو عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں انہیں مسترد کردیا جائے ۔نیز یہ ایکقانونی پالیسی ہے جسے عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر تسلیم کیا جانا چاہئے ،کیونکہ اس سے قبل کئی عدالتیں اس پر نظر ثانی کر چکی ہیں اورمسلم پرسنل لاء آئین ہند سے مختلف ہے۔
جمعیۃ نے اپنے حلف نامہ میں قرآن کریم ، کئی مستند احادیث اور متعدد فقہی جزئیات کا حوالہ دیتے ہوئے طلاق ثلاثہ کو جائز قرار دیا اور نکاح حلالہ کو عدالت کے روبرو جس شکل میں پیش کیا گیا ہے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت میں نکاح حلالہ کو غلط طریقہ سے پیش کر کے اس کی تشریح کی گئی ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مسلم خاتون اپنے شوہر سے طلاق دیئے جانے کے بعد دوبارہ اس سے نکاح نہیں کر سکتی ،جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے ،اسی کو حلالہ کہا جاتا ہے ۔جس کے تعلق سے عدالت میں گمراہ کن بیانات دے کر قومی سطح پر اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے اخبارات کے نام جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں دی اور کہا کہ جمعیۃ علماء کے ریاستی صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی کی جانب سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کئے جانے والی اس عرضداشت جس میں جمعیۃ علماء اول فریق ہے ۔اور جمعیۃ نے عدالت کی ہدایتوں کے مطابق یہ حلف نامہ داخل کیا ہے۔
گلزار اعظمی نے کہا حلف نامہ کی عدالت میں پیشی سے قبل وکلاء کی ایک ٹیم کو دارالعلوم دیوبند روانہ کیا گیا تھا جس نے وہاں مفتیان عظام ا ور علماء کرام سے ان مسائل پر سیر حاصل گفتگو اور تبادلہ خیال کے بعداسلامی تعلیمات (قرآن شریف، مستند احادیث)کی روشنی میں ہی حلف نامہ تیار کر کے آج اسے عدالت میں پیش کیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین ہند کی رو سے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق تیار کئے گئے اس حلف نامہ میں عدالت سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئین ہند میں شہری کو یہ دستوری حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی عبادت اورمذہب کو اختیار کر سکتا ہے اور اپنے مذہبی معاملات کو ا سے اپنے مذہبی طریقہ سے حل کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔
حلف نامہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن شریف کے مطابق ہر مسلمان پر نبی کی اتباع کرنا لازم ہے ۔ عدالت کا تین طلاق کو ایک ماننا نہ صرف قرآن شریف کے اندر تحریف کے مترادف ہے بلکہ یہ آئین ہند کے خلاف بھی ہے کیونکہ آئین ہند ہر ہندوستانی کو مذہبی اختیار دیا اس اختیار کو چھین لینا ہوگا۔ جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔
قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حاصل ہوئے ایک مکمل دستور حیات کا تذکرہ کرتے ہوئے عدالت کو بتلایا گیا کہ کسی انسان ،کسی عدالت یاکسی دنیوی ادارہ کو یہ حق نہیں کہ وہ قرآن شریف کے اندر کوئی تبدیلی یا تحریف کرے ۔نیزقرآن شریف نے مرد اور عورت کو یکساں حقوق دیے ہیں ، کسی کام پر ثواب اور عذاب دونوں کے لئے یکساں ہے، دنیوی اور اخروی دونوں امور میں مرد و عورت یکساں ہیں میراث میں بھی عورت کے حقوق بتلا دئے گئے ہیں شادی کے سلسلہ میں بھی عورت کی رضامندی کی پاسداری کی گئی ہے ۔ بیوہ ، مطلقہ یا کنواری کی شادی کے لئے اس کی رضامندی ضروری قرار دیا ہے۔اور ان کو اختیار دیا گیا ہے۔ مذہب اسلام نے بیوہ کو بھی دوبارہ شادی کر کے اپنی زندگی دوبارہ آباد کرنے کا اختیار دیا ہے۔
تعدد ازدواج کے حوالہ سے قرآن شریف میں یہ واضح ہدایت ہے کہ کئی شادی کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ یہ جائز اور مباح فعل ہے جو شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے نامور وکیل اعجاز مقبول ، اور دیگر کی سربراہی میں تیار کئے گئے اس حلف نامہ میں طلاق ثلاثہ کو چاروں امام کے مسلک کی روشنی میں جائز قرار دیا گیا ہے ،اور تعدد ازدواج و نکاح حلالہ کو بھی عین شریعت کے مطابق تسلیم کیا گیا ہے،ان تمام باتوں سے سپریم کورٹ کو مطلع کیا گیا ہے۔