غیر مسلموں کے گناہوں کی پردہ داری کیوں؟
عادل فراز
سیکولر و جمہوری ملک ہندوستان میں نان سیکولر طاقتیں جنکا جمہوری نظام میں یقین نہیں ہے دہشت
گردی کو فروغ دے رہی ہیں ۔یہ طاقتیں راشٹرواد ،ذات پات اور مذہب کے نام پر دہشت پھیلانے میں مصروف ہیں ۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک کا قانون بھی ایسی نان سیکولر و فرقہ پرست طاقتوں کا آلہ ء کار بن گیاہے ۔یہی وجہ ہیکہ اصل مجرموں کی حقیقت کا علم ہوتے ہوئے بھی انکی جگہ بے گناہوں کو فرضی مقدمات میں پھنساکر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتاہے ۔چونکہ ان طاقتوں کے خلاف بولنے کی جرأت نہ تو قانون چلانے والوں میں ہے اور نہ قانون بنانے والوں میں لہذا وہ بے خوف ملک میں بدامنی اور دہشت کو فروغ دے رہی ہیں ۔اگر ان طاقتوں کا سر انکے جنم لینے کے ساتھ ہی کچل دیا جاتا تو آج یہ لوگ قانون اور پولس کے گلے کی ہڈی نہ بنتے مگر راشٹرواد اور مذہب کی سیاست نے ان طاقتوں کو میدان میں وحشی سانڈ کی طرح کھلا چھوڑدیاہے اور وہ بغیر کسی خوف کے انسانیت کا قتل عام کرکے سرعام قانون کو ٹھینگا دکھارہی ہیں ۔اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان طاقتوں کے خلاف کسی میں دم مارنے کی ہمت پیدا نہیں ہوتی یہ تشویش ناک صورتحال ہے ۔پولس اور سیاست دان اپنی جھنیپ مٹانے اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بے گناہ مسلمانوں کو فرضی مقدموں میں گرفتار کرتے ہیں یا فرضی انکائونٹر میں ماردیا جاتاہے ۔ لیکن اگریرقانی و زعفرانی تنظیموں کے کارکنان دہشت گردی میں ملوث پائے جاتے ہیں تو پولس ،سرکار اور ہمارا پیڈ میڈیا راشٹرواد اور مذہب کے نام پر انکے ناموں کو ہی چھپانے کی تگ و دو میں لگ جاتاہے اور اگر کوئی مسلمان پولس کی زیادتیوں اور سرکار کی وعدہ خلافیوں سے تنگ آکر انکے خلاف نعرہ بازی کرتاہے تو اس پر دیش دروہ کا مقدتھوپ دیا جاہے یا پھر پولس اور سرکار کی منہ چڑھی تنظیمیں ان نوجوانوں کا اس طرح اغواکرتی ہیں کہ پھر چاہتے ہوئے بھی پولس اور حکومت اپنی پوری طاقت صرف کرنے کے باوجود ان نوجوانون کا پتہ لگانے میں ناکام نظر آتی ہیں ۔اگر بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور فرضی انکائونٹر کا یہ سلسلہ نہ تھما اور پولس و قانون جانبداری و متعصبانہ سیاست سے باز نہ آئے تو یہ ملک کی
سالمیت اور مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔
پولس کے ذریعہ گرفتار کئے گئے بے گناہ مسلم نوجوان مسلسل عدالتی کاروائی کے بعد رہا ہورہے ہیں مگر زعفرانی و یرقانی تنظیموں کے کارکنان جو پاکستان کے لئے جاسوسی کرتے ہوئے گرفتار ہوئے ہیں یا بم دھماکوں میں ملوث پائے گئے ہیںان پر اطمینان بخش کاروائی ہوتی نظر نہیں آتی ۔بعید نہیں کہ انہیں بھی راشٹرواد کی دہائی دیکر رہا کرالیا جائے اور جن تلخ حقائق سے وہ پردہ اٹھائین گے ناممکن ہے ملک کی عوام کے سامنے پیش کئے جائیں ۔کیونکہ اس طرح پچھلے ستر اسّی سالوں میں مسلمانوں کے خلاف جو ماحول تیار کیا گیاہے اسکی پوری منصوبہ بندی کی حقیقت بھی عوام کے سامنے واضح ہوجائے گی ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جن بے گناہوں کی زندگی پولس نے برباد کردی ان پر کاروائی کیوں نہیں ہوتی ؟اگر یہ کہاجائے کہ رہاہونے والے یا انکے اہل خاندان عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ کیوں دائر نہیں کرتے تو اس’’ کیوں‘‘ کا جوب بہت آسان ہے ۔رہا ہونے والے نوجوان اندر سے اس قدر ٹوٹ چکے ہوتے ہیں کہ ان میں ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی یا پھر وہ پولس کے مظالم و زیادتیوں کے بارے میں سوچ کر چاہتے ہوئے بھی ان پر مقدمہ نہیں کرپاتے یا پھر انکی غربت ا س بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اپنی بربادی کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرسکیں ۔جمہوری نظام میں کتنا بہتر ہوتا اگر بے گناہوں کی رہائی کے بعد ہماری حکومتیں متعصب اور لاپرواہ پولس والوں پر بے گناہ نوجوانوں اور انصاف کے لئے ترس رہے متاثرین کی طرف سے مقدمہ دائر کرتیں مگر وہ حکومتیں جو راشٹرواد اور مذہب کے نام پر ایسی طاقتوں کی سرپرستی کرتی رہی ہیںوہ انکے خلاف کیسے جاسکتی ہیں ۔یہ مسئلہ فقط بی جے پی کا نہیں ہے بلکہ کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتیں بھی بی جے پی کی طرح راشٹرواد اور مذہبی جنونیت و فرقہ پرستی کو بڑھاواد یتی رہی ہیں ۔آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے بے گناہ مسلم نواجوانوںکے لئے قابل ذکر اقدامات نہیں کئے صرف ووٹ وصول کئے ہیں ۔ان سب مسائل کے باوجود اگر مسلمانوں میں کچھ جوان متشددانہ سوچ رکھتے ہیں تو اسکی ساری ذمہ داری سرکار اور قانون پر عائد ہوتی ہے ۔سرکاریں مسلمانوں کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی ہیں اور قانون انہیں تحفظ فراہم کرنے کے بجائے فرقہ پرست طاقتوں کا آلہ ء کار بن کر رہ گیاہے ۔ایسے حالات میں سرکاروں پر عدم اعتماد اور قانون کی بیچارگی کے خلاف مسلم نوجوانوں میں اگر غصہ پایا جاتاہے تو یہ انکا جرم نہیں ہے ۔
سرکاروں اور قانون کے محافظوں کو اس تشویش ناک صورتحال پر از سرنو غور کرنا ہوگا ۔کیونکہ دہشت گردانہ واقعات کے متاثرین بھی محرومی و ناانصافی کا شکار ہوکرمسلمانوں کے تئیں متشدد ہوتے جارہے ہیں۔کیا سرکاروں اور قانون کے محافظین کو اس حقیقت کا اعتراف نہیں ہے کہ اب ان پر عوام کا اعتبار نہیں رہا ۔کیونکہ اگر پولس مستعد ہوتی اور لاپرواہی نہ برتتی تو اکثر دہشت گردانہ واقعات کے اصل مجرم سلاخوں کے پیچھے ہوتے ۔بے گناہوں کی فرضی گرفتاریاں نہ ہوتیں اور بم دھماکوں میں مرنے والوں کے پسماندگان کو بھی انصاف ملتا ۔اس طرح قانون کی بالادستی قائم رہتی اور عوام کا اعتبار بھی مجروح نہ ہوتا ۔مگر عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے پسماندگان بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی پر ناخوش نظر آئے ۔انکا جارحانہ رویہ بتارہا تھاکہ اگر انکا بس چلے تو وہ رہا ہونے والے جوانوں کو عدالت کے باہر ہی سزا دیدیں ۔انہیں اس حقیقت کی قطعی پرواہ نہیں ہوتی کہ فرضی مقدموں میں گرفتار کئے گئے ان جوانوں کا مستقبل پوری طرح تباہ ہوچکاہے اگر وہ واقعی مجرم ہوتے ہیں تو پولس انکے خلاف اپنی پوری طاقت صرف کرنے کے باوجود بھی کوئی ثبوت عدالت میں پیش کرنے میں کیوں ناکام رہتی ہے ۔متاثرین ہر حال میں گرفتار مسلم جوانوں کو پھانسی کے تختہ پر جھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اور بس!یہ ذہنیت پولس کی لاپرواہی ،تعصب اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی منصوبہ بند کوششوں کی پیدوار ہے ۔انہیں صرف یہ بارآور کرایا گیا ہےکہ دنیا میں کہیں بھی بم دھماکہ ہو یا دہشت گردانہ واقعات رونماہوتے ہیں انکی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔اگر قانون اور سرکاریں غیر مسلموں کے گناہوں پر پردہ ڈالنا بند کردیں تو یہ ذہنیت خود بخود بدل جائے گی ۔مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟