ٹھوکر نیازبیگ
مسعودتنہاؔ
افسانہ
روزنامہ ”سویرا“ کا دفتر وارث روڈ پر واقع ایک عمارت کی بالائی منزل پرتھا۔اخباری صحافت میں یہ میرا پہلا تجربہ تھا لیکن اخبار کے مالک وپبلشر امتیاز حسین صاحب نے مجھے ایک ادبی رسالے کا ایڈیٹر اور ادیب ہونے کے ناطے اپنے اخبار میں بطور نیوز ایڈیٹر پانچ ہزار ماہوارپیشگی اداکرکے پارٹ ٹائم ملازمت دی تھی۔دفتر نیا نیا لکشمی چوک سے یہاں منتقل ہواتھا۔امتیاز صاحب کا اصل کاروبار ملتان روڈ پر”سنی پلاسٹک فیکٹری“تھی۔یہاں سے دوکلومیٹر کے فاصلے پر باری فلم اسٹوڈیو اور سٹی گارڈن کا رہائشی منصوبہ شروع تھا۔ کئی ایکٹر اراضی خالی پڑی تھی۔امتیاز صاحب نے آٹھ کنال زمین خرید کر عالی شان بنگلہ تعمیرکروایا۔ ایک باغیچہ بھی بنوایا جس میں گلاب،چنبیلی،ڈیزی،موتیااور دیگر مختلف اقسام کے پھول لگوائے،جسے دیکھ کر ہر آنے والا مبہوت ہوجاتا تھا۔ شہر سے ہٹ کرپلاسٹک فیکٹری اور سٹی گارڈن میں گھر تعمیر کروانے کے پیچھے ان کی دلچسپی کا واحد مرکز باری اسٹوڈیوجو ان کے بنگلے سے چند قدموں پرتھاجہاں وہ بلاناغہ جاتے،چند فلم سازوں سے ان کی اچھی خاصی دوستی بھی ہوگئی تھی۔فلم کی شوٹنگز،نئے ماڈلز اور سنگرز کے متعلق انہیں تازہ بہ تازہ خبریں بھی مل جاتیں جو اگلے روز کے اخبار میں نمایاں طور پر شائع کی جاتیں، ساتھ ہی ساتھ امتیاز صاحب کا سٹوڈیو جاکر شوٹنگز دیکھنے کا ٹھرک بھی پورا ہوجاتا۔امتیاز صاحب والدین کی اکلوتی اولاد تھے ان کے والد وراثت میں بہت سارا پیسہ چھوڑاتھا۔
اخبار میں ان کی دلچسپی صرف اس حد تک تھی کہ دوتین ماہ میں ایک آدھ بار دفتر کا چکر لگاتے،تھوڑی دیر اپنے کیبن میں بیٹھتے،چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اخبارات کی پرانی فائلیں دیکھتے اورجیسے ہی چائے کا کپ خالی ہوتا ڈرائیور کو اشارہ کرتے اور سیدھا اسٹوڈیو پہنچ جاتے۔دفتر کے سٹاف میں منیجر یوسف صدیقی،سب ایڈیٹر شہریار،کمپیوٹر آپریٹر شبانہ اور چوکیدار سلیم خان(جو سٹاف کو دوتین مرتبہ چائے پلاتا اوردوپہر کا کھانا بھی لاکر دیتا)ہم پانچ افراد تھے۔دن گیارہ بجے تک سٹاف کے لوگ دفتر پہنچ جاتے تھے۔میری ڈیوٹی شام پانچ بجے سے رات نو بجے تک تھی۔ نوبجے آخری کاپی پریس بھیج دی جاتی تھی لیکن کبھی کبھار ایک آدھ گھنٹہ اوپر نیچے ہوجاتا تو میں شہریار کو روک لیتا۔سات بجتے ہی یوسف صدیقی،شہریار اور شبانہ اپنا اپنا کام مکمل کرکے چلے جاتے۔دفتر پہنچنے پر دن بھر کی ای میلز اور پریس ریلز کا پرنٹ میری ٹیبل پر رکھ دیا جاتا تھا جسے کانٹ چھانٹ اور سرخیاں بناکر مَیں دو گھنٹوں میں مکمل کرلیتا۔اخبار کے پہلے اور آخری صفحے کی چند اہم خبریں نوبجے پریس بھیجنا ہوتی تھیں۔ نیوزایڈیٹر کے ساتھ ساتھ مَیں کمپیوٹر کاسارا کام بھی جانتا تھا اسی لیے امتیاز صاحب نے تفصیلی انٹرویو لیے بغیر cvدیکھ کر مجھے اپائنٹ کرلیا۔میری جائننگ سے پہلے کئی نیوز ایڈیٹر آئے، گئے ……دفتر کی پوری ذمہ داری،اخباری صحافت میں ناتجربہ کاری،معاوضہ کی کمی،پورا مہینہ چل سوچل۔۔۔اخبارکا کام ہی ایسا ہوتا ہے کہ جس میں ناغہ صرف سال بھر میں عیدین کے موقع پر ہوتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی کام ٹک کر نہ سکا۔بنک اکاؤنٹ سے تنخواہ پہلی تاریخ کو مل جایا کرتی تھی۔
امتیاز صاحب کی ملنساری اور شاہ خرچی کا علم اسٹوڈیو میں آنے والے ہرفرد کو تھا۔بنگلے میں چار پانچ ملازم،امتیاز صاحب کی دوسری بیوی ہاجرہ کے ساتھ رہتے تھے……امتیاز صاحب اپنی بیوی کے ساتھ گلبرگ والے بنگلے سے سٹی گارڈن آرہے تھے انہوں نے شراب پی رکھی وہ خود ڈرائیو کررہے تھے کہ رائیونڈ روڈ کے چوک پر ان کی کار ٹرک سے ٹکراگئی(اب یہاں اوورہیڈ بن چکا ہے جو بائی پاس کی صورت میں ملتان روڈ سے منسک ہے)ہسپتال میں تین روز بعد جب انہیں ہوش آیا تو یوسف صدیقی نے اُن کی بیوی کے انتقال کی خبرسنائی۔کئی روز بعد ان کی حالت سنبھلی،وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر آگئے تھے۔جب جب انہیں اپنی بیوی، گل بانو کی یاد آتی،اپنے گلبرگ والے بنگلے میں چلے جاتے جہاں انہیں دلی سکون ملتا۔گوشہئ تنہائی میں بیٹھ کرشراب پیتے رہتے اور شام کو اسٹوڈیو میں اپنے فلم ساز دوستوں کے پاس وقت گزارتے۔
ہدایت کار وکہانی نویس صدیق ساحل کو اپنی فلم ”پردے کے پیچھے کیا ہے؟……“کے لیے تگڑی پارٹی کی تلاش تھی وہ اپنا سکرپٹ لیے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہے تھے، فلم کے گیت وہ افسر لاہور ی سے لکھوا چکے تھے اور موسیقار احمد عباس سے بھی ان کی بات چیت چل رہی تھی۔ایکٹرز کا فارمیٹ بھی بناچکے تھے،گانوں کی کمپوزیشن اور فلم کا سیٹ لگانے کے لیے انہیں بڑا بجٹ درکارتھا۔امتیاز صاحب نے دوستوں کے مشورے سے سرمایہ لگانے کی حامی بھرلی،ایگری منٹ بھی سائن ہوگیا اورصدیق ساحل نے فلم کی کاسٹ مکمل کر کے کام شروع کروادیا۔دھڑا دھڑا شوٹنگ ہورہی تھی اور پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہاتھا۔فلم بینوں کی دلچسپی بڑھانے کے لیے نجی ٹی وی چینلز پر بار بار ٹریلر دکھائے جارہے تھے۔فلمی حلقے میں ہلچل مچ گئی کہ اور کئی لوگ امیتاز صاحب کے آگے پیچھے گھومنے لگے جس کی وجہ سے انہیں مزید دو فلموں کیلئے ایک ساتھ سرمایہ لگانا پڑ رہا تھا، کثیر سرمایہ کاری کیلئے انہیں گلبرگ والا بنگلہ بیچنا پڑا۔ساحل صاحب کی دو فلمیں بے حد کامیاب رہی تھیں،دس ماہ کے عرصہ میں فلم انٹرول میں داخل ہوچکی تھی۔اس دوران مجھے کئی بار اسٹوڈیو جانے کااتفاق ہوا۔یوسف صدیقی کی بیٹی کی شادی تھی اور وہ دس روز کی چھٹی پر تھے۔جمہ کے روزصبح دس بجے امتیاز صاحب نے مجھے بنگلے پر بلوایا۔اپنی زیر تکمیل فلموں کی کاسٹ اور کریو سمیت پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر کی لگ بھگ دو سو افراد کے ناموں کی ایک لسٹ تیار کروائی،اتوار کے روز امتیاز صاحب نے پرل کانٹی نینٹل میں ظہرانے کاپروگرام ترتیب دے رکھاتھا۔
امتیاز صاحب کی ملنساری اور شاہ خرچی کا علم اسٹوڈیو میں آنے والے ہرفرد کو تھا۔بنگلے میں چار پانچ ملازم،امتیاز صاحب کی دوسری بیوی ہاجرہ کے ساتھ رہتے تھے……امتیاز صاحب اپنی بیوی کے ساتھ گلبرگ والے بنگلے سے سٹی گارڈن آرہے تھے انہوں نے شراب پی رکھی وہ خود ڈرائیو کررہے تھے کہ رائیونڈ روڈ کے چوک پر ان کی کار ٹرک سے ٹکراگئی(اب یہاں اوورہیڈ بن چکا ہے جو بائی پاس کی صورت میں ملتان روڈ سے منسک ہے)ہسپتال میں تین روز بعد جب انہیں ہوش آیا تو یوسف صدیقی نے اُن کی بیوی کے انتقال کی خبرسنائی۔کئی روز بعد ان کی حالت سنبھلی،وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر آگئے تھے۔جب جب انہیں اپنی بیوی، گل بانو کی یاد آتی،اپنے گلبرگ والے بنگلے میں چلے جاتے جہاں انہیں دلی سکون ملتا۔گوشہئ تنہائی میں بیٹھ کرشراب پیتے رہتے اور شام کو اسٹوڈیو میں اپنے فلم ساز دوستوں کے پاس وقت گزارتے۔
ہدایت کار وکہانی نویس صدیق ساحل کو اپنی فلم ”پردے کے پیچھے کیا ہے؟……“کے لیے تگڑی پارٹی کی تلاش تھی وہ اپنا سکرپٹ لیے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہے تھے، فلم کے گیت وہ افسر لاہور ی سے لکھوا چکے تھے اور موسیقار احمد عباس سے بھی ان کی بات چیت چل رہی تھی۔ایکٹرز کا فارمیٹ بھی بناچکے تھے،گانوں کی کمپوزیشن اور فلم کا سیٹ لگانے کے لیے انہیں بڑا بجٹ درکارتھا۔امتیاز صاحب نے دوستوں کے مشورے سے سرمایہ لگانے کی حامی بھرلی،ایگری منٹ بھی سائن ہوگیا اورصدیق ساحل نے فلم کی کاسٹ مکمل کر کے کام شروع کروادیا۔دھڑا دھڑا شوٹنگ ہورہی تھی اور پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہاتھا۔فلم بینوں کی دلچسپی بڑھانے کے لیے نجی ٹی وی چینلز پر بار بار ٹریلر دکھائے جارہے تھے۔فلمی حلقے میں ہلچل مچ گئی کہ اور کئی لوگ امیتاز صاحب کے آگے پیچھے گھومنے لگے جس کی وجہ سے انہیں مزید دو فلموں کیلئے ایک ساتھ سرمایہ لگانا پڑ رہا تھا، کثیر سرمایہ کاری کیلئے انہیں گلبرگ والا بنگلہ بیچنا پڑا۔ساحل صاحب کی دو فلمیں بے حد کامیاب رہی تھیں،دس ماہ کے عرصہ میں فلم انٹرول میں داخل ہوچکی تھی۔اس دوران مجھے کئی بار اسٹوڈیو جانے کااتفاق ہوا۔یوسف صدیقی کی بیٹی کی شادی تھی اور وہ دس روز کی چھٹی پر تھے۔جمہ کے روزصبح دس بجے امتیاز صاحب نے مجھے بنگلے پر بلوایا۔اپنی زیر تکمیل فلموں کی کاسٹ اور کریو سمیت پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر کی لگ بھگ دو سو افراد کے ناموں کی ایک لسٹ تیار کروائی،اتوار کے روز امتیاز صاحب نے پرل کانٹی نینٹل میں ظہرانے کاپروگرام ترتیب دے رکھاتھا۔
امتیاز صاحب فلمی دنیا میں ایسے مگن تھے جسے ان کے ہاتھ کوئی قارون کا خزانہ لگنے والا ہو۔صدیق ساحل کوفلم کے کام کو آگے بڑھانے کیلئے مزید رقم درکار تھی۔گلبرگ والا بنگلہ بیچ کر امتیاز صاحب نے اپنی تینوں زیر تکمیل فلموں پرساری رقم لگا دی۔میں نے ایک دوبار امتیاز صاحب سے کہا بھی کہ آپ لوگوں پر اندھا اعتماد کررہے ہیں پروہ اپنی دھن کے پکے تھے جس بات پر وہ اڑ جاتے تو اس پر قائم رہتے۔ان کے ایک مخلص دوست آصف خان نے بھی اپنے طور پر انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے مگر انہوں نے ان کی بات بھی سنی ان سنی کردی۔رائے ونڈ روڈ پر ہاجرہ موٹرز کے نام سے ان کا ایک شوروم بھی تھا جو اُن کی دوسری بیوی ہاجرہ کے نام تھا۔ہاجرہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ شوروم بھی بک گیا ہے وہ ناراض ہو کر میکے چلی گئی اور عدالت میں کیس دائر کردیا۔سٹی گارڈن کا بنگلہ اور سارابنک بیلنس سب اسی کے نام تھا۔امتیاز صاحب دس کروڑ کی کثیر رقم اپنی زیر تکمیل تین فلموں پر لگاچکے تھے۔
دوسال تک عدالت میں کیس چلتا رہا،امتیاز صاحب اسی بات کو لے کر بہت پریشان رہنے لگے تھے۔حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے تھے۔ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے دوفلموں کا کام رک چکا تھا۔اکاؤنٹ خالی ہوچکا تھا اخبار روزنامہ کی بجائے ہفتے میں دوبار چھپنے لگا۔مرتے کیا نہ کرتے اس عرصے میں ایک فیکٹری بچی تھی سو وہ بھی ان کے ہاتھ سے چلی گئی۔صدیق ساحل پچاس لاکھ مزید لے چکے تھے فلم کا کام نوے فیصد ہوچکا تھا،امتیاز صاحب کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ بچی تھی۔اس صدمے کے باعث ان کی زندگی میں بھونچال آگیا،امتیاز صاحب کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی جارہی تھی۔ان کے آگے پیچھے تو کوئی تھا نہیں،ملنے جلنے والوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے تھے۔زندگی انہیں فٹ پاتھ پر لے آئی تھی۔بکھر ے بکھرے بال،میلے کچیلے کپڑے اور بڑھی ہوئی شیو……ان کے روز وشب فٹ پاتھ پر بسر ہورہے تھے۔امتیاز صاحب کا ”سویرا“تاریکیوں کی نذر ہوچکاتھا۔جہاں جگہ ملتی آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتے۔لوگ انہیں بھکاری جان کر بھیک میں چار آٹھ آنے ان کے پاس پھینک جاتے۔۔۔
”پردے کے پیچھے کیا ہے؟……“……”گل بانو“……”ٹھوکر نیاز بیگ“……امتیاز صاحب کا ذہنی توازن بگڑ گیا تھا۔”پردے کے پیچھے کیا ہے؟……“……”گل بانو“……”ٹھوکر نیازبیگ۔۔۔یہی الفاظ دہراتے رہتے۔۔
ایک رات ”ٹھوکر نیاز بیگ“ کی سڑک پر امتیاز صاحب کثرتِ مے نوشی کی وجہ سے بے سدھ پڑے تھے کہ ایک تیز رفتار کارانہیں روندتی ہوئی گزر گئی۔
(ختم شد)
MASOOD TANHA
Editor"Fikr-e-Nau"
Circular Road Sahiwal 40210 District Sargodha(pb)Pakistan
E-mail:fikrenaulhr@gmail.com
00923016546290